سیاسی محاذ پر کشیدگی کا خاتمہ آج حکومت کی ضرورت ہے

پیر اور منگل کے روز اپوزیشن نے ثابت کردیا کہ اگر وہ ایک پنجابی محاورے میں بتائی ’’اپنی آئی‘‘ پر تل جائے تو یہ حکومت قومی اسمبلی کو چند لمحوں کے لئے بھی نہیں چلاسکتی۔

مفتی عبدالشکور اور مولانا عصمت اللہ نے باہم مل کر ایک دھانسو مانے وزیر فیصل واوڈا کی جانب سے ایک ٹی وی شو میں ادا ہوئے کلمات کی بنیاد پر ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ پاکستان مسلم لیگ (نون) کے اراکین کی اکثریت ان کی حمایت میں ڈٹ گئی۔ قومی اسمبلی میں ایک قرارداد لانے پر اصرار ہوا۔ اگر وہ قرارداد پیش ہو جاتی اور اس کی حمایت میں تقاریر کا سلسلہ شروع ہو جاتا تو خطاوار ٹھہرائے وزیر 2019کے زاہد حامد بن جاتے۔

خوفِ فساد خلق سے حکومت حواس باختہ ہوگئی۔ تین گھنٹے سے زیادہ انتظار کے بعد قومی اسمبلی کے اجلاس پیر اور منگل کی شام تلاوتِ کلام پاک کے فوری بعد ملتوی کر دئیے گئے۔

قومی اسمبلی کے اجلاس کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کرتے ہوئے قضیے کو بھلانے کا وقت تلاش کرنے کی خواہش بھی جاگی۔ اگر ایسا ہوجاتا تو حکومت کے بارے میں ’’گھبراکر بھاگ جانے‘‘ کا تاثر اجاگر ہوتا۔ ویسے حکومت کی یہ مجبوری بھی تھی کہ جنوری کے آخری عشرے میں اسد عمر نے جو ’’اقتصادی پیکیج‘‘ دیا تھا اس کی قومی اسمبلی سے منظوری لازمی تھی۔ اس منظوری کے بغیر سرمایہ کاروں کو دی گئی کئی رعایتوں کی قانونی حیثیت پر سوال اُٹھتے بازار میں مندے کی کیفیت برقرار رہتی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے معاملے کو رفع دفع کروانے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ ان کی کاوشوں سے بالآخر اپوزیشن بدھ کی شام قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہونے کو تیار ہوئی۔ فیصل واوڈا کا معاملہ چند لمحوں کے لئے بھلا کر وزیر خزانہ کے دئیے پیکیج پر بحث کا آغاز ہو گیا۔ حکومتی وزراء کے رویوں میں لیکن شکرگزاری نظر نہیں آئی۔ شاہ محمود قریشی صاحب سینہ پھلاکر بلکہ نون والوں کو طعنے دیتے رہے کہ وہ 2014میں ’’قومی اتفاق رائے‘‘ سے تیار ہوئے نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہ کرپائے۔

اقوام متحدہ کی جانب سے ’’دہشت گرد‘‘ ٹھہرائی تنظیموں کے خلاف بالآخر فیصلہ کن اقدامات تحریک انصاف کی حکومت نے لئے۔ حالانکہ حکومت میں آئے اسے صرف 6ماہ ہوئے ہیں۔ مجھے خبر نہیں کہ پاکستان مسلم لیگ نون کے اراکین قومی اسمبلی نے شاہ محمود قریشی صاحب کے طنز بھرے دعوئوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ’’بردباری‘‘ دکھائی یا کسی ’’مجبوری‘‘ نے انہیں خاموش رہنے کو مجبور کیا۔ خواجہ آصف کی صف اوّل کے بنچوں پر موجودگی کے ہوتے ہوئے بھی ایسی ’’بردباری‘‘ یا ’’مجبوری‘‘ بہت معنی خیز تھی۔ تحریک انصاف کو مگر ازخود احساس ہونا چاہیے کہ وہ اس وقت حکومت میں ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے کالعدم ٹھہرائی تنظیموں کے خلاف فیصلہ کن اقدامات والا فیصلہ ایک بہت بڑا فیصلہ ہے۔ اس پر کامل عملدرآمد کے لئے سیاسی اور عسکری قیادت کی مشترکہ یکسوئی کے علاوہ وسیع تر بنیادوں پر قومی اتفاق رائے کی بھی ضرورت ہے۔

اس موقعہ پر اپوزیشن کو خواہ مخواہ کی طعنہ زنی کے ذریعے اشتعال دلانے کی کاوشیں بچگانہ نہیں بلکہ غیر ذمہ دارانہ ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کے مابین خواہ ان کا تعلق اپوزیشن سے ہو یا حکومت سے چند بنیادی نکات پر کامل اتفاق اس وقت کا تقاضہ ہے۔ پلوامہ میں ہوئے واقعہ کے بعد بھارت نے پاکستان پر الزام دھرتے ہوئے ہمیں فوجی دبائو تلے لانے کی کوشش کی۔ مسلح افواج کی چوکسی اور دفاعی صلاحیت کے نپے تلے اطلاق سے بھارت ہی نہیں دنیا بھر کو پیغام مل گیا کہ ایٹمی ہتھیاراستعمال کئے بغیر بھی ہم بھارتی جارحیت کا کماحقہ مقابلہ کر سکتے ہیں۔

مودی سرکار کو خفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ’’نیویارک ٹائمز‘‘ نے صفحہ اوّل پر چھپے ایک مضمون کے ذریعے سوال اٹھایا کہ پاک-بھارت کشیدگی میں حالیہ تنائو کے دوران ہوئے چند اہم واقعات کو دیکھتے ہوئے امریکہ کیسے یہ امید رکھے کہ بھارت ایشیاء میں چین کے برابر والی اقتصادی اور عسکری قوت بن کر ابھرسکتا ہے۔نریندرمودی کو آئندہ دوماہ میں نئے انتخابات کا سامنا کرنا ہے۔ عام انتخابات کی طرف بڑھتے ہوئے ’’56انچ کی چھاتی‘‘ رکھنے کا دعویدار اپنی خفت کو بھلا نہیں سکتا۔ پاکستان کے وزیراعظم کی جانب سے بھارتی پائلٹ کی فراخدلانہ رہائی کا اس نے ابھی تک کوئی مثبت جواب نہیں دیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی کا ماحول برقرار رکھتے ہوئے وہ پاکستان کو اب اقتصادی دبائو تلے لانے پر تلا بیٹھا ہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس اس ضمن میں اس کے لئے کافی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

پاکستان کو ’’گرے‘‘ سے ’’بلیک‘‘ والی فہرست میں جانے سے روکنے کے لئے حال ہی میں اٹھائے اقدامات لہٰذا اشد ضروری تھے۔ دانشمندانہ پیش بندی۔ آئندہ کئی ہفتوں تک مگر ہماری افواج کو ہمہ دم چوکس رہنا ہے۔ یہ چوکسی اضافی اخراجات کا تقاضہ بھی کرتی ہے۔اس تقاضے کو نظرمیں رکھتے ہوئے حکومت کو اقتصادی صورت حال پر بھرپور توجہ دینا ہو گی۔ ہمیں محض ’’اقتصادی بحران‘‘ ہی کو نہیں روکنا بلکہ چند ایسی تخلیقی نوعیت کی ترکیبیں بھی سوچنا ہوں گی جن کے اطلاق کے ذریعے بازار میں رونق لگی نظر آئے۔ یہ رونق Growth-Driven پالیسیوں کی بدولت ہی ممکن ہے۔ سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ ہمیں پہلے سے موجود روٹی کے ٹکڑوں کو ریاستی ضروریات کے لئے بانٹنے تک محدود رہنے کے بجائے مزید ’’روٹیاں‘‘ پیدا کرنا ہو گی۔ ماہرین معیشت اسے "PIE”کو بڑا کرنے کا نام دیتے ہیں۔

سیاسی محاذ پر حکومت اور اپوزیشن کے مابین مسلسل تنائو کے ہوتے ہوئے اقتصادی ترجیحات کے ذریعے PIEکو بڑھانا ممکن نہیں۔ لازم ہے کہ ذرا کشادہ دلی دکھاتے ہوئے تحریک انصاف فی الوقت تھوڑی شکرگزاری اور فراخ دلی سے کام لے۔ مودی نے احمقانہ جارحیت کے ذریعے قوم میں جو اتحاد پیدا کیا ہے اسے معقول انداز میں ملکی معیشت کو توانا بنانے کے لئے استعمال کرے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے