بھکن سے ایک یکطرفہ مکالمہ

کل چوہدری بھکن بہت دنوں کے بعد ملا۔ حسب ِمعمول بے فکر اور خوش باش۔ نہ کوئی فکر نہ فاقہ۔ چوہدری خوش رہنے کا ڈھنگ جانتا ہے۔ بقول اس کے ؛جو میرے بس میں ‘میں کر لیتا ہوں اور جو میرے بس میں نہیں؛اسے اللہ پر چھوڑ دیتا ہوں۔ اب بھلا جو چیز میرے بس میں ہی نہیں ‘اس پرمجھے خوامخواہ پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ اور بھلا میں پریشان ہو کر بھی کیا کر لوں گا؟ جب میں کچھ کر ہی نہیں سکتاتو پھر اس پر پریشان ہونا اپنے آپ کو خراب کرنے کے علاوہ اور کیا ہے؟ ڈاکٹر پھجے کے بقول؛ چوہدری اس طرح اپنی ازلی سستی اور نحوستی پن کو جواز فراہم کرنے کی غرض سے اسے توکل میں لپیٹ کر اپنی جان بھی بچا لیتا ہے اور آپ لوگوں میں متوکل اور صوفی بننے کی کوشش کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چوہدری ایک موٹی کھال والا آدمی ہے اور اس پر چھوٹی موٹی بات اس لیے اثر نہیں کرتی کہ اس کے اندر احساس کی صلاحیت ہی نہیں ہے اور جب اسے کسی بات کا احساس ہی نہیں ہوتا تو بھلا اس کے لیے کسی بات کو محسوس کرنا اور نہ کرنا برابر ہے۔ اب آپ خود بتائیں ‘جو بندہ دو بیویوں کے ساتھ بھی خوش و خرم رہ سکتا ہو‘ اسے اور چھوٹی موٹی بات کیا پریشان کر سکتی ہے؟

سچی بات ہے کہ ڈاکٹر پھجے کی باتوں میں بھی وزن تو ہے‘ مگر چوہدری بھکن سے جب کسی پریشانی والی بات پر اطمینان کی صورت میں اس سے بات کی جائے ‘تو اس کے پاس اپنے اس اطمینان کے بارے میں کوئی نہ کوئی مناسب‘ بلکہ خاصی معقول دلیل ضرور ہوتی ہے۔ ڈاکٹر پھجے اور چوہدری بھکن میں ‘کیونکہ Personality Clash والا معاملہ ہے ۔اس لیے ڈاکٹر پھجے کی بظاہر معقول دلیل کو بھی پوری سنجیدگی سے نہیں لیا جا سکتا کہ جب معاملہ مخالفت میں حد سے گزر جائے تو ایک دوسرے پر ذاتی حملوں کا عمومی تاثر ختم ہو جاتا ہے اور لوگ اسے بالکل اسی طرح سنجیدگی سے نہیں لیتے‘ جس طرح آج کل عقلمند لوگ فواد چودھری اور فیاض چوہان کے بیانات کو لیتے ہیں اور انہیں رتی برابر اہمیت نہیں دیتے؛ حالانکہ ان کے بیانات بعض اوقات ٹھیک بھی ہوتے ہیں‘ لیکن ہمہ وقت بلکہ وقت بے وقت کے ان مسلسل اور بلاجواز بیانات نے ان کے درست والے بیانات کو بھی قطعاً غیر اہم اور بے معنی بنا کر رکھ دیا ہے۔ یہی حال اپنے ڈاکٹر پھجے کا ہے۔

بات کہیں سے کہیں چلی گئی۔ کل چوہدری بھکن ملا تو حسب ِمعمول بے حد خوش باش تھا۔ ادھر ادھر کی دوچار باتوں کے بعد گفتگو کا موضوع اسی طرف آ گیا ‘جو ہم پاکستانیوں کا پسندیدہ ترین ہے‘ یعنی سیاست۔ اور سیاست سے مراد تازہ ملکی حالات ہوتے ہیں۔ سو‘ گفتگو موجودہ پاک بھارت تعلقات پر آ گئی ‘جو ظاہر ہے اس وقت خراب ترین سطح پر ہیں اور جنگ کے بادل خطے پر منڈلا رہے ہیں۔ چوہدری خراب صورتحال کے باعث‘ جنگ کے متوقع خطرے پر بھی بڑا مطمئن تھا۔ میں نے کہا: چوہدری! تم بڑے مطمئن ہو؟ کہنے لگا: تو میں اور کیا کروں؟ کیا میرے فکرمند ہونے سے صورتحال بہتر ہو جائے گی؟ مودی کا پاگل پن کم ہو جائے گا؟ بھارتی میڈیا اعتدال پر اتر آئے گا۔ سارے ہندو جس طرح پاکستان کے خلاف یک زبان ہو کر ہذیان بک رہے ہیں‘ بند کر دیں گے؟ ساری بھارتی فلم انڈسٹری جس طرح پاکستانی فنکاروں کے خلاف یکسو ہے ‘معتدل رویہ اپنائے گی؟ ان سب باتوں کا جواب ہے؛ نہیں! اب تم بتاؤ میں فکر مند ہو کر کیا کر لوں گا؟ میری ساری فکر مندی کس کام کی؟ اور سب سے ضروری اور اہم بات یہ ہے کہ کیا یہ فکرمندی میری ذمہ داری ہے؟ کیا یہ میرے کرنے کا کام ہے؟ بھائی مجھے اطمینان اس لیے ہے کہ جن کی یہ ذمہ داری ہے‘ وہ فکرمند ہیں۔ جن کا یہ کام ہے‘ وہ تیار ہیں۔ جن پر ہم نے یہ کام چھوڑا ہوا ہے۔ وہ مستعد ہیں۔ بھلا میں کیوں فکرمند ہوں؟۔

چوہدری کہنے لگا: خالد میاں! یہ کام پاک فوج کا ہے؛ اگر وہ فکرمند نہ ہو تو مجھے فکر ہوگی۔ اگر وہ مستعد نہ ہو تو مجھے پریشانی ہوگی۔ اگر وہ تیار نہ ہو تو مجھے خوف محسوس ہوگا اور اگر وہ ڈری ہوئی ہو تو مجھے ڈر لگے گا۔ اگر یہ سب کچھ نہیں ہے تو مجھے ڈرنے کی‘ خوف محسوس کرنے کی‘ فکر مند ہونے کی اور پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ میں بھلا خوامخواہ فضول میں‘ بے فائدہ اپنی جان کیوں ہلکان کروں؟ جس کا جو کام ہے ‘وہ وہی کام کرے۔ فوج کس لیے ہوتی ہے؟ ملکی سرحدوں کی حفاظت کن کا کام ہوتا ہے؟ ریاست کا دفاع کن کی ذمہ داری ہے؟ بھائی! جن کا کام ہے‘ وہ اپنا کام جانتے بھی ہیں اور اپنی ذمہ داری پوری کرنے کا عزم بھی رکھتے ہیں۔ میرے پریشان ہونے کا کیا تک ہے؟ میرا دماغ خراب ہے کہ میں مفت میں پریشان ہو کر اپنا اور اپنے اردگرد والوں کا مورال ڈاؤن کروں۔ مجھے تو ان دنوں یہ فکر لاحق ہے کہ ملتان سلطان کا کیا بنے گا؟۔

یہ کہہ کر چوہدری زور سے ہنسا اور کہنے لگا: اوئے کالم نویس! تو میری بات کر رہا ہے؟ ادھر یہ عالم ہے کہ سارا وقت پاک فوج میں کیڑے نکالنے والے۔ ڈھکے چھپے اور کھلے عام اس کے خلاف بکواس کرنے والے۔ سارا وقت سوشل میڈیا پر اپنا بغض نکالنے والے۔ ملک میں ہر خرابی کا ملبہ فوج پر ڈالنے والے نام نہاد لبرل اور ترقی پسند بھی میری طرح اطمینان سے بیٹھے ہیں اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ اندر سے انہیں بھی صرف یہی اطمینان ہے کہ پاک فوج ملکی سرحدوں کی حفاظت کے لیے موجود ہے۔ جس کو سارا دن مطعون کرتے ہیں۔ طنز کے تیر چلاتے ہیں۔ برا بھلا کہتے ہیں۔ اب اسی پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں۔ اب کسی کی آواز نہیں نکل رہی۔ کوئی چوں تک نہیں کر رہا۔ گزشتہ ڈیڑھ ہفتے سے سب کو ٹھنڈ پڑی ہوئی ہے۔ ادھر میں ؛اگر مطمئن ہوں تو اس میں حیرانی کی کیا بات ہے؟ مجھے تو پہلے ہی سے یہ اطمینان ہے کہ آخر کار اس ملک کی سرحدوں کی حفاظت پاک فوج ہی کرے گی۔ یہ نہ تو کسی اور کی ذمہ داری ہے اور نہ ہی کوئی یہ کام کر سکتا ہے۔ نہ میں‘ نہ تم۔ اور اگر یہ ہمارا کام نہیں تو خوامخواہ کی پریشانی کیسی؟۔
ہمارا جو کام ہے ‘ہم وہ کریں۔ ہمارا کام ہے‘ تمام سیاسی اختلافات کے باوجود پاکستان سے محبت میں کوئی چیز حائل نہ ہو۔ بھارت کے عزائم کے خلاف اپنے سارے اختلافات بھلا کر ایک قوم بن کر دکھائیں۔ بالکل ویسے ہی ‘جیسے بھارتی ساری دنیا میں پاکستان کے خلاف یکسو ہیں۔ بھارت کیا ہمیں ٹماٹر دینے سے انکار کرے‘ ہمیں خود بھارتی ٹماٹر ان کے منہ پر مارنے چاہئیں۔ بھارت کیا ہمارے فنکاروں کا بھارت میں داخلہ بند کرے‘ ہمارے فنکاروں کو از خود بھارت کی فلم انڈسٹری کے منہ پر جوتا مارنا چاہئے۔ تم نے ہی ایک بار ایک بات بتائی تھی کہ سید ضمیر جعفری مرحوم سے کسی بھارتی نے انٹرویو کرتے ہوئے کہا کہ فن کا کوئی ملک یا کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ اس کے جواب میں سید ضمیر جعفری ‘اللہ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے ‘جواب دیا: آپ کی بات ٹھیک ہے کہ فن کی کوئی سرحد یا ملک نہیں ہوتا‘ لیکن فنکار کا ضرور کوئی ملک ہوتا ہے۔

چوہدری اس کے بعد تھوڑا موڈ میں آ گیا اور کہنے لگا: میری خواہش ہے کہ بھارتی ہمارے فنکاروں کو‘ گلوکاروں کو‘ اداکاروں کو جوتے مارے۔ انہیں اپنی کسی فلم میں کام نہ دیں۔ ان کا کوئی گانا اپنی فلم میں نہ ڈالیں۔ یہ جو ہمارے فنکار بھارتی فلموں میں کام کے لیے مرے جاتے ہیں‘ ان کو پتا چلے کہ وہ بے شک فن کو سرحدوں اور ملک کی محبت سے بالاتر سمجھتے ہیں‘ مگر بھارتی وقت آنے پر اس ڈھکوسلے سے باہر آ جاتے ہیں اور فنکار کو ملک کے حوالے سے دیکھتے ہیں اور فن کو سرحد کا پابند سمجھتے ہیں۔

چوہدری کہنے لگا: تم کچھ نہیں بول رہے؟ میں نے کہا :چوہدری! تو ایک طویل عرصے کے بعد سمجھداری کی گفتگو کر رہا ہے اور میں تمہاری اس مخیر العقول واقعے کے دوران تمہاری گفتگو میں مخل نہیں ہونا چاہتا۔ اس لیے خاموش ہوں۔ چوہدری کہنے لگا: ایمانداری کی بات ہے کہ ہم قیام پاکستان کے بعد پیدا ہونے والے لوگ‘ جنہوں نے نہ تو پاکستان بننے کی وجوہات پر کبھی غور کیا ہے اور نہ ہندو کو کبھی نزدیک سے دیکھا ہے۔ نہ پاکستان کی قدر کرتے ہیں اور نہ دو قومی نظریے پر یقین رکھتے ہیں۔ انہیں ایسی صورتحال میں بھارتی ایک بار پھر پاکستان کی تخلیق کا جواز پیش کر کے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ‘لیکن ہم احمق پھر بھی نہیں سمجھتے۔ اللہ ہمیں عقل سلیم عطا کرے۔ یہ کہہ کر چوہدری خاموش ہو گیا۔ ایمانداری کی بات ہے‘ چوہدری نے تو کل مجھے واقعتاً حیران کر کے رکھ دیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے