اشارے بازی!

آج کے ٹریفک سگنلز کے بارے میں یہی سننے میں آیا ہے کہ ان سے ٹریفک کنٹرول کیا جاتا ہے اور عوام الناس کو ڈسپلن سکھایا جاتا ہے۔چنانچہ سرخ بتی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب آپ چوک کراس نہیں کر سکتے لہٰذا جہاں ہیں وہیں رک جائیے۔ پیلی پتی یہ ظاہر کرتی ہے کہ اشارہ تبدیل ہونے والا ہے اور سبز بتی اس امر کی علامت ہے کہ بلا دھڑک سڑک پار کر جائیں۔ رات کے وقت یا کم رش والے علاقوں میں پیلی بتی جل بجھ رہی ہوتی ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ آپ دائیں بائیں دیکھ کر سڑک کراس کریں یا رک جائیں یعنی فیصلے کا اختیار آپ کو دے دیا جاتا ہے۔

لیکن کچھ’’ اشارے‘‘ اس کے علاوہ بھی ہیں جن کے مطابق اہلِ نظر رک جا نے، آگے بڑھنے یا ادھر ادھر دیکھ کر ’’پیش قدمی‘‘ کا فیصلہ کرتے ہیں مگر وہ کالم کے دائرئہ اختیار میں نہیں آتے، اس کے لئے محلے والوں کو کانفیڈنس میں لینا پڑتا ہے۔تاہم اس وقت میں جن اشاروں کی بات کر رہا ہوں وہ عام نوعیت کے معاملات کے حوالے سے ہیں، ماشاءاللہ ہم ایک مہذب ملک کے شہری ہیں چنانچہ ہمارے ہاں بھی وہ تمام اچھے قوانین موجود ہیں جو مہذب ملکوں میں پائے جاتے ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ وہاں یہ سب کے لئے ہیں ،ہمارے ہاں کچھ کیلئے ہیں اور کچھ کیلئے نہیں ہیں۔ عوام الناس کے لئے ہم نے ایک بہت بڑی سرخ بتی جلا رکھی ہے جو آتش پرستوں کی آگ کی طرح ہر وقت جلتی رہتی ہے،اس سرخ بتی کا مطلب ہے آپ اپنی جگہ کھڑے رہیں، دوسری طرف سبز بتی جل رہی ہوتی ہے جو خواص کے لئے ہوتی ہے اور وہ بلا دھڑک ادھر ادھر سے گزرتے چلے جاتے ہیں۔

اور یہ سلسلہ رکنے ہی میں نہیں آتا، جب عوام واویلا مچانا شروع کرتے ہیں اور حالات بے قابو ہونے کا اندیشہ لاحق ہوتا ہے تو تھوڑی دیر کے لئے انہیں بھی گزرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے لیکن پھر فوراً ہی سرخ بتی آن ہو جاتی ہے اور خواص ایک دفعہ پھر جوق در جوق اپنے پسندیدہ رستوں سے یوں گزرنا شروع کردیتے ہیں جیسے بہشتی دروازے سے گزر رہے ہوں۔ کئی دفعہ یوں بھی ہوتا ہے کہ دکھاوے کے لیے حکمرانوں کو سرخ بتی جلانا پڑتی ہے لیکن اس سے پہلے وہ طبقہ خواص کو پیلی بتی جلا کر اشارہ دے دیتے ہیں کہ تھوڑی دیر بعد بتی سرخ ہونے والی ہے چنانچہ وہ اپنا اسٹاک (جو گناہوں کا بھی ہوسکتا ہے)مارکیٹ میں لے آئیں یا اسے روک لیں، سو یہ وہ سلسلہ ہے جو گزشتہ برس ہا برس سے جاری و ساری ہے اور ’’باخبر ذرائع کے مطابق‘‘ مستقبل قریب میں بھی جاری رہے گا!

میں نے اپنے ایک دوست سے اس صورتحال کا ذکر کیا تو اس نے کہا کہ اس میں کڑھنے کی کوئی بات نہیں۔اس کی دلیل یہ تھی کہ ٹریفک کے قوانین لچک دار ہوتے ہیں یعنی چوک میں کھڑے سپاہی کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ ٹریفک سگنلز کی موجودگی کے باوجود معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے کر جدھر سے چاہے ٹریفک گزار دے اور جسے چاہے روک دے۔ کیونکہ اگر قانون پر آنکھیں بند کرکے عمل کیا جائے تو اس سے کئی طرح کے ’’بحران‘‘ پیدا ہو سکتے ہیں، اسی طرح یہ لچکدار رویہ عام قوانین کے ضمن میں بھی برتا جاسکتا ہے۔ اگرچہ دوسرے مہذب ملکوں میں اس کا رواج نہیں ہوتا۔مہذب ملکوں میں قوانین کی پابندی کرانے سے اتنے بڑے بڑے سیاسی بحران پیدا نہیں ہوتے جتنے ہمارے ہاں پیدا ہوتے ہیں۔چنانچہ اگر ہمارے ہاں ٹریفک سگنلز کی موجودگی کے باوجود ایک وردی والا معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے تو وہ ٹھیک کرتا ہے!

اگر میرے قارئین میں کسی سادہ لوگ قاری کا خیال ہے کہ میں نے اپنے اس دوست سے اختلاف کیا ہوگا تو یہ اس کی غلط فہمی ہے، میں’’ دہ‘‘ جماعت پاس ہوں، مجھے پتا ہے کہ کہاں اختلاف کرنا ہوتا ہے اور کہاں نہیں کرنا ہوتا، البتہ اس ضمن میں مجھے ایک معمولی سا اختلاف ہے اور اس قسم کے صحتمند اختلاف کی اجازت انتہائی آمرانہ نظام میں بھی ہوتی ہے جبکہ ہمارے ہاں تو ماشاء اللہ جمہوریت ہے، اختلاف یہ ہے کہ عوام اور خواص کے لئے علیحدہ علیحدہ قوانین میں یقیناً کوئی حرج نہیں لیکن رکھ رکھاؤ بھی کوئی چیز ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے سیاسی،معاشی اور معاشرتی نظام کے چوراہوں میں سگنلز نصب ہیں،

یہ سگنلز جن کے کنٹرول میں ہیں ان کے اشارے سے جلتے بجھتے بھی ہیں، عوام کو پتہ نہیں چلتا تھا کہ ان کی باری آنے پر بتی اچانک سرخ کیوں ہو جاتی ہے اور خواص کے لیے یہ مستقل سبز کیوں رہتی ہے لیکن قومی اور بین الاقوامی میڈیا کےپھیلاؤ کی وجہ سے عام لوگوں تک بھی وہ باتیں پہنچنا شروع ہو گئی ہیں جو خواص تک سینہ بہ سینہ پہنچائی جاتی تھیں اور ظاہر ہے یہ بات ملک و قوم کے مفاد میں نہیں چنانچہ اگر ہمارا مقتدر طبقہ چل چلاؤ نہیں چاہتا تو اسے رکھ رکھاؤ کا یہ رویہ اپنانا پڑے گا، خدانخواستہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سیاسی، معاشی اور معاشرتی بد عنوانیوں پر مشتمل جو نظام ہم نے اتنی ہمت سے اور اتنے طویل عرصے میں نافذ کیا ہوا ہے، اسے درہم برہم کردیا جائے بلکہ میری ان گزارشات کا مطلب صرف یہ ہے کہ احتیاط سے کام لیا جائے عوام کے ساتھ وہی کچھ کیا جائے جو مقتدر طبقہ ان کے ساتھ کرنا چاہتا ہے لیکن یہ سب کچھ اتنا واضح نہ ہو کہ اپنی بدحالی کا جو الزام اور صدیوں سے اپنے مقدر کو دیتے آئے ہیں وہ خوامخواہ مقتدر طبقے کے کھاتے میں ڈالنا شروع کردیں۔ امید ہے میری یہ تجویز مقتدر طبقے کو پسند آئے گی، اس صورت میں مالِ غنیمت میں کچھ حصہ اس ازلی وفادار کو بھی ملنا چاہیے۔ متعلقہ حلقوں سے درخواست ہے کہ تجویز کی معقول قسم کی ’’رسید‘‘ براہ کرم جلد از جلد ارسال فرمائیں!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے