وزیراعلی پنجاب عملی کام کے لیے پر عزم

مائیک توڑنے، سرکاری افسروں کو بات بات پر معطل کرنے ، ہر وقت آن لائن کانفرنسوں اور
گڈ گورننس کے زوردار نعروں کا پس منظر رکھنے والے صوبے کے وزیر اعلی سردار عثمان بزدار بیک وقت بہت سارے چیلنجز سے نبرد آزما ہیں۔

اور ان کو اپنوں اور مخالفین کی جانب سے سخت ترین دوربینوں اور خوردبینوں کا سامنا ہے۔جیسا کہ ہمارے معاشرے کا چلن ہے کہ ہم اپنے آپ کے کے بہترین وکیل اور دوسرے کے لیے اعلی’ ترین جج بن جاتے ہیں۔یہی صورت حال وزیر اعلی پنجاب کے لیے بھی ہے۔90 شاہراہ قائداعظم کے باہر جب رم جھم برسات سے ماحول جھل تھل ہو رہا تھا۔اس وقت اندر کا ماحول سردار عثمان بزدار کے جوش اور جذبے سے حدت پکڑ رہا تھا۔نرم دم گفتگو ، گرم دم جستجو رکھنے والے بلوچ سردار کی آواز گو آہستہ تھی لیکن ان کے لہجے میں عزم بلا کا تھا میں اور صدر یو ایم ٹی ابراہیم حسن مراد وزیر اعلی پنجاب کے سامنے بیٹھے ان کی باتیں سن رہے تھے اور اپنے خیالات اور مشاہدات بھی بیان کر رہے تھے۔ہر موقع پر پہنچنا ضروری ہے یا کمانڈر کا کام بیٹھ کر کنڑول کرنا ہوتا ہے۔

ہمارے ایک مہربان دوست جو آج کل بھی ایک صوبے کے آئی جی ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ کوئی واقع ہوتا ہے تو سب سے پہلے ایس ایچ او موقع پر پہنچتا ہے۔اور کانسٹیبل سے حالات معلوم کرتا ہے۔پھر ڈی ایس پی ، پھر ایس پی ، پھر ڈی آئی جی ، پھر آئی جی موقع پر پہنچ کر حالات معلوم کرتا ہے اور یوں جو وقت پلا ننگ اور آئندہ کے لائہ عمل کے لیے صرف ہونا چاہیے تھا وہ اس بھاگ دوڑ میں چلا جاتا ہے۔

سوال ہی ہے کہ کیا معطلیاں کرنے سے نظام درست ہو جاتا ہے۔موقع پر غصے کے اظہار اور سخت احکامات سے بات بن جا تی ہے۔

سردار عثمان بزدار اس کے برعکس نہ صرف خیالات رکھتے ہیں ۔بلکہ عمل کے لیے بھی بر سر پیکار ہیں۔

ڈیرہ غازی خان پی پی 286 سے پنجاب اسمبلی کے ممبر منتخب ہونے والے سردسر عثمان بزدار وزیراعلی پنجاب منتخب ہونے کو اپنے لیے اللہ کی عطا اور کرم نوازی اور قیادت کی طرف سے ان پر اعتماد سمجتھے ہیں۔کسی نہ کسی نے تو یہ نظام چلانا ہو تا ہے۔اللہ نے ان کو ۔منتخب کیا ہے کہ وہ مخلوق خدا کی خدمت کر سکیں۔اور وہ اسی جذبے کو اپنے کام کی بمیاد سمجتھے ہیں۔دوسرے روایتی سرداروں کے برعکس وزیر اعلی پنجاب کے والد سردار فتح محمد بزدار ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے علاقے میں تعلیمی ترقی کے لیے اہم کردار ادا کیا عثمان بزدار خود بھی لاء گریجویٹ اور سیاسیات میں ماسٹر ڈگری رکھتے ہیں۔وزیر اعلی’ کے اہم ترین اھداف میں تفریق کا خاتمہ ،اور پسماندہ علاقوں کو ترقی یافتہ بنانا ہے۔جو تعلیمی سہولیات لاہور میں ہیں ۔ویسی سہولیات وہ راجن پور ، ڈیرہ غازی خان اور پورے جنوبی پنجاب کو مہیا کرنا چاہتے ہیں ۔

وزیر اعلی نے پورے ہفتے کو تقسیم کیا ہوا ہے۔کتنے دن اجلاس کرنے ہیں۔کتنے دن پبلک ڈیلنگ کرنی ہے۔آوٹ ڈور وزٹ اور سرپرائز وزٹ کے لیے باقاعدہ وقت معین اور مختص ہے۔تمام معاملات میں رہنمائی لینے کے لیے ایک سئینر سطح پر ایڈوائزری کونسل ہے۔جو ہر چیز کا نفع نقصان کا جائزہ لے کر اپنے خیالات سے وزیر اعلی کو آگاہ کرتی ہے اور پھر فیصلے ہوتے ہیں۔

کوئہ کام ہمارے پاس نہیں رکے گا۔اور نہ رکا ہے۔عوامی فلاح و بہبود کی جو چیز بھی ہمارے پاس آتی ہے ہم کسی بھی تاخیر کے بغیر اس کو آگے بڑھا دیتے ہیں۔”وزیراعلی بلا تکان بول رہے تھے۔جنوبی پنجاب اس وقت ان کی اعلی ترین ترجیح ہے۔ان کا جنوبی پنجاب سے انتخاب ہی اس لیے کیا گیا کہ جنوبی پنجاب کی محرومیوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔

جنوبی پنجاب کو ہر میدان میں آگے لانے کے لیے وہ نہایت پرعزم ہیں۔جنوبی پنجاب کے ہر بڑے شہر میں ایک یونیورسٹی یا یونیورسٹی کا کیمپس، ووکیشنل ٹریننگ سنٹرز کے ذریعے قوم کے نوجوانوں کو ہنرمنند بنانا ان کو خواب ہے۔اسی طرح ڈیرہ غازی خان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سنٹر بنانا، ملتان میں ایگرو فارم بنانا ، فیصل آباد اکنامک سٹی جیسے منصوبے فی الواقع انقلابی تبدیلیاں لائیں گےاور اس کے لیے ان کی خوش قسمتی ہے کہ ابراہیم حسن جیسے نوجوان اور پر عزم لوگ ان کے ہم رکاب ہیں۔اور روشن خیالات اور آئیڈیاز سے بھرپور شخصیت ہیں۔اور کچھ کرنے کا عزم بھی رکھتے ہیں۔

وزیر اعلی پنجاب کی طرف سے نئے آئیڈیاز اور عوام کو بہتر سہولیات فراہم کرنے کے کیے تجاویز کی خواہش کے بعد ابراہیم حسن مراد نے اپنی ٹیم کے ساتھ چئیرمین پنجاب پلا ننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ کے حبیب الرحمن گیلانی کے ساتھ تفصیلی میٹنگز بھی کیں اور ان کےمتعدد نئے پراجیکٹ کے بارے میں باقاعدہ عملی تجاویز بھی پیش کیں۔اور ان میں سے بہت پر عمل کی صورتیں بھی بن رہی ہیں۔

وزیر اعلی پنجاب اب تک بہت سارے سرپرائز دورے کر چکے ہیں۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پنجاب اور بلوچستان کی سرحد پر واقع ایک کوہستانی علاقے کے عام اور روایتی سرداروں سے جدا روایت رکھنے والے اس سردار کو میڈیا نے ابھی تک وہ اہمیت نہیں دی۔

یقینا اس میں کچھ کوتاہی ان کی ٹیم کی بھی ہے۔کہ جس کو چاہئے کہ وہ اپنا رہنا سہنا ہی اخبارات اور چینلز کو بنا لے۔اپنے اعلی اخلاق سے ان کو اپنا گرویدہ کر لے۔بالکل اسی طرح جیسے ہمارے ایک بزرگ جو فوت ہو چکے۔ذوالفقار علی بھٹو کے مخالفین میں سے تھے۔وہ ہر روز ایک ایسے اخبار جو بھٹو کا حامی اور ان کا مخالف تھا وہاں روز جاتے۔رپورٹر سے ملتے۔کبھی کبھار کوئی کتاب ڈائری بھی لے جاتے۔لیکن خبر نہ دیتے۔کئی دن بعد جب اخلاق اپنا کام کر چکا تھا۔رپورٹر نے پوچھا کہ آپ خبر کیوں نہیں دے کے جاتے۔ان بزرگ نے کہا کہ کیا فائدہ؟ آپ کے ایڈیٹر نے چھاپنی ہی نہیں ۔تو رپورٹر نے کہا کہ جناب ایڈیٹر کی ایسی کی تیسی۔آپ خبر دیں۔اور اس کے بعد سب سے زیادہ خبریں وہاں چھپیں۔

بات لمبی ہو گئی۔ٹیم کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔فارسی کا ایک محاورہ ہے کہ پیر خود کچھ نہیں ہوتا۔مرید اسے پیر بناتے ہیں۔ہماری جتنی بھی ملاقاتیں وزیراعلی سے ہوئی ہیں۔اس میں ان کو ایک پر عزم اور باصلاحیت رہنماء پایا ہے۔سوچ اور وژن بھی ہے۔تڑپ بھی ہے اور کچھ کر گزرنے کا عزم بھی ہے ۔اور ان کی خوش قسمتی کہ سردار اعجاز جعفر جیسا باصلاحیت اور تجربہ کار بیورو کریٹ بھی انتہائی اخلاص کے ساتھ دن رات دیکھے بغیر ان کے لیے سرگرم عمل ہے۔اور اپنے تجربات کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لا رہے ہیں۔

لیکن اس کے باوجود ایک مخلص ٹیم کی ضرورت ہے جو وزیراعلی کی پشت پر ہو۔میڈیا، تعلیم ، صحت اور ہر شعبے میں اھداف مقرر کیے جائیں ۔مختصر اور طویل دورانیئے کی پلا ننگ کی جائے۔مانیٹرنگ کی جائے۔

چیک اینڈ بیلنس رکھا جائے۔وزیراعلی کی سوچ اور فکر کو پروموٹ کیا جائے۔لاہور سے لے کر رحیم یار خان تک وزیراعلی کے اقدامات کو محسوس کیا جائے۔اور اس کے لیے ایک مضبوط ٹیم اور مسلسل جائزے کی ضرورت ہے۔لاہور، ملتان اور راولپنڈی بڑے میڈیا سنٹرز ہیں۔یہاں پر وزیر اعلی کے اعتماد کی ٹیم ہونی چاہیے جو ان کے اقدامات کو بہترین طریقے سے میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچائے۔اور میڈیا کے ساتھ بھی بہترین رابطے میں ہو۔

پنجاب کے بہت سارے دور دراز علاقے ایسے ہیں جہاں سے مریض کو ہسپتال لانے تک وہ اللہ کو پیارا ہو جاتا ہے۔اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار نے ائیر ایمبولینس کا منصوبہ پیش کیاہے ۔اور جلد اس پر عمل درآمد ہو گا لیکن افسوس یہ ہے کہ اس کی وہ پذیرائی نہیں ہوئی جس طرح ہونا چاہیے تھا۔یہ بہت بڑا اور انقلابی قدم ہے اور اس سے بے شمار قیمتی جانیں محفوظ ہوں گی۔ خصوصا دور دراز کے علاقوں سے حادثات اور ایمرجنسی کی صورت میں ہسپتالوں میں پہنچانا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔اور ایسے میں وزیراعلی کی طرف سے یہ اقدام بہت اہمیت کا حامل ہے۔

میڈیا کو بھی اپنا دہرا معیار ترک کرنا چاہیے ۔اور بڑے بڑے سرمایہ دار جب کسی عہدے پر ہوتے ہیں اور ایک عوامی نمائندہ جب کسی جگہ پر ہو تو ان کو فرق نہیں کرنا چاہیے ۔اور عوامی مفاد کے کاموں کی حوصلہ افزائی اور تشہیر میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔اور اپنی ذات کو پیچھے رکھنا چاہیے ۔بلا شک وزیراعلی اتنے بڑے صوبے کو چلاتے ہوئے ہر میڈیا پرسن سے رابطہ نہیں رکھ سکتے اور نہ ان سے یہ توقع کرنی چاہیے۔تاہم ان کے اقدامات اور کاموں سے میڈیا کو آگاہ رکھنا اور ہر وقت رابطے میں رہنا ٹیم کی ذمہ داری ہے۔

بے شک وزیر اعلی پنجاب نے اپنے لیے خود بہت بڑے بڑے اھداف مقرر کیے ہیں جو ان کے لیے چیلینج بھی ہے۔جنوبی پنجاب کو وسطی پنجاب کے برابر لانا ایک ایسا ٹارگٹ ہے جس کے لیے رات کی نیندیں اور دن کا سکون ترک کرنا ہوگا۔اور بلوچ سردار اس کے لیے پر عزم ہیں۔اور سمجھتے ہیں کہ عوام کی محرومیوں کا خاتمہ ہی ایک روشن مستقبل کی ضمانت ہیں۔اور تمام تر ترقی کا دارومدار تعلیمی ترقی پر منحصر ہے۔

سمت درست ہے۔بس جہدمسلسل کی ضرورت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے