کہانیاں اور کتابیں پڑھنے والا اسکول ٹیچر کا بیٹا دنیا کا خطرناک جہادی کیسے بنا ؟

[pullquote]مولانا مسعود اظہر اور ان کی جہادی زندگی[/pullquote]

24 دسمبر 1999ء کو دنیا بھر کے میڈیا میں بریکنگ نیوز آنا شروع ہو گئیں کہ انڈین ائیر لائن کا طیارہ جو کھٹمنڈو سے نئی دہلی جا رہا تھا، اسے کچھ نامعلوم افراد نے ہائی جیک کر لیا ہے . طیارہ اغوا کر کے قندہار لے جایا گیا جہاں اس وقت طالبان کی حکومت تھی . اس طیارے میں 155 مسافر سوار تھے . اغوا کاروں کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ کہ بھارتی جیلوں میں قید تین قیدیوں حرکت الانصار کے مجلے صدائے مجاہدین کے ایڈیٹر مولانا مسعود اظہر، العمر مجاہدین کے سربراہ مشتاق زرگر اور پاکستانی نژاد برطانوی شہری عمرسعید شیخ کو رہا کیا جائے . آٹھ دن کے طویل اور تھکا دینے والے مذاکرات کے بعد بھارت کو اغوا کاروں کے مطالبے کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیکنے پکڑے اور ایک جہاز پر تینوں قیدیوں کو افغانستان پہنچا دیا گیا . ان قیدیوں‌نے رہا ہونے کے بعد اسی رات کابل میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن اور افغانستان میں طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر سے ملاقاتیں کیں .

موجودہ حکومت بھی مشرف کی ڈگر پر چل پڑی ہے . مسعود اظہر کا کارکنوں کے نام خط

[pullquote]جیش محمد کا قیام[/pullquote]

بھارتی قید سے رہائی کے بعد وہ پاکستان آ گئے اور یہاں انہوں نے جیش محمد کے نام سے ایک نئی جہادی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ اس جماعت کا اعلان انہوں‌نے کراچی میں بنوری ٹاون اور جامعۃ الرشید میں علماء کے ساتھ مشاورت اور ملاقاتوں کے بعد کیا . چند ہفتوں کے اندر اندر اس نئی تنظیم کے دفاتر جنوبی پنجاب سمیت ملک کے مختلف حصوں میں کھل گئے۔ سپاہ صحابہ کے مقتول رہ نما اور رکن قومی اسمبلی مولانا اعظم طارق بھی اس تنظیم کے قیام میں ان کے ساتھ ساتھ چلتے رہے جس کی وجہ سے حرکت المجاہدین کے امیر مولانا فضل الرحمان خلیل اور ان کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے تھے . جیش محمد نے حرکت المجاہدین کے کیمپوں اور کئی دفاتر پر قبضہ کر لیا اور اس قبضے میں سپاہ صحابہ بھی ان کے ساتھ شریک کار تھی . مولانا مسعود اظہر کو لال مسجد اسلام آباد کی بھی مکمل حمایت حاصل تھی . لال مسجد کے مقتول نائب خطیب علامہ عبدالرشید غازی جیش محمد کے قیام کے لیے دوروں میں ان کے ساتھ ہوتے تھے . 2001 میں مرکزی جامع مسجد مانسہرہ میں مولانا مسعود اظہر کا خطاب تھا . میں نے روزنامہ شمال ایبٹ آباد کے مولانا مسعود اظہر اور غازی عبدالرشید کا انٹرویو کیا . انٹرویو میں عبدلرشید غازی نے کہا کہ وہ جیش محمد میں باقاعدہ شامل تو نہیں ہوئے تاہم وہ مولانا مسعود اظہر کے مقاصد کے ساتھ مکمل اتفاق کرتے ہیں اور ان کے ساتھ ہیں .

[pullquote]بھارت کیوں پاکستان سے مسعود اظہر کی حوالگی کا مطالبہ کرتا ہے ؟[/pullquote]

جیش محمد نے بھارتی پارلیمان ، پٹھان کوٹ اور پلوامہ حملے سمیت انڈیا میں کئی خطرناک حملوں کی ذمہ داری قبول کی . یہ حملے اتنے شدید تھے تھے کہ پاکستان اور ہندوستان کی فوجیں بارڈر پر آگئیں اور باقاعدہ جنگ چھڑنے کا خطرہ محسوس کیا جانے لگا . جیش محمد پر بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کئی حملوں کا الزام لگایا جاتا ہے۔ ان میں دسمبر سن دو ہزار ایک میں بھارتی پارلیمنٹ پر ہونے والا حملہ بھی شامل ہے جس کے بعد عالمی دباؤ کے پیش نظر سابق صدر مشرف نے جیش محمد اور لشکرِ طیبہ پر پابندی عائد کر دی تھی۔ مولانا مسعود اظہر نے پابندی کے بعد خدام الاسلام کے نام سے نئی جماعت بنا لی . انہوں نے اپنا نام بھی مسعود اظہر کے بجائے مسعود ازہر لکھنا شروع کر دیا.

2016ء میں پٹھان کوٹ حملے کے بعد پاکستانی عہدیداروں نے انہیں گرفتار کر لیا اور ان کی سرگرمیاں محدود کر لی گئی تھیں ۔ مولانا مسعود اظہر کا نام ان شخصیات کی فہرست میں بھی شامل ہے جن کی حوالگی کا مطالبہ بھارتی حکومت کرتی رہتی ہے۔ اس فہرست میں شامل دیگر شخصیات میں داؤد ابراہیم اور ٹائیگر میمن جیسے نام بھی شامل ہیں۔بھارت نے مسعود اظہر کو انتہائی دہشت گرد ترین کی فہرست میں شامل کیا ہوا ہے جبکہ اقوام متحدہ بھی ان کی تنظیم جیش محمد کو دہشت گرد کہہ کر اس پر پابندی لگا چکا ہے .

[pullquote]مسعود اظہر کا جہادی سفر[/pullquote]

جیشِ محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر دس جولائی1968 کو پاکستان کے شہر بہاولپور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد اللہ بخش بہاولپور کے ایک سرکاری سکول میں ٹیچر تھے اور بعد میں وہ اسکول کے ہیڈ ماسٹر بن گئے ۔ مولانا مسعود اظہر کے تین بھائی اور چار بچے ہیں .شاید یہ واحد جہادی رہ نما ہیں جنہوں نے ایک ہی شادی کی ہے . بہاولپور میں مقیم دیوبندی عالم مفتی سعید ، مولانا مسعود اظہر کے والد اللہ بخش کے قریبی دوست تھے . انہی کے مشورے پر اللہ بخش مسعود اظہر کو جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاون کراچی میں داخل کروا آئے . سابق رکن قومی اسمبلی اور سپاہ صحابہ کے مقتول رہ نما مولانا اعظم طارق بھی اس وقت اسی مدرسے میں زیر تعلیم تھے . اس وقت کا بنوری ٹاون جہادی اور فرقہ وارانہ سرگرمیوں کا مرکز سمجھا جاتا تھا . مولانا اعظم طارق اور مولانا مسعود اظہر کی تقاریر اسی وقت سے دیوبندی مذہبی حلقوں میں بڑی پسند کی جاتی تھیں . بنوری ٹاون میں ہی مولانا مسعود اظہر کی ملاقات حرکت المجاہدین کے امیر مولانا فضل الرحمٰن خلیل سے ہوئی۔ مولانا خلیل کی دعوت پر انہوں نے حرکت المجاہدین میں شمولیت اختیار کر لی۔ مقرر مسعود اظہر کا بعد میں شمار خطرناک ترین لوگوں میں ہونے لگا .

[pullquote]عسکری ٹریننگ[/pullquote]

بھارتی تحقیقاتی ادارے سی بی آئی کو تفتیش کے دوران دیئے گئے ایک بیان میں مولانا مسعود اظہر نے بتایا ہے کہ حرکت المجاہدین میں شمولیت کے بعد انہیں عسکری ٹریننگ کے لیے افغانستان بھیج دیا گیا، تاہم کمزور جسامت کی وجہ سے وہ چالیس روزہ لازمی کورس مکمل نہ کر سکے۔

[pullquote]خطابت اور جہادی صحافت[/pullquote]

مسعود اظہر ایک زبردست لکھاری اور شعلہ بیان مقرر تھے . ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے بابری مسجد کی شہادت کے بعد ان کی تقریر کے آڈیو کیسٹ لاکھوں میں فروخت ہوئے . مولانا مسعود اظہر نے اگست 1989 میں حرکت المجاہدین کا پہلا شمارہ صدائے مجاہدین نکالا . اس رسالے نے جہادی جماعتوں میں نئے ٹرینڈ سیٹ کئے اور ان کا شمار پاکستان کی صف اول کی مذہبی قائدین میں ہونے لگا . انہوں نے کئی کتابیں لکھیں . انہوں نے مجاہدین کے لیے نصاب لکھا . آیات جہاد کی تفسیر اور تشریح اور یہود کی چالیس بیماریاں ان کی یہ دو کتابیں بہت زیادہ مشہور ہوئیں . وہ راولپنڈی سے شائع ہونے والے ایک ہفت روزے القلم میں ” رنگ و نور "سعدی کے قلم سے اپنی مخصوص انداز کی تحریر بھی لکھا کرتے ہیں . انہوں نے جہادیوں میں اچھے اخلاق اور کردار پیدا کر نے کے لیے انہیں تبلیغی جماعت اور تصوف کی جانب بھی راغب کیا . 2001 میں جب وہ کھلے عام جلسے کرتے تھے وہ جلسوں کے شرکاء سے بالشت بھر داڑھی رکھنے ، سودی معیشت سے کنارہ کشی ، پانچ وقت نماز کی ادائیگی کے عہد بھی لیتے تھے .

[pullquote]حرکت الانصار کا قیام اور گرفتاری[/pullquote]

1994 میں حرکت المجاہدین اور حرکت الجہاد الاسلامی کو ملا کر حرکت الانصار کے نام سے ایک نئی عسکری تنظیم بنائی گئی . اس تنظیم کی قیادت نے فیصلہ کیا مولانا مسعود اظہر کو صحافی کے روپ میں انڈیا بھیجا جائے تاکہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں زمینی صورتحال کا جائزہ لے سکیں . وہ بنگلہ دیش گئے اور وہاں سے پرتگالی پاسپورٹ پر سفر کرتے ہوئے بھارت کے دارلحکومت دلی پہنچ گئے .

سن انیس سو چورانوے میں مولانا مسعود اظہر بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انت ناگ کے مقام پر ایک پروگرام میں شرکت کر کے واپس آ رہے تھے کہ گرفتار ہو گئے .سن انیس سو پچانوے میں مولانا مسعود اظہر کا نام اس وقت عالمی افق پر ابھرا جب عسکریت پسندوں کے ایک غیر معروف گروپ الفاران نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے پہلگام ضلع میں چھ غیر ملکی سیاحوں کو اغواء کر لیا اور ان کی رہائی کے بدلے مولانا مسعود اظہر کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ ان سیاحوں میں سے ایک کو قتل کر دیا گیا جبکہ ایک فرار ہو گیا تھا . الفاران کی اپیل کے باجود مولانا مسعود اظہر کو رہا نہیں کیا گیا جس کے بعد الفاران نے باقی چار سیاحوں کو قتل کر دیا تاہم ان کے قتل کی خبریں میڈیا پر نہیں آئیں.

[pullquote]بھارت میں جیل سے فرار کی کوشش[/pullquote]

اے ایف پی کے مطابق مولانا مسعود اظہر نے جیل میں اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر جیل میں سرنگ کھودنے کا منصوبہ بنایا . سرنگ جب کھودی گئی تو مولانا مسعود اظہر کا اصرار تھا کہ پہلے وہ نکلیں گے تاہم بھاری بھر کم جسم ہونے کی وجہ سے وہ اس سرنگ میں پھنس گئے اور جیل سے فرار کا منصوبہ ناکام ہوگیا .

[pullquote]جب مسعود اظہر نے جنگ بندی سے انکار کیا[/pullquote]

جب 2001 میں متحدہ جہاد کونسل کے قائد سید صلاح الدین نے کشمیر میں جنگ بندی کا اعلان کیا تو مولانا مسعود اظہر نے ان کے خلاف پوری ایک مہم شروع کردی . جہادی حلقوں میں ان کا قول مشہور ہونے لگا جو جیشن محمد کے اسٹیج پر باقاعدہ بینرز پر لکھا جاتا کہ ” دیوبندی کبھی جنگ بندی نہیں کرسکتا ” . جیش محمد کی کارروائیاں جاری رہیں تو باقی سب جہادی دھڑوں کو بھی محاذ جنگ کی طرف لوٹنا پڑا .

[pullquote]مولانا مسعود اظہر اور حکومت پاکستان کا نکتہ نظر[/pullquote]

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے گذشتہ روز کہا تھا کہ جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر پاکستان میں ہیں اور شدید علیل ہیں۔ دستیاب معلومات کے مطابق وہ اتنے بیمار ہیں کہ گھر سے باہر بھی نہیں نکل سکتے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ ہم ایسے اقدامات کے لیے تیار ہیں جس سے دونوں ملکوں کے درمیان جاری کشیدگی ختم کی جا سکے۔جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعوداظہر کا نام عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں ڈلوانے کی بھارتی کوششوں کے سوال پر پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت کے پاس اگر ٹھوس شواہد ہیں تو ہمیں دیں ہم خود ان کا جائزہ لیں گے۔مولانا مسعود اظہر کو گرفتار نہ کرنے کے سوال پر اُن کا کہنا تھا کہ بھارت ان کے خلاف ایسے ٹھوس ثبوت دے جو پاکستان کی آزاد عدالتوں کو قابل قبول ہوں اور ہم عوام کو بھی قائل کرسکیں کہ فلاں آدمی کے خلاف یہ ثبوت ہے اور ہم کاروائی کر رہے ہیں۔واضح رہے کہ جیشِ محمد پہلے ہی سے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے ان گروپس میں شامل ہے جن پر پابندی عائد ہے، تاہم مسعود اظہر کا نام بلیک لسٹ میں شامل نہیں ہے۔

[pullquote]کیا مولانا مسعود اظہر انتقال کر گئے ہیں ؟[/pullquote]

بھارتی میڈیا آج دوپہر سے ٹاپ انٹیلینجس سورس کے خبریں چلا رہا ہے کہ جیش محمد کے امیر مولانا مسعود اظہر انتقال کر گئے ہیں ۔ یہ غلط فہمی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو کی وجہ سے پھیلی جس میں کہا گیا کہ مولانا مسعود اظہر شدید علیل ہیں اور گھر سے باہر نکلنے کی ہمت بھی نہیں رکھتے . مولانا مسعود اظہر کے خاندان اور قریبی ذرائع کے مطابق مولانا مسعود اظہر بیمار ہیں تاہم ان کی وفات کی خبریں من گھڑت ہیں . ان کا علاج چل رہا ہے . مولانا مسعود اظہر کو 2010 سے گردوں کی تکلیف ہے . ان کا ڈائیلیسسز بھی ہو رہا ہے .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے