عمران اور امن‘ مودی اور یُدھ

ہندی زبان میں جنگ کو یُدھ کہا جاتا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کے سر پر آج کل یُدھ سوار ہے۔ دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں اور یُدھ کی تیاریاں بھی کی جا رہی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان سلامتی اور امن کی بات کرتے ہیں۔ انہوں نے تحریک انصاف کے ایم این اے جناب رامیش کمار کو ہندوستان بھیجا ہے کہ وہ نریندر مودی سے بات کریں اور پیغام دیں کہ وہ امن کو موقع دیں۔ رامیش کمار پاکستان کی ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے امن پسند اور صلح جو انسان ہیں۔ حضرت محمد کریمؐ سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔ انہوں نے چار ماہ قبل ربیع الاول کے مہینے میں حضورؐ کی شان میں کالم لکھا اور ایک ہندو شاعر کا شاعرانہ کلام اپنے کالم میں درج کر کے مسلمانوں سے کہا کہ حضورؐ جیسے مہربان رسول ساری انسانیت کے لئے رحمت ہیں۔ دو اشعار جو انہوں نے لکھے یوں ہیں:
سمجھ کر تم (اے مسلمانو!) صرف اپنا
انہیں (حضرت محمد کریمؐ کو) تقسیم مت کرنا
نبی (پُررحمت) جتنے تمہارے ہیں
نبی (مہربان) اتنے ہمارے ہیں

قارئین کرام! جناب راجیش کمار نے وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی ہے اور وزیراعظم پاکستان کا پیغام پہنچایا ہے۔ انڈیا کے آرمی چیف جنرل بپن راوت نے ایک اچھی اور قابل تحسین بات کی ہے کہ میں تو جناب جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب کو فالو کرتا ہوں ‘یعنی ان کی بصیرت اور ویژن سے رہنمائی لیتا ہوں۔ یاد رہے! اس وقت دنیا میں پاکستان کے حوالے سے ”باجوہ ڈاکٹرائن‘‘ اعلیٰ علمی حلقوں میں زیربحث ہے۔ باجوہ صاحب کو یہ اعزاز ملا ہے تو تحمل‘ بردباری‘ تواضع اور خاکساری سے ملا ہے اور یہ خوبیاں حضورؐ کی پاکیزہ سیرت مبارکہ سے ملتی ہیں۔ پاک فوج کے ترجمان جناب میجر جنرل آصف غفور صاحب نے جنرل بپن راوت کے خوش آئند بیان پر اپنے ٹویٹ کے ذریعے اس مفہوم کا پیغام دیا ہے کہ جنرل راوت کو چاہئے کہ باجوہ ڈاکٹرائن پر عمل کر کے بھی دکھائیں کہ مذکورہ عمل کا نام خطے کے انسانوں کے لئے امن کے ساتھ خوشحالی کا پیغام ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر جناب آصف غفور صاحب نے ساتھ ہی یہ پیغام بھی دیا کہ اگر امن کی چاہت کا جواب کسی جارحانہ مہم جوئی کی صورت میں دیا گیا تو اسی انداز میں جواب دیا جائے گا اور اس بار ہمارا جواب مختلف ہو گا۔ بھارت کو حیران کر دیں گے۔ قارئین کرام! حقیقت یہ ہے کہ پاک فوج کے ترجمان کا بیان انتہائی باوقار ہونے کے ساتھ ساتھ حلم و حوصلے اور جرأت و بہادری کا آئینہ دار ہے۔ ایک مسلم اور مومن کا کردار ایسا ہی ہوتا ہے۔

ہمارے دین کا نام اسلام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”اللہ تعالیٰ کے ہاں (مسلمانوں کی) طرزِ زندگی کا نام اسلام ہے۔‘‘ (آل عمران 19)

یاد رہے! اسلام‘ سلامتی سے ہے‘ یعنی ہمارا دین انسانیت کی سلامتی کا خواہاں ہے اور جس رب تعالیٰ نے یہ دین بھیجا ہے‘ قرآن میں اس کے دو ایسے صفاتی نام ہیں‘ جن سے سلامتی اور امن کی خوشبو آتی ہے۔ وہ نام ”اَلسَّلَامْ اور اَلْمُؤمِنْ‘‘ ہیں‘یعنی اللہ تعالیٰ سلامتی اور امن کا سرچشمہ ہیں۔ حضور نبی کریمؐ کی حدیث ہے‘ فرمایا ”اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ”السّلام‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس نام کو زمین میں رکھا ہے‘ لہٰذا اپنے درمیان (ایک دوسرے کو السلام علیکم) کہہ کر اللہ کے نام کو پھیلائو۔‘‘ (بخاری فی الادب المفرد:989 صحیحہ:184)‘ یعنی سلامتی کا پیغام زمین پر موجود پوری انسانیت کے لئے ہے اور مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ سلامتی کے اس پیغام کو پوری زمین میں پھیلائیں۔ ہندوستان بھی اسی زمین کا ایک حصہ ہے‘ پھر یہ پاکستان کا پڑوسی بھی ہے‘ لہٰذا پڑوسی ہونے کے ناتے وہ پاکستان کی جانب سے سلامتی کا زیادہ مستحق ہے اور ریاست پاکستان کی جانب سے اسے یہی پیغام دیا گیا ہے۔

یاد رہے! سلامتی کا پیغام یکطرفہ نہیں ہوتا دو طرفہ ہوتا ہے‘ تبھی سلامتی اور امن کا راستہ محفوظ اور پائیدار ہوتا ہے۔ انڈیا نے کشمیر میں انسانیت کی حرمت اور آبرو کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ وہ کشمیری جو اپنی وادی کا سیب‘ دیگر پھل اور زرعی اجناس ہندوستان میں فروخت کرتے ہیں۔ وہ طلبہ اور طالبات جو ہندوستان کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ اساتذہ جو وہاں تعلیم دیتے ہیں‘ وہ تاجر اور مزدور جو ہندوستان میں روٹی روزی کماتے ہیں‘ ان کو مارا پیٹا گیا۔ تعلیمی اداروں سے بے دخل کیا گیا۔ ٹانگیں اور بازو توڑے گئے۔ کئی ایک کو جان سے ہاتھ دھونے پڑے‘ یعنی ان کی سلامتی کو تار تار کر دیا گیا۔ ہندوستان کے ایسے رویوں سے پلوامہ جیسے واقعات ہوتے ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے واقعات کا ذمہ دار تو خود بھارت ہے۔ پاکستان کیسے اس کا ذمہ دار بن گیا؟ اس کی مثال تو ایسے ہی ہے کہ نریندر مودی کسی کمہار سے گدھا لیں‘ اس پر سوار ہو کر اسے دوڑائیں‘ پھر اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکیں‘ اس سے گر پڑیں‘ گرتے ہی شدید چوٹیں آئیں‘ اب وہ اپنی اصلاح کی بجائے کمہار پر چڑھ دوڑیں۔ وہ تو یہی کہے گا کہ گدھے پر بیٹھنا تمہیں نہیں آتا‘ اس میں میرا کیا قصور ہے؟ میںکہتا ہوں کہ جس گدھے سے نریندر مودی گرے ہیں ‘وہ گدھا بھی پاکستان کا نہیں‘ بلکہ بی جے پی کا ہے‘ لہٰذا غصہ کرنا ہے تو امیت شاہ پر کرو ‘وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر ہیں۔ ہم اہل پاکستان پر غصے کا کیا مطلب؟ یاد رکھیے! غصے کو غلط جگہ استعمال کرنے والے منہ کی کھاتے ہیں۔ غصہ میں آنے کی بجائے کشمیر کا مسئلہ حل کیجئے‘ کشمیریوں پر غصے نے ہی ظلم کی نئی داستان رقم کر ڈالی ہے‘ اسی ظلم نے کشمیر کو فلیش پوائنٹ بنا دیا ہے‘ لہٰذا جنگ چھیڑ کر گوربا چوف بننا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی… امن کے ساتھ مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں‘ تو یہ بہت بڑی دانشمندی ہو گی اور اس دانشمندی کا سب سے بڑا فائدہ بھی بھارت ہی کو ہو گا۔

ہمارے وزیراعظم عمران خان نے رامیش کمار کو ایلچی بنا کر انڈیا روانہ کیا ہے۔ انڈیا کے وزیراعظم اسی سے پوچھ لیں کہ پاکستان میں ہندوئوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ کیسا ہمدردانہ رویہ رکھا جاتا ہے‘ جبکہ ہندوستان میں ریاستی پالیسی کے تحت گزشتہ 70سال میں فسادات کے ہزاروں واقعات میں لاکھوں غیرہندو افراد اپنی جان اور املاک سے محروم ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں اقلیتوں کے لئے امن اور شانتی اس لئے ہے کہ اہل پاکستان کی اسلامی ریاست کے سامنے رسول رحمتؐ کا اسوئہ واضح رہنمائی کرتا ہے‘ فرمایا:

”خبردار! جس نے کسی (غیر مسلم) ذِمّی پر ظلم کیا یا اسے نقصان پہنچایا یا اس کی ہمت سے بڑھ کر اس کو تکلیف میں مبتلا کر دیا یا اس کے دل کی خوشی کے بغیر اس سے کچھ لے لیا تو میں قیامت کے دن اس کی جانب سے (اللہ کے دربار میں) جھگڑا کروں گا۔ (ابودائود: صحیحۃ: 445) اسی طرح اللہ کے رسولؐ خیبر کی فتح کے بعد خیبر کے لوگوں کا حال احوال معلوم کرنے کے لئے وہاں تشریف لے گئے تو حضرت عرباض بن ساریہ سلمیؓ بتاتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسولؐ کے ہمراہ خیبر میں آئے تو آپؐ کے ہمراہ بعض صحابہ بھی تھے۔ ایک مجلس میں خیبر کا ایک ایسا شخص آیا ‘جو ناپسندیدہ آدمی تھا اور سرکش قسم کا تھا وہ حضور نبی کریمؐ کی جانب متوجہ ہوا اور کہنے لگا‘ اے محمدؐ! کیا آپ کیلئے جائز ہے کہ آپ لوگ ہمارے چوپائیوں کو ذبح کرو۔ ہمارے پھلوں کو کھائو اور ہماری عورتوں کو مارو؛ چنانچہ حضورؐ غضبناک ہو گئے اور حکم دیا‘ اے عوف کے بیٹے! اپنے گھوڑے پر سوار ہو جائو اور آواز لگائو کو خبردار ہو جائو‘ بلاشبہ جنت میں سوائے مومن کے کوئی نہ جائے گا اور لوگوں کو نماز کے لئے بھی جمع کرو‘ جب لوگ اکٹھے ہو گئے تو آپؐ نے نماز پڑھائی اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے اس بات کو جائز نہیں کیا کہ تم اہل کتاب کے گھروں میں ان کی اجازت کے بغیر داخل ہو جائو۔

نہ ہی ان کی عورتوں پر سختی جائز ہے‘ نہ ان کے پھلوں کو کھانا جائز ہے جب کہ وہ اپنا جزیہ ادا کر رہے ہیں (ابودائود: صحیحۃ 881) جی ہاں! مومن وہ ہے‘ جس سے ذمی لوگ اور کمزور لوگ امن میں ہوں اور جنت میں مومن ہی جائے گا۔ شکایت کرنے والا خود ناپسندیدہ یہودی تھا‘ مگر حضور سرکارِ مدینہؐ نے سخت نوٹس لیا۔ فرمایا ”مومن تو وہ ہے‘ جو الفتوں کا سرچشمہ ہو ایسے شخص میں کوئی خیر نہیں‘ جو نہ الفت کرتا ہے‘ نہ اس سے کی جاتی ہے (صحیحۃ:425) مزید فرمایا: وہ شخص گھاٹے کا شکار ہو گیا اور برباد ہو گیا کہ جس کے دل میں اللہ تعالیٰ نے ”رَحْمَۃٌ لِّلْبَشَرِ‘‘ انسانیت کے لئے رحمت نہیں رکھی۔ (صحیحہ:456)

جی ہاں! یہ ہیں ہمارے رحمۃ للعالمین رسولِؐ گرامی کی تعلیمات کہ جو ہم اہل پاکستان کے سر کا تاج ہیں۔ بی جے پی والو! تم بتلائو کہ اقلیتوں پر ظلم بھی کرو اور پھر پاکستان کو جنگ کی دھمکی بھی دو‘ یعنی اپنے آپ کو درست کرنے کی بجائے انسانیت کی مزید بربادی؟ یارو! تم کیسے انسان ہو کہ ہمارے وزیر اعظم عمران خان کی زبان پر امن کالفظ ‘جبکہ نریندر مودی کی زبان پر یُدھ کا لفظ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے