آگے کی کون سوچے گا

دماغ کے بارے میں کسی سیانے کا کہنا ہے کہ دماغ کا مسئلہ یہ ہے کہ دماغ کا کوئی دماغ نہیں ہوتا، سو اس کے من میں جو آئے کر گزرتا ہے. نفع و نقصان کی پرواہ دماغ کو نہیں ہوتی. گزرے کل سے کچھ سوالات میرے دماغ اور ذہن میں پیدا ہو رہے ہیں. یہ سوالات عمرو عیار کی زنبیل کی طرح بڑھتے ہی جا رہے ہیں. ہمارے عوام کل پڑوسی ملک کے ہماری حدود میں آئے جہازوں کو مار گرانے کے کارنامے پر بہت مسرور ہیں. وہ بہادر فوج کو خراج تحسین پیش کرتے تھک نہیں رہے. ہماری فوج کا مورال اس جرات مندانہ اقدام سے بلند ہوا ہے. ہمارے سپاہی ہیرو بنے ہیں.

سوال یہ ہے کہ کیا اس واقعہ کے بعد جنگ بڑھنے کے امکانات ختم ہو گئے ہیں. حالانکہ دونوں ممالک کے میڈیا پر جنگ جاری ہے. ایک طوفان برپا ہے. ٹینشن بڑھانے کی ذمہ داری میڈیا نے اپنے ذمہ لے لی ہے. جنگ جنگ کے الفاظ تکرار کے ساتھ بول بول کر اینکر منہ سے جھاگ اگل رہے ہیں اور ان کی زبانوں سے شعلے برس رہے ہیں. نفرت کی گولہ باری ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی. ہمارے حکمران اور فوج واضح کر چکے ہیں کہ جنگ مسائل کا حل نہیں ہے اور نہ ہم جنگ چاہتے ہیں. لیکن دونوں طرف کے شر پسند عناصر جنگ ہی کی طرف مائل پرواز ہیں. یہ عناصر لگتا یہی ہے کہ جنگ ہی کے حالات پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے.

ایک سوال یہ کہ جس پڑوسی ملک سے ہماری کشیدگی عروج پر ہے. دونوں ممالک کے عوام میں بے چینی ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے. وہ ملک ہم سے بڑا ہے. فوج اس کی بڑی ہے.. ملک میں اسلحہ کے ذخائر بھی بڑی تعداد میں اس کے پاس موجود ہیں. جنگی ساز و سامان کی اس کے پاس کمی نہیں، وہ پڑوسی ملک ہمیں جنگ کی طرف دھکیل کر لایا ہے. اس ملک کے وزیراعظم کے ذہن و دماغ پر وحشت بربریت اور سفاکیت جنگی جنون بن کر سوار ہو چکی ہے. وہ اس معاملے میں کسی بھی سطح پر گر سکتا ہے یہی ان کی ماضی کی تاریخ بھی گواہی دیتی ہے. ہماری بہادر افواج نے اپنے دفاع میں کل اس کے دو جنگی جہاز گرا دیے اور ایک کیپٹن کو گرفتار کر لیا ہے.

اب سوال یہ بھی ہی کیا وہ ملک اب اپنے نقصان کا بدلہ لینے کی تیاری نہیں کر رہا ہو گا. اس کی عزت و وقار پر آنچ آئی ہے. اسے دنیا بھر میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ہے. تو کیا وہ بدلے کے لیے ہماری طرف لپکے گا نہیں، زخمی سانپ بھی لڑائی سے فرار حاصل نہیں کرتا وہ خوب لڑتا ہے. جنگ اور لڑائی کی نفسیات ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جاتا ہے.

اس لیے دشمن کو کمزور نہ سمجھتے ہوئے اس نازک وقت میں قوم کو جو یکجا ہو گئی ہے. اسے جنگ کی صورت حال میں اس کے کردار کے بارے میں کچھ بتائیں. اس کی تربیت کس کی انداز میں کرنی ہے. یہی وقت ہے، قوم خوش فہمیاں نہ پالے بلکہ عملی حفاظتی اقدامات کی تربیت سیکھے. اگلے لمحوں میں کچھ بھی ہو سکتا ہے. دشمن کو کمزور نہ سمجھا جائے. دوران جنگ میں شہریوں کو اور قوم کے رضا کاروں کو جو تربیت اور ہدایات جاری کی جاتی ہیں اس سے غفلت نہ کی جائے. یاد رہے کہ جنگ کی تیاری حالت امن میں کی جاتی ہے. لیکن اب تو جنگ مسلط کی جا رہی ہے. ہم سب اس وقت حالت جنگ میں ہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے