بات بگڑی تو نہ میرے ہاتھ میں رہے گی اور نہ مودی کے

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے انڈیا کی ساتھ عسکری کشیدگی کے بعد خطاب میں انڈیا کو جنگ کی طوالت اور تباہ کاریوں سے متعلق خبردار کرتے ہوئے ’عقل و حکمت‘ اختیار کرنے کا مشورہ دیا اور ایک مرتبہ پھر پلوامہ حملے میں تحقیقات کی پیش کش کی۔

وزیر اعظم کا خطاب کے آغاز میں کہنا تھا کہ ’کل سے جو صورتحال بن رہی ہے میں چاہتا تھا کہ میں آپ کو اعتماد میں لوں۔‘

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’پلوامہ حملہ کے بعد ہم نے انڈیا کو تحقیقات میں ہر طرح کا تعاون فراہم کرنے کو کہا۔ ہم لواحقین کے دکھ کو سمجھ سکتے ہیں اور اسی وجہ سے ہم نے ہر طرح کی تحقیقات کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اگر کوئی پاکستانی ملوث ہے تو پاکستان پوری طرح تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔‘

انھوں نے واضح کیا کہ ’ہم نے یہ اس لیے کہا کہ یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے کہ پاکستان کی زمین دہشت گردی کے لیے استعمال کی جائے۔‘

’اس معاملے میں کوئی تنازع تو تھا ہی نہیں ہم تحقیقات میں تعاون کے لیے تیار تھے۔‘

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا ’اس کے باوجود مجھے یہ خدشہ تھا کہ انڈیا کوئی ایکشن لے گا۔ اور اسی لیے میں نے کہا تھا کہ پاکستان ایسی کسی صورت میں جواب دینے پر پاکستان مجبور ہو گا۔‘

’جواب ہمیں دینا تھا کیونکہ کوئی بھی خود مختار ملک اپنی خود مختاری پر حملہ برداشت نہیں کرتا۔‘

عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ کسی طور مناسب نہیں کہ کوئی ملک کسی دوسرے ملک میں کارروائی کرے اور جج اور منصف اور فیصلہ ساز خود ہی بن جائے۔

[pullquote]عقل اور حکمت کے استعمال کا وقت[/pullquote]

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ اب سوچنا یہ ہے کہ مستقبل میں کیا رویہ اپنایا جائے۔

انڈیا کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’میں انڈیا سے کہنا چاہتا ہوں کہ اب وقت ہے کہ ہم عقل اور حکمت استعمال کریں۔ دنیا میں جتنی بھی جنگیں ہوئی ہیں اس میں غلط اندازے لگائے گئے۔ کسی کو نہیں معلوم ہوتا کہ جنگ شروع ہونے کے بعد کہاں جائے گی۔‘

’پہلی جنگ عظیم کو چھ ماہ میں ختم ہونا تھا مگر اس کو چھ سال لگ گئے۔ افغانستان میں ہونے والی جنگ میں کیا امریکہ نے سوچا تھا کہ وہ 17 سال افغانستان میں پھنسا رہے گا۔‘

پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان نے انڈیا کو خبردار کرتے ہوئے کہا چونکہ جنگوں کے حوالے سے ہمیشہ ہی اندازے غلط ہو جاتے ہیں تو کیا انڈیا اور پاکستان اس کے متحمل ہو سکتے ہیں۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا ’میں انڈیا سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ جس طرح کے ہتھیار ہمارے اور ان کے پاس ہیں کیا ہم اندازوں کی غلطی کے متحمل ہو سکتے ہیں۔‘

’ہمیں سوچنا چاہیے کہ اگر صورتحال یہاں بگڑتی ہے تو بات کہاں تک جائے گی۔ اور تب حالات نہ میرے احتیار میں رہیں گے اور نہ نریندر مودی کے اختیار میں رہیں گے۔‘

پاکستانی وزیر اعظم نے انڈیا کو تحمل کا مشورہ دیتے ہوئے ایک بار پھر پلوامہ کے حملے کے بارے میں تحقیقات میں تعاون کی پیش کش کی۔

’میں ایک مرتبہ پھر دعوت دیتا ہوں کہ ہم تحقیقات کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ اگر آپ دہشت گردی پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں اس کے لیے بھی ہم تیار ہیں۔ ہمیں بیٹھ کر بات چیت سے مسائل حل کرنے چاہیں۔‘

[pullquote]پاکستانی کی جانب سے کارروائی میں تاخیر کی وجہ[/pullquote]

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا انھیں انڈیا کی جانب سے کارروائی کا خدشہ اس لیے تھا کہ کیونکہ انڈیا میں انتخابات ہونے والے ہیں اور ان کی حکومت اس صورتحال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی اور اسی لیے انھوں نے انڈیا کو جوابی کارروائی سے متعلق خبردار کیا تھا۔

وزیر اعظم عمران خان نے انڈیا کی جانب سے سرحدی خلاف ورزی پر فوری کارروائی نہ ہونے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا انڈیا کی طرف سے منگل کی صبح کی جانے والی کارروائی پر ان کی بری اور فضائی فوج کے سربراہان سے بات ہوئی۔

’ہم نے فورا ایکشن اس لیے نہیں لیا کیونکہ ہمیں پتا نہیں تھا کہ ہمارے ہاں موقع پر کس طرح کا اور کتنا نقصان ہوا ہے۔ ایسے میں فی الفور ایکشن لینا بھی غیر ذمہ دارانہ اقدام ہوتا۔ اور ہم انڈیا کا جانی نقصان کردیتے جبکہ ہمارا کوئی جانی نقصان ہوا ہی نہ ہوتا۔‘

’ہم چاہتے تھے کہ کوئی کولیٹرل ڈیمیج نہ ہو اور جانی نقصان نہ ہو۔ ہم صرف انڈیا کو بتانا چاہتے تھے ہم میں صلاحیت ہے کہ اگر آپ ہمارے ملک میں آ سکتے ہیں تو ہم بھی آپ کے ملک میں جا کر کر کارروائی کر سکتے ہیں۔‘

وزیر اعظم نے پاکستان کی جانب سے کارروائی کے دوران جاری صورتحال کے بارے میں تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ دو انڈین طیاروں نے سرحد عبور کی جنہیں مارا گرایا گیا۔ اور ان طیاروں کے پائلٹ ہمارے پاس ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے