دیواریں

انسان کی زندگی بہت سی چاردیواریوں میںگزرتی ہے۔ آپ انہیں حصار بھی کہہ سکتے ہیں۔ گھر، خاندان، رشتے، رنگ، نسل، ملک، مذہب۔ ان دیواروں میںکچھ وہ ہیں جو خدا ساختہ ہیں، کچھ خود ساختہ اور کچھ سماج ساختہ۔ یہ دیواریں میرے اخلاقی وجود کی حفاظت کے لیے ہیں یا اسے قید رکھنے کے لیے؟ یہ سوال اُن لوگوں کے لیے بہت بنیادی ہے جو انسان کو ایک اخلاقی وجود سمجھتے ہیں۔

یہ دیواریں انسان کے ظاہری یا مادی وجود کے گرد کھڑی ہیں۔ ایک دکھائی دینے والا زندہ وجود۔ اسی کے ساتھ رشتے قائم ہوتے ہیں اور اسی کا وطن ہوتا ہے۔ اخلاق کا تعلق اس کے داخلی وجود سے ہے۔ اَن دیکھا، جس کا کوئی رشتہ ہے نہ وطن۔ مذہب کا تعلق اگر انسان کے اخلاقی وجود سے ہے تو وہ اس کے داخل کا معاملہ ہے، خارج کا نہیں۔ وہ اگر اس کے خارجی وجود سے متعلق ہوتا ہے تو کسی داخلی مطالبے کے تحت‘ نہ کہ کسی خارجی سبب سے۔

یہی معاملہ دیگر تصورات اخلاق کا بھی ہے۔ جو لوگ انسان کو اصلاً مادی وجود سمجھتے ہیں، انہیں بھی ایک تصورِ اخلاق کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ اخلاقی وجود کو نہیں مانتے مگر اس کی موجودگی سے انکار بھی نہیں کر سکتے۔ وہ اس کی بالفاظِ دیگر ایک تعبیر کرتے ہیں۔ اس کو نفسیات کا ایک شعبہ ‘رویہ‘ قرار دیتے ہوئے، اس کی تفہیم کیلئے ایک علم (Discipline) کی بنیاد رکھتے ہیں جسے رویے کی سائنس (Behavioural Science) کہتے ہیں۔ انہیں بھی یہ سوال درپیش ہے کہ وطن اور مذہب جیسے تصورات انسانی رویے کی تعمیر میں کیا کردار ادا کرتے ہیں۔

بیسویں صدی میں تصورِ قومیت (Nationalism) کا غلبہ تھا۔ فرد کی اجتماعی شناخت طے کی جاری تھی۔ غالب خیال یہ تھا کہ وطن یا جغرافیہ اس کی اساس ہے۔ علامہ اقبال کو اس سے اتفاق نہیں ہو سکا۔ وہ انسان کو اصلاً ایک روحانی یا مذہبی وجود سمجھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ قومیت کے اس رائج تصور کو اگر مان لیا جائے جو وطن کو اس کی شناخت سمجھتا ہے تو انسان کا مذہبی وجود باقی نہیں رہتا۔
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے

آل انڈیا مسلم لیگ اسی کی علم بردار بنی۔ مولانا مودودی جوہری طور پر اسی تصور کے قائل تھے مگر مسلم لیگ کی تعبیر سے اختلاف کے ساتھ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ اسلام نہ تو نسلی دین ہے اور نہ کوئی اس وجہ سے مسلمان ہوتا ہے کہ اس کے آبائواجداد مسلمان تھے۔ ‘مسلمان‘ ایک اسمِ صفت ہے۔ گویا جس میں چند اوصاف پائے جائیں گے، وہ مسلمان شمار ہو گا۔ اسی اختلاف کی وجہ سے ان کی راہیں مسلم لیگ سے الگ رہیں۔

بیسویں صدی میں جو قومی ریاستیں وجود میں آئیں، ان میں سے اکثر کی اساس علاقہ تھا یا نسل۔ ان کو جلد ہی یہ احساس ہوا کہ قومی ریاست کا تصور نسلی برتری کے تصور سے ہم آہنگ نہیں ہو سکتا۔ جو برطانیہ کا شہری ہے اسے برطانوی ماننا پڑے گا، قطع نظر اس بات کے کہ اس کے آبائواجداد کا تعلق یہاں سے تھا یا نہیں۔ بطور شہری، اس کے بنیادی حقوق اس سے مختلف نہیں ہو سکتے جو نسلی طور پر برطانوی ہے۔

غیر مذہبی تصورِ اخلاق کو ‘ہیومن ازم‘ کا نام دیا گیا۔ یہ تصور، سیاسی بندوبست کے دائرے میں سیکولرازم کہلاتا ہے۔ یہ ہیومن ازم جس تصورِ اخلاق پر مبنی ہے، اس میں انسانی حقوق مقصود کے دائرے میں آتے ہیں۔ یوں جب ایک قومی ریاست کے مفادات انسانی حقوق سے متصادم ہوں تو اخلاقی طور پر حساس شہری، اس پر سراپا احتجاج بن جاتے ہیں۔ جیسے عراق پر امریکہ اور برطانیہ کے حملے کے خلاف ان ملکوں میں لاکھوں افراد کا احتجاج۔

ایسے بہت سے واقعات ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کے مادی وجود سے وابستہ، اس کے بہت سے مفادات، انسان کے اخلاقی وجود کے لیے چیلنج ہیں۔ اخلاقی طور پر حساس آدمی کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اس نے مادی بقا کو مقدم رکھنا ہے یا اخلاقی سلامتی کا بندوبست کرنا ہے۔ مذہب کو اگر اخلاقی تصور کی بنیاد مان لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ کبھی وطن انسان کا مذہب بن جاتا ہے اور کبھی اس کے رشتے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ مذہبی تعصب، خود مذہبی تعلیمات کے لیے چیلنج بن جاتا ہے۔

علامہ اقبال وطنیت کو اسی حوالے سے دیکھ رہے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ بیسویں صدی میں، مغرب میں قومیت کا جو تصور پروان چڑھ رہا ہے، ایک مسلمان کے لیے قابلِ قبول نہیں کیونکہ اس کی اساس کوئی اخلاقی تصور نہیں بلکہ گروہی یا مادی مفادات ہیں۔ اس کے بر خلاف اسلام کا مقصد کسی مادی وجود کی بقا نہیں، اخلاقی وجود کی حفاظت ہے۔

قرآن مجید نے اسی جانب ہماری توجہ دلائی ہے کہ کسی قوم کی دشمنی اہلِ اسلام کو وہاں تک نہ لے جائے کہ وہ انصاف کی قدر سے بیگانہ ہو جائیں۔ یا اولاد اور رشتوں کی محبت حق بات کی قبولیت میں حائل ہو جائے۔ گویا بطور مسلمان، ہمارے لیے سب سے مقدم ہمارا اخلاقی وجود ہے۔ اب اگر گھر، خاندان، وطن یا مذہبی عصبیت میرے اخلاقی وجود کے لیے چیلنج بنتی ہے تو اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ مجھے ان سب کو رد کر دینا ہے۔ یہ دیواریں اگر میرے اخلاقی وجود کی محافظ نہیں تو مجھے ان کی قید سے رہا ہو جانا چاہیے۔

تصوراتِ اخلاق کی بنا مختلف ہونے کے باوجود، انسانوں کے اکثر اخلاقی تصورات یکساں ہیں۔ پاکستان اور بھارت کی حالیہ کشیدگی میں، پاکستان کا اخلاقی موقف مضبوط تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس باب میں پاکستان کے مذہبی اور لبرل طبقات میں ہم آہنگی سامنے آئی۔ یہی معاملہ عمران خان کا بھی ہے۔ انہوں نے جو رویہ اپنایا، وہ مثبت اور اخلاقی اقدار کے مطابق تھا۔ ان کے مخالفین کے لیے بھی اس سے اختلاف آسان نہیں تھا۔

دنیا بھر میں بھی عمران خان صاحب کو سراہا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ مودی صاحب کے مقابلے میں اخلاقی طور پر بہتر جگہ پہ کھڑے تھے۔ اب ہونا یہ چاہیے تھا کہ دنیا عملاً بھی پاکستان کی تائید کرتی اور مودی سرکار پر دباؤ ڈالتی کہ وہ اس قضیے میں کسی کو ثالث مانتے ہوئے، تحقیقات کیلئے پاکستان کی پیشکش کو قبول کرے۔ ایسا نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کا نظام کسی نظامِ اخلاق پر نہیں، انسانوں کے مادی مفادات پر کھڑا ہے۔

تاہم، پاکستان کو جو اخلاقی برتری حاصل ہوئی ہے، وہ یقیناً عالمی سیاست پر اثر انداز ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کا اخلاقی وجود کمزور ہوا ہے، مردہ نہیں ہوا۔ یہ پیش رفت، ہمارے لیے باعثِ اطمینان ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ ہمارے لیے ایک اہم سوال یہ ہے کہ دہشت گردی تنظیموں کے باب میں دنیا ہمارے موقف کو کیوں قبول نہیںکرتی؟ کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کیوں عالمی برادری کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکی؟ میں حکومتوں کی نہیں، عوام کی بات کر رہا ہوں۔ اگر عراق پر امریکی حملوں کے خلاف لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل سکتے ہیں تو کشمیر کے لیے کیوں نہیں نکلتے؟ مودی کے مقابلے میں عمران خان کی تائید کرنے والے، دیگر معاملات میں ہمارا ساتھ کیوں نہیں دیتے؟

ریاستیں اپنے قومی مفاد کی روشنی میں فیصلے کرتی ہیں۔ ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ ہماری ریاست ان ملکوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز نہیں اٹھاتی جن سے ہمارے دوستانہ مراسم ہیں۔ اسی طرح وہ ممالک بھی کشمیر میں بھارت کے مظالم کے خلاف نہیں بولتے جن کی بھارت سے دوستی ہے۔ دنیا کا سیاسی نظم ایسا ہی ہے۔

انسان مگر انفرادی سطح پر ایک خلاقی وجود ہے۔ اس کا اصل امتحان اس وجود کی حفاظت ہے۔ اس کا تصورِ مذہب، وطن، خاندان، انسانی رشتے، اگر اس کی اخلاقی سلامتی کی ضمانت نہیں تو پھر اس کے لیے ایک قید خانے کی دیواریں ہیں جس میں ایک دن اس کے اخلاقی وجود کا دم گھٹ جائے گا۔ ایک مذہبی وجود تو کسی طور پر انہیں برداشت نہیں کر سکتا کہ مذہب کا مطلوب ہی انسان کی اخلاقی نشوونما ہے۔

آج لوگ مسلمان کا موازنہ ایک دوسرے مذہب کے ماننے والوں سے کر رہے ہیں۔ اگر یہ مقابلہ اخلاقی میدان میں نہیں ہے تو اس جنگ کا کوئی تعلق مذہب سے نہیں ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے