اب کیا کریں

ایک جنگی جیٹ تین ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتا ہے۔ 120 کلومیٹر سرحد پار پہنچنے میں محض ڈھائی منٹ لگتے ہیں۔ اگر آپ ریڈار پر ٹریس کر بھی لیں تو بھی اپنے جہاز پرواز کر کے وہاں پہنچنے میں کتنا وقت لیں گے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ سرفیس ٹو ائیر میزائل ایک اور طریقہ ہے لیکن وہ بھی اس وقت کارگر ہو پاتا ہے اگر آپ جنگی حالت میں ہوں اور ہمہ وقت آسمان پر نگاہیں لگائے بیٹھے ہوں یا پھر آپ کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر انتہائی جدید ہو جو کہ شاید ہمارا نہیں ہے۔

پانچ سے چھ منٹ کی ایک سرجیکل سٹرائیک کسی بھی ملک کے خلاف ممکن ہے شاید اسرائیل اور امریکا کو چھوڑ کے۔ حتی کہ اس حوالے سے روس جیسے ملک کی دفاعی صلاحیت بھی مشکوک ہے۔

اس سے کچھ باتیں واضح ہو جاتی ہیں ۔ پہلی یہ کہ ہماری دفاعی صلاحیت میں خلا موجود ہے اور جنگ کی صورت میں دشمن اس کا بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ہم اسے کس حد تک مستحکم کر سکتے ہیں اس کا جواب کوئی دفاعی تجزیہ کار ہی دے سکتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ دفاعی صلاحیت کے خلا کے باوجود سرجیکل اسٹرائیک کو چند منٹ میں لپیٹنا اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ ہم کسی نہ کسی حد تک دفاع کی صلاحیت رکھتے ہیں حالانکہ ایبٹ آباد آپریشن میں اس پر بہت بڑے سوال کھڑے ہو چکے ہیں ۔

لیکن جو بات سب سے اہم ہے وہ یہ کہ اگر آپ اس وقت سوشل میڈیا کا جائزہ لیں تو جس جنگی ہسٹریا کا طعنہ ہم کئی روز سے ہندستان کو دے رہے تھے وہ اب ہم پر طاری ہو گیا ہے۔ جبکہ آئی ایس پی آر کے مطابق ہمارا کوئی نقصان بھی نہیں ہوا۔ اب ہر کوئی جواب دینے کی بات کر رہا ہے۔

اب آپ کو سمجھ جانا چاہیے کہ جنگی جنون کیسے طاری ہوتا ہے۔ جب وہ سمجھ رہے تھے کی ایک کوورٹ حملہ ہماری جانب سے ہوا تو وہ جنگی ہسٹریا میں مبتلا ہوئے اور اب ایک اوورٹ اٹیک میں یہی حالت ہماری ہے۔

سلالہ میں تو ہمارے جوان مارے گئے تھے ۔ کیا ہم نے نیٹو افواج کے خلاف جنگ چھیڑی۔ ڈرون حملوں کے بعد کیا ہم نے امریکا یا نیٹو ہیڈ کوارٹر پر کوئی میزائیل داغا۔ دفاع کی ذمہ داری جن کاندھوں پر ہے، یہ ان کا فیصلہ ہے۔ انہی پر چھوڑ دیجیے۔ کل ہندستان کف اڑا رہا تھا ، آج آپ بدلے کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ یہ جنگ اگر ہوئی تو فیس بک اور ٹوئٹر پر نہیں ہو گی۔ اصل جنگ کی تباہ کاری فیس بک مجاہدین نے دیکھی نہیں

اگر تو حملہ ہماری کسی قومی انسٹالیشن پر ہوا ہے تو بات اور ہے۔ اگر نان سٹیٹ ایکٹرز کے ٹھکانے نشانہ بنے ہیں تو بات اور ہے۔ یہ کہانی بھی آج کھل جائے گی۔ غیرت کے نعرے بہت اچھے لگتے ہیں اور جنگی ترانے بھی پر زمینی حقائق مختلف ہوتے ہیں۔ روایتی اور غیر روایتی دونوں طرح کی جنگ میں ہندوستان کی جارحانہ اور دفاعی صلاحیت ہم سے کئ گنا ہے۔ یہ تلوار اور تیر کی جنگ نہیں ہے۔ میزائیل کے آگے ترانے ، دعائیں اور کلمے ڈھال نہیں بنتے۔ ایک کمرے میں بٹن دبا کر ہزاروں لوگ نیست ونابود کر دیے جاتے ہیں ۔ اب داد شجاعت جیسے بوسیدہ نعرے کسی کام کے نہیں ہیں۔ ٹیکنالوجی کے آگے جذبہ کام نہیں آتا۔

جن کا خیال ہے کہ افغانستان نے سپر پاورز کا منہ پھیر دیا ہے وہ کابل اور قندھار کے کھنڈرات اور اس میں بسنے والے لوگوں کی زندگی کا موازنہ ماسکو، لینن گراڈ، لندن ، نیویارک اور واشنگٹن سے کر لیں پھر اپنے تجزیوں کو نچوڑ کر اس میں ڈوبنا چاہیں تو ان کی مرضی ہے۔

کیا ہم چپ کر کے یہ سرجیکل سٹرائیک سہہ لیں۔ شاید یہ بھی غیر مناسب ہو گا پر کسی ایسی کارروائی کا چھیڑنا جو جنگ پر منتج ہو، ہر گز دانشمندانہ نہیں۔ اب وقت ہے کہ ہم اپنے نان سٹیٹ ایکٹرز کو مکمل لگام ڈالیں اور پھر اپنا مقدمہ عالمی فورم میں رکھیں۔ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں۔ اور اس مسئلے کے حتمی حل کے لیے کام کریں۔ جذبات میں آ کر ایک ارب سے زائد لوگوں کی زندگی داؤ پر لگانے کی کوشش نہ کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے