بشیراں بی بی کی خاموشی

بشیراں بی بی 

اللہ غریق رحمت کرئے والدہ صاحبہ کو وہ اکثر ایک عورت کی کہانی سنایا کرتی تھیں۔۔۔

“ کہ کسی گاؤں میں ایک عورت رہتی تھی، وہ جوانی میں جب تھی تو اس کا خاوند اکثر اسے پیٹتا رہتا تھا، پھر بچے جوان ہونے لگے تو بھی وہ ریت نہ گئی، مہینے میں ایک بار، یا کبھی کبھار دو بار اس کی پٹائی اس کا خاوند اولاد کے سامنے بھی کر جاتا تھا۔۔

بچوں کو باپ کا ماں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے پر گہری تشویش ہوئی۔۔۔سال کے بارہ مہینوں میں سے گیارہ ماہ میں ایک دو اور بعض اوقات تین تین بار ان کا باپ ماں کو پیٹتا تھا۔۔۔

صرف محرم کے مہینے میں عورت کو سکون ملتا تھا جب اس کا خاوند اسے کچھ نہ کہتا تھا۔۔۔

جی تو محرم میں اس لئے کہ اس ماہ میں ان کے علاقے میں شادیاں نہیں ہوا کرتی تھیں۔۔۔شادیوں میں جہاں خوشیاں ہی خوشیاں ہوتی تھیں اس عورت کے گھر ماتم ہوا کرتا تھا۔۔

اس ماتم کی وجہ جو اولاد کو سامنے نظر آئی وہ ان کی ماں کا شادی والے گھر جا کر کچھ نہ کچھ ایسی بات کسی عورت کو بتا دینا ہوتی تھی کہ اس سے ہنگامہ کھڑا ہو جاتا۔۔۔ اور وہاں بھی اس عورت پر لعن طعن ہوتی اور گھر میں خاوند کے ہاتھوں ٹھیک سے ٹھکائی ہوتی۔۔۔۔

وقت گزرتا گیا ، اولاد جوان ہوتی گئی اور ماں باپ بوڑھے ہوتے گئے مگر سکون کا مہینہ صرف محرم ہی ہوتا تھا جب ان کے ہاں پٹائی نہ ہوتی۔۔۔۔

اولاد کو معلوم ہو گیا تھا کہ قصور ہماری والدہ صاحبہ کا ہی ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے ابو کو برادری میں ہر کسی سے معذرت کرنا پڑتی ہے، اور ابو کی ناک کٹتی ہے۔۔۔

اولاد نے مل کر ایک سال محرم کے مہینے میں اپنی ماں کو سمجھایا کہ آپ جب بھی کسی کی شادی میں جاؤ تو خاموش رہنے کی کوشش کرو تاکہ اس عمر میں والد صاحب اور آپ کے درمیان اختلافات شدت نہ اختیار کر سکیں۔ اور اس بات کا حلف بھی لیا کہ وہ ایسا کچھ نہیں کریں گی۔۔۔

محرم کا پورا مہینہ اولاد اپنی ماں کو سمجھاتی رہی، اور اللہ نے کیا کہ ان کی ماں پر اس کا بہت گہرا اثر پڑا۔۔۔ اس کے بعد پھر شادی ہوئی تو خوشی خوشی سارے گھر والے وہاں گے۔۔۔سارا وقت بچوں نے ماں کے گرد بیٹھ کر گزرا اور یوں ایک پہلا دن گزرا جب گھر واپسی پر خاوند نے عورت کو کچھ نہ کہا۔۔۔ اس کی وجہ صرف اولاد کا ماں کو سمجھانا اور ماں کی اس عمر میں نگرانی بنا۔۔

کچھ وقت گزرا، عورت کو محسوس ہوا کہ آخر کب تک میں ایسے ہی چپ رہوں گی، ساری عمر گزار دی انہی کاموں میں۔۔۔ اب چونکہ اولاد نے ماں سے حلف بھی لیا ہوا تھا کہ آپ شادی والے گھر میں کسی بھی عورت سے بات چیت نہیں کرو گی تو بہت پریشان ہوئی۔۔۔

اب کی بار شادی میں جانا ہوا تو اولاد کو لگا کہ ماں اب سنجیدگی اختیار کر چکی ہے، انھوں نے ماں کو کھلا چھوڑ دیا اور اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے۔۔۔ ماں نے حلف کا پاس رکھا، اور کسی سے بات چیت نہ کی۔۔۔ بارات کے آنے کا وقت ہوا تو سب بچے بچیاں بارات کو دیکھنے کے لئے باہر گئے۔۔۔ اور ان کی ماں بھی ساتھ باہر گئی۔۔۔

بارات کا اسقبال کرنے کے بعد اسے ایک کمرے میں بیٹھا دیا۔۔۔ سب جوتے باہر اتار کر کمرے میں بیٹھ گئے۔۔۔

اب عورت کو لگا کہ کوئی شور شرابہ نہیں ہو رہا ہے، کیوں نا کچھ کیا جائے۔۔۔

وہ کمرے سے باہر نکلی اور اس نے بارات والے کمرے کا رخ کیا، دروازے پر پہنچکر اسے اپنی اولاد اور خاوند کے ساتھ کیا جانے والا وعدہ یاد آ گیا۔۔۔ واپس اپنے کمرے کی جانب مڑنے لگی تو اس کے پاؤں سے وہاں باہر پڑے ہوئے ایک جوتے کو ٹکر لگ گئی اور وہ دور جا پڑا۔۔۔۔

اب عورت کے دماغ میں ایک نئی بات نے جنم لیا۔۔۔ اس نے وہاں پڑے ہوئے ڈیڑھ سو باراتیوں کے جوتوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تبدیل کرنا شروع کر دیا ۔۔۔

اب وہ تقریباً سب جوتوں کو آپس میں تبدیل کر چکی تھی کہ ایک عورت کی اس پر نظر پڑی، وہ اندر گئی اور وہاں گھر والوں کو اطلاع دی کہ باہر “بشیراں بی بی” نے تو سب جوتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ بدل کہ رکھ دیا ہے۔۔

ایک طرف سے بارات والے نکلے، اور دوسری جانب سے گھر والے، کسی کو بھی اس کا جوتا نہ ملا اور اب کی بار سب نے ملکر “بشیراں بی بی” کی درگت بنائی۔۔۔

بچوں نے پوچھا کہ ماں تجھے کیا ہوا کہ تو نے یہ کام شروع کر دیا۔۔ تو اس نے کہا کہ “زندہ رہنے کے لئے سب کچھ نہیں چھوڑا جا سکتا”۔۔۔ خاموش تو میں تھی ہی مگر کیا حرکت کرنا بھی چھوڑ دوں۔۔۔!!

اب کی بار واپسی پر گھر میں پھر ماتم تھا، کیونکہ “بشیراں بی بی” کو کسی ایک نے نہیں پوری بارات والوں نے پیٹا تھا۔۔۔۔ اور یوں وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملی۔

کبھی کبھی انسان اگر کسی کے دباؤ میں آکر ایک عادت چھوڑتا ہے تو اسے کوئی دوسری خطرناک عادت پڑ جاتی ہے، جو جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔۔۔

خیال

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے