’’او آئی سی‘‘ میں سشما سوراج

غالبؔ کی طرح حیران ہوں کہ روؤں یا…

اس برس اسلامی ممالک کی تنظیم (OIC)کے قیام کے پچاس برس مکمل ہوجائیں گے۔ اس تنظیم کی گولڈن جوبلی کو ذہن میں رکھتے ہوئے متحدہ عرب امارات میں اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہورہا ہے۔ اسی حوالے سے دو روزہ تقریبات بھی ہورہی ہیں جس میں "50 Years of Islamic Cooperation”کے عنوان تلے تقاریر ہوں گی۔ مقالے پڑھے جائیں گے۔

بھارتی وزیر خارجہ سشما شوراج کو اس تقریب کے افتتاحی اجلاس میں ’’مہمانِ خصوصی‘‘ کی حیثیت میں مدعو کیا گیا ہے۔اگرچہ اس کا ملک ’’اسلامی‘‘ ہونے کا دعوے دار نہیں۔مودی سرکار کی آمد کے بعد سے بلکہ اپنی ’’ہندوشناخت‘‘ کو اجاگر کرنے پر مصر ہے۔ سیکولرازم کی مہا علامت بنے پنڈت جواہر لال نہرو کے آبائی شہر الہ آباد کا نام بھی بدل دیا گیا ہے۔ گائے کی حرمت کے نام پر شاہراہوں پر ٹرکوں کی تلاشی ہوتی ہے۔ کئی مسلمان صرف اس جرم میں وحشی ہجوم کے ہاتھوں مارے گئے کہ ان کے گھروں میں گائے کاگوشت پکانے کی جھوٹی افواہ پھیلائی گئی تھی۔پلوامہ کے بعد کشمیری طلبہ ا ور کاروباری افراد کا بھارت کے شہروں میں رہنا ناممکن بنادیا گیا ہے۔اپنی ’’سیکولر‘‘ شناخت کو ہندوتوا کے فروغ سے ’’شدہ‘‘کرنے کو مرے جاتے بھارت کی وزیر خارجہ کو ملی یہ دعوت مجھے ہضم نہیں ہورہی۔

ابھی تک کسی مسلمان ملک نے مگر سرکاری سطح پر اس کے بارے میں اعتراض نہیں اٹھایا ہے۔محسوس ہورہا ہے کہ سشما سوراج کا اس تقریب میں گرم جوشی سے استقبال کیا جائے گا۔پاکستان میں کچھ حلقے تو یہ امید بھی دلارہے ہیں کہ بھارتی وزیر خارجہ کی اس تقریب میں موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے چند ’’برادر ممالک‘‘ اس کی پاکستانی وزیر خارجہ سے ملاقات کا جتن کریں گے۔سشما سوراج کی شاہ محمود قریشی سے علیحدگی میں ملاقات ہوگئی تو پاکستان اور بھارت کو ایک بار پھر ’’ایٹمی جنگ کے دہانے‘‘ سے پیچھے ہٹانے میں مدد ملے گی۔ ارادہ قطعاََ نیک اور قابلِ ستائش۔ اس کے اطلاق کے لئے مگر OICکے پلیٹ فارم کا استعمال زیادتی ہوگی۔ اگرچہ سفارت کاری کی باریکیاں سمجھنے کے دعوے دار سیانے مجھے یہ بھی بتارہے ہیں کہ سشماسوراج کو ’’مہمانِ خصوصی‘‘ بناکر پیغام یہ دینا مقصود ہے کہ اگربھارت کو اپنی معاشی ترقی کے لئے تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی ممالک کی سرمایہ کاری درکار ہے تو اسے اپنے ہاں آباد مسلمانوں کو برداشت کرنا ہوگا۔ شاید وہ درست کہہ رہے ہیں۔ میرے خبطی ذہن کو مگر یہ رویہ ’’نوٹ دکھاکر‘‘ راضی کرنے والا لگا ہے۔حیران کن لطیفہ یہ بھی ہے کہ بھارت OICکے قیام کے عین پچاس برس گزرنے کے بعد اس تنظیم میں Gate Crashکرتا نظر آرہا ہے۔اپنی بات کی وضاحت کے لئے تاریخ بیان کرنا ہوگی۔

1969ء کے اگست میں 19تاریخ کے دن کسی بدبخت نے مسجد اقصیٰ کو آگ لگانے کی کوشش کی تھی۔ مسلمانوں میں بے چینی پھیلی تو سعودی عرب کے شاہ فیصل نے تجویز دی کہ مراکش کے شہر رباط میں ایک کانفرنس بلاکر اجتماعی ردعمل دیا جائے۔مصر،عراق اور شام کااصرار تھا کہ مجوزہ کانفرنس میں فقط عرب ممالک شامل ہوں۔ شاہ فیصل کی خواہش تھی کہ عربوں کے علاوہ مسلم اکثریتی ممالک کو بھی ساتھ ملایا جائے۔عراق اور شام نے یہ تجویز ’’عرب قوم پرستی‘‘کے نام پر ردکردی۔ ایران،ترکی اور پاکستان کو امریکی چھتری تلے قائم ہوئے سینٹو کارُکن ہونے کی وجہ سے دور رکھنے پر بھی اصرار کیا۔ملائیشیا کے وزیر اعظم تنکو عبدالرحمن نے اس سوچ کی مزاحمت کی اور شاہ فیصل کو بلکہ اس امر پربھی قائل کردیا کہ بھارت کو بھی مذکورہ کانفرنس میں مدعو کیا جائے۔ وہ ’’غیر جانبدار‘‘ ملک ہے۔ فلسطینیوں کے حقوق کی اقوام متحدہ وغیرہ میں پُرزور حمایت کرتا ہے اور وہاں ان دنوں 6کروڑمسلمان بھی آباد تھے۔

شاہ فیصل قائل ہوگئے۔ جمال ناصر کا مصر ویسے بھی بھارت کا دیرینہ دوست تھا۔ اسے رباط مدعو کرلیا گیا۔رباط کے اجلاس کا اہتمام کرنے والے سربراہان میں سے چند ایک کو خدشہ تھا کہ اگر بھارت کو مجوزہ تنظیم کے اجلاس کے لئے بلالیا گیا تو پاکستان اس میں شریک ہونے سے انکار کردے گا۔ایسا مگر ہوا نہیں۔18ستمبر1969کے اجلاس میں شرکت کے لئے پاکستان کے صدر یحییٰ رباط پہنچ گئے۔چند ہی ماہ قبل موصوف نے جنرل ایوب کے استعفیٰ کے بعد پاکستان میں مارشل لاء لگایا تھا۔ وہ فیصلے کرنے میں قطعاََ خودمختار تھے۔ ’’رائے عامہ‘‘ کی محتاجی سے آزاد۔ہمارے ایک بہت ہی نفیس سینئرہوا کرتے تھے۔سیدابصار رضوی ان کام نام گرامی تھا۔ساری عمر انہوں نے پی پی آئی نامی نیوز ایجنسی کے لئے رپورٹنگ میں گزاری۔ایوب خان کے دور سے نواز حکومت کے آنے تک وہ سربراہانِ حکومت کے غیر ملکی دوروں کی کوریج کے لئے باقاعدگی سے جاتے تھے۔میرے بہت شفیق بزرگ تھے اور ان سے کئی عالمی معاملات کے بارے میں ’’اندر کی خبر‘‘ اور باتیں جاننے کا موقعہ نصیب ہوا۔

ابصاررضوی صاحب ہی کی بدولت مجھے پہلی بار یہ جاننے کا موقعہ ملا کہ بھارت کو OICکا ’’بنیادی رکن‘‘ بننے سے کیسے روکا گیا تھا۔ حیران کن حقیقت یہ بھی تھی کہ صدر یحییٰ نے بھارت کا راستہ اپنے کسی مشیر یا وزارتِ خارجہ کی کاوشوں کی بدولت نہیں روکا تھا۔ فیصلہ کن کردار اس ضمن میں ’’دوٹکے کے رپورٹروں‘‘ نے ادا کیا تھا۔ ابصار صاحب بھی ان رپورٹرں میں شامل تھے۔اس واقعہ کے بارے میں لکھنے کی مگر انہوں نے اجازت نہ دی ۔ ان کا خیال تھا کہ میں یہ واقعہ لکھتے ہوئے انہیں ’’ہیرو‘‘ بناتانظر آئوں گا۔وہ نمودونمائش سے خوفزدہ رہتے ہیں۔مجھے بھی Lie Lowرہنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ ’’حکمرانوں کی اگاڑی سے بچ کر رہو‘‘ان کا مسلسل مشورہ رہا۔مارچ 2008میں لیکن ارشد سمیع خان کی ایک دھماکہ خیز کتاب شائع ہوگئی۔ آج کی نوجوان نسل کے لئے بتانا ضروری ہے کہ وہ گلوکارعدنان سمیع کے والد تھے۔ پاک فضائیہ کے شاندار افسر رہے۔بھارت کے ساتھ جنگوں میں کارکردگی کی بناپر اعلیٰ ترین تمغوں سے بھی نوازے گئے۔وہ ایوب خان،صدر یحییٰ اور ذوالفقار علی بھٹو کے طاقت ور ترین ADCبھی رہے۔ اپنے تجربات پر مشتمل انہوں نے کتاب لکھی جس کا عنوان تھا "Three Presidents and an Aide”

اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ انہوں نے بیان کیا کہ بھارتی سفارتکاروں کو ’’اسلامی کانفرنس‘‘ کی تیاریوں میں دندناتے ہوئے حصہ لیتے ہوئے دیکھ کر ابصار رضوی صاحب کے علاوہ ان دنوں ڈان کے لندن میں مقیم نامہ نگار نسیم حسن صاحب کا جی کھول گیا۔ان دونوں نے جنرل یحییٰ سے تنہائی میں ملاقات پر اصرار کیا۔ ارشد سمیع نے موقعہ فراہم کردیا۔صحافیوں کی صدر یحییٰ سے ملاقات ہوئی تو دیگر باتوں کے علاوہ نسیم حسن صاحب نے انہیں یہ بھی سمجھایا کہ پاکستان کا قیام ہی ’’دوقومی نظریہ‘‘ کی بنیاد پر ہوا تھا۔بھارت اگر ’’اسلامی ممالک‘‘ کی تنظیم کا بنیادی رکن بن گیا تو ہماری ’’جدا(اسلامی)‘‘ شناخت کا جواز ختم ہوجائے گا۔جنرل یحییٰ یہ نکتہ سن کر چرا غ پا ہوگئے۔ غصے سے لال پیلے ہوکر بڑبڑاتے رہے کہ ’میں تو فوجی آدمی ہوں‘‘۔

سفارت کاری کی باریکیوں سے نابلد۔’’مجھے یہ بات (ایس ایم)یوسف اور آغا شاہی نے کیوں نہیں سمجھائی؟‘‘ یاد رہے کہ یوسف اُس وقت ہمارے خارجہ سیکرٹری تھے اور آغاشاہی اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب۔مذکورہ صحافیوں سے اس ملاقات کے بعد صدر یحییٰ نے اس وقت تک اپنی جائے قیام سے باہر تک نہ آنے کا فیصلہ کرلیا جب تک بھارت کو مدعوئین کی فہرست سے باہر نہیں نکالا جاتا۔پاکستان کے اخباروں میں یہ خبر بھی ’’چھپوائی‘‘ گئی کہ پاکستانی صدر نے بھارت کو دعوت دینے کی وجہ سے احتجاجاََ وطن لوٹنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ صدر یحییٰ کی ضد کام آگئی۔ بھارت OICکا بنیادی رکن نہ بن سکا۔ وقت مگر گزرجاتا ہے اور انگریزی کا ایک محاورہ Times Change Values Changeکی بات بھی کرتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے