سفارت کاری کا محاذ او راوآئی سی اجلاس میں بھارت کی سبکی

کشمیریوں پر کئی دہائیوں سے ظلم روا رکھنے والے بھارت کو اب شدیدردعمل کا سامنا ہے ۔نوجوان کشمیری نسل بہت زیاتی جذباتی ہے اور وہ اپنے بڑوں سے بھی زیادہ غصے والی ہے ۔ کشمیری نوجوان بھارتی فوج کے خلاف سینہ سپر ہیں اور وہ ہر صورت غاصب کو بھگانے پر تل گئے ہیں ۔ پلوامہ حملہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں ایک کشمیری جوان نے چالیس سے زائد بھارتی فوجیوں کومارکر بدلے کی آگ بجھانے کی کوشش کی۔ بھارت نے اگر اپنی روش نہ بدلی تو ایسے مزید واقعات کے لئے اسے تیار رہنا ہوگا۔ مگر ہندہ بنیا مسئلے کی جڑ کو سمجھ کر بھی انجان بن رہا اور پاکستان پر الزام تراشی سے گزارا کی پالیسی پر گامزن ہے ۔

حسب روایت پلوامہ حملے کے بعد پاکستان پر الزامات عائد کئے ۔بھارتی نادان میڈیا نے وار ہسٹیریا پیدا کیا اور رات کے اندھیرے میں بھارت نے بارڈر پار کرکے بین الاقوامی قواعد کی جہاں خلاف ورزی کی وہیں جعلی خبریں پھیلائیں کہ انہوں نے تین سو سے زائد دہشتگرد مار دیئے ہیں ۔پاکستان کی جانب سے بھرپور جواب ملا اگلے ہی روز دو جنگی جہاز پاکستا ن نے مار گرائے ایک پائلٹ گرفتار ہو ا۔ بھارت کو پھربھی شرم نہ آئی ۔بھارت نے جنگ اور پاکستا ن نے امن کی بات کی ۔میدان مگر پاکستان کی فوج نے جیت لیا۔ بھارت تلملایا اور اسی دوران او آئی سی کے اجلاس میں شرکت کرنے پہنچ گئیں بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج ۔ پاکستا ن ایک جانب سے بھارتی وار ہسٹیریا کا سامنا کررہا تھاتو دوسری جانب اوآئی سی میں بھارتی شرکت پر ایک نئی صور ت حال کا بھی اسے سامنا کرنا پڑ گیا۔

بھارتی شرکت کے خلاف پاکستا ن نے اجلاس کا بائی کاٹ پہلے ہی سے کر رکھا تھا۔ حکومت پر تنقید ہونے لگی کہ اس نے سفارتی محاذ پر کچھ اچھا نہیں کھیلا۔ سشما سوراج نے پہلے دن کی شرکت سے سب کی توجہ حاصل کی مگر اگلے ہی سیشن میں او آئی سی اجلاس میں کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف قرارداد پیش کردی گئی،سشما منہ دیکھتی رہ گئی اوراسلامی ممالک نے قرارداد کے ذریعے جہاں بھارت کی خوب دھلائی کی وہیں پاکستان کے موقف کی بھی تائید کی گئی۔بھارت کو دو جھٹکے بیک وقت لگ گئے ۔ ایک اس کی فوجی صلاحیتیں کھل کر سامنے آگئیں ۔ نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ لگتا ہے کہ بھارت کی پاکستان سے کہیں زیادہ فوج لڑنے کی صلاحیت میںپاکستان سے کم ہے ۔ دنیا بھر میں پاکستان ائیر فورس کے کارنامے کو خبروں کی زینت بنایا گیا جبکہ بھارت کے جنگی جنون کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ میدان میں بھارت ہار گیا مگر ہمیشہ کی طرح سفارتی محاذ پر ہمیں نیچا دکھانے کے لئے وہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے اورآنے والے دنوں میں ضرور لگائے گا۔ بھلا ہو عرب ممالک کا کہ جنہوں نے کشمیر کی حمایت کر کے عزت رکھ لی ورنہ بھارت نے پتہ تو خوب کھیلا تھا۔جنگ کا خطرہ ٹل چکاہے مگر سفارتی محاذپر مقابلہ اب شروع ہوا ہے ۔

اب سے بھارت یہ ثابت کرنے لگ جائے گا کہ پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ہیں اور دنیا کو اس بات پر قائل کرنے کی بھی کوشش کرے گا۔ پاکستان کو اس کا بھرپور جواب دینا ہوگااور اس کے مقابلے میں یہ بات پھیلانی ہوگی کہ جنوبی ایشیا کے امن کو سب سے زیادہ خطرہ بھارت کوہے ، اس نے کشمیر پر اپنا تسلط جما رکھا ہے جس کے باعث کشمیری ردعمل میں حملے کرتے ہیں ۔ کشمیری دہشتگرد نہیں بلکہ آزادی کے حامی ہیں جوکہ ان کا حق ہے ۔ بھارت کے اوپر جب مشکل وقت آتا ہے اسے بین الاقوامی قوانین یاد آجاتے ہیں ۔ بھارتی پائلٹ کو پاکستانی ائیر فورس نے مار گرایا ، گرفتار کیا تو اسے جنیوا کنونشن یاد آگیا۔مگر کشمیروں کے حق میں اقوام متحد ہ نے جو قرارد ادیں پاس کی ہیں ،اس کا بھارت کو بالکل بھی پاس نہیں ہے ۔ بھارت کی ڈھٹائی سے کل عالم واقف ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ اقوام متحدہ بھارت پر کسی بھی طرح سے دباﺅ ڈالنے میں ابھی تک ناکام ہوئی ہے ۔

حالیہ کشیدگی میں خبریں یہ بھی سامنے آئیں کہ بھارت کا ساتھ اسرائیل بھی دے رہا تھا اور بھارت کو اکسا رہاتھا کہ وہ پاکستان پر حملہ کرے اور اسرائیل اس کے ساتھ ہے ۔بھارت اسرائیل سے اسلحہ بھی خرید تا ہے اور اسرائیل کے پاکستان کے ساتھ کیسے تعلقات ہیں یہ بچہ بچہ جانتا ہے ۔یہودیوں کا امریکی سیاست میں اثرو رسوخ بھی دنیا جانتی ہے ۔یعنی یہ بات کھل کر سامنے آرہی ہے کہ بھارت ، اسرائیل اورامریکہ مل کر پاکستان کے خلاف کوئی بڑی کارروائی کرنے کا ارادہ ضروررکھتے ہیں مگر کھل کر نہیں کرسکتے۔ پاکستان کی چین کے ساتھ دوستی امریکہ کی آنکھ میں کھٹکتی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ افغانستا ن سے باعزت رخصتی کے لئے امریکیوں کو پاکستان کا ساتھ بھی چاہئیں ۔

اس لئے امریکی براہ راست پاکستان کے ساتھ مخاصمت کے بجائے بھارت کو آشیر باد دیتے ہیں کہ وہ پاکستان کے اوپر دباﺅ بڑھائے ۔پاک بھارت کشیدگی سے جہاں کشمیروں کی جدوجہد آزادی سے توجہ ہٹائی جاسکے گی وہیںپر سی پیک جیسے منصوبے جو کہ پاکستان کی معاشی ترقی میںاہم کردار کرنے والا ہے ،اس کی راہ میں بھی رکاوٹیں پید ا ہوں گی، بھارت اور امریکہ بھی کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان جو کہ ایٹمی قوت تو پہلے سے ہی ہے معاشی طو رپر بھی اتنا مضبوط ہوجائے کہ اسے پھر امریکہ کی بالکل بھی ضرور ت نہ پڑے ۔پاکستان نے جس طرح پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود ایٹمی صلاحیت حاصل کی ، ایٹم بم بنا لیا ، اسی طرح اب ہمیں کمر کسنی ہوگی اور ملک کو معاشی طورپر اتنا طاقتور بنانا ہے کہ دنیا ایک بار پھر سے ششد ر رہ جائے ۔

پاکستا ن میں تحریک انصاف کی حکومت اور عمران خان نے حالیہ کرائسس میں جس بردباری اور تدبر کا مظاہرہ کیا ہے اس کی تعریف پوری دنیا میں کی جارہی ہے ۔ بھارتی پائلٹ کو بلا مشروط چھوڑنے اور دو ممالک کے درمیان جنگ کے خطرہ کو ٹالنے کے لئے کردار ادا کرنے پر عمران خان کے لئے نوبل انعام کی باتیں بھی ہورہی ہیں ۔انہیں یہ انعام ملے یا نہ ملے لیکن صرف اس کے تذکرے سے ہی پاکستان کو فائدہ مل رہاہے ۔دنیا دیکھ رہی ہے کہ پاکستانی امن پسندہیں اورا من چاہتے ہیں ۔ بھارت کے جنگی جنون او رپھر خالی جنون کو بھی دنیا نے دیکھ لیا ہے ۔ پاکستان کے پاس موقع ہے کہ وہ اس اخلاقی برتری کو مزید پختہ کرے اور دنیا بھرمیں پاکستان کے سفیر بھارتی پراپیگنڈہ کا جواب دینے کے لئے تیار ہوجائیں ، نہ صرف وہ بھارتی پراپیگنڈ ہ کا توڑ کریں بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر دنیا کو بھارت کا مکروہ چہر ہ بھی دکھائیں ۔ پاکستا ن میں جرمن سفیر جس طرح گلی گلی گھوم پھر کر پاکستان کے ساتھ محبت کا اظہار کررہے ہیں ،ہمارے سفیر بھی اس پر غور کریں ۔او آئی سی کے پلیٹ فارم پر ہونے والی تاریخی چھترول کے بعد امید ہے کہ بھارت اب اپنے گریباں میں جھانکے گا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے