پاکستانی خواتین کے ماہواری پر اخراجات ایشیا میں سب سے زیادہ

ایک جائزے کے مطابق پاکستانی خواتین پیریئڈز یا ماہواری سے متعلق اشیا اور ادویات پر ایشیا کے 18 ممالک میں سب سے زیادہ رقم خرچ کرتی ہیں۔

اس جائزے کے مطابق پاکستانی خواتین اپنی ماہانہ آمدن کا تقریباً چھ فیصد ایسی مصنوعات اور ادویات پر پر خرچ کرتی ہیں جو انھیں ماہواری کے درد اور اس سے منسلک دوسرے مسائل سے نمٹنے میں مدد کرتی ہیں۔

یہ رقم ان اخراجات سے نسبتاً دوگنی سے بھی زیادہ ہے جو ایک اوسط پاکستانی گھرانہ صحت یا تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔

اس جائزے میں جن اشیا کی قیمتوں کو مد نظر رکھا گیا ہے ان میں سینیٹری پیڈ، حیض کے درد کی گولیاں اور مہاسوں کو ختم کرنے والی کریم شامل ہے۔ ماہرین کے مطابق اکثر خواتین کو یہ مہاسے اس ہفتے میں نکلتے ہیں جب وہ ماہواری سے گزر رہی ہوتی ہیں۔

اس جائزے میں مختلف ممالک میں ماہواری سے متعلق مصنوعات اور ادویات وغیرہ کی قیمتوں کا تخمینہ آئی ایم ایف کے ان اعداد وشمار کی روشنی میں کیا گیا ہے جس کے تحت ادارہ مختلف ممالک میں لوگوں کی قوت خرید کا تعین کرتا ہے۔ اس کے بعد اس قوت خرید کا تقابل متعلقہ ملک میں خواتین کی اوسط ماہانہ اجرت سے کیا گیا۔

اس جائزے کے مطابق پاکستان میں خواتین ماہواری کے حوالے سے عمر بھر میں اوسطاً دو لاکھ 78 ہزار 340 روپے خرچ کرتی ہیں۔ یہ رقم کسی بھی انٹرنیشنل سکول میں ایک بچے کی سالانہ فیس سے زیادہ ہے۔

ماہواری اخراجات اتنے ہیں کہ اگر ایک پاکستانی خاتون سنیما میں فلمیں دیکھنا چاہے تو وہ زندگی میں سات سو مرتبہ سنیما جا سکتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر وہ ہر ہفتے سنیما جائے تو اوسط پاکستانی خاتون اس رقم سے ہر چھٹی والے دن ایک فلم دیکھ سکتی ہے۔

پاکستان میں ماہواری سے متعلقہ مصنوعات میں خاص طور جو چیز مہنگی ہے وہ سینیٹری پیڈز ہیں۔ اگر ان پیڈز پر لکھی قیمت پر جائیں تو ایک سینیٹری پیڈ کی پاکستان میں وہی قیمت ہے جو جاپان میں ہے۔ جاپان پاکستان کے مقابلے میں ایک نہایت امیر ملک ہے اور وہاں بھی ایک سینیٹری پیڈ کی قیمت بارہ پینس (یعنی آج کل کے زر تبادلہ کے لحاظ سے تقریباً 22 پاکستانی روپے) ہے۔

شاید یہ قیمت آپ کو زیادہ نہ لگے، لیکن اگر آپ پاکستان میں کسی خاتون کی قوت خرید کو سامنے رکھیں تو ہوش ربا نتائج نکلتے ہیں۔ جاپان میں خواتین کی قوت خرید بہت زیادہ ہے کیونکہ پاکستانی روپے کے مقابلے میں جاپانی یین بہت مضبوط کرنسی ہے۔

اور اگر آپ کرنسی کے اس فرق کو اپنی جمع تفریق میں شامل کرتے ہیں تو ایک پاکستانی خاتون کو ایک سینٹری پیڈ جاپانی خاتون کے مقابلے میں چار گنا مہنگا خریدنا پڑتا ہے۔

بہت زیادہ برآمدی ٹیکس کی وجہ سے سینیٹری پیڈز کی اتنی زیادہ قیمت کی وجہ سے پاکستانی خواتین اور لڑکیوں کی اکثریت ماہواری کے دوران ایسے طریقے اپنانے پر مجبور ہو جاتی ہے جو اتنے زیادہ صاف ستھرے نہیں ہوتے۔

پاکستان کی ایک مقامی غیر سرکاری تنظیم ’ریئل میڈیسن فاؤنڈیشن‘ کے ایک مطالعے کے مطابق 79 فیصد پاکستانی خواتین پیڈز کی بجائے پھٹے پرانے کپڑے وغیرہ استعمال کرتی ہیں۔

[pullquote]ماہواری میں شرم کیسی؟[/pullquote]

اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی لڑکیاں ماہواری کے دوران سکول سے چھٹی کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں، خاص طور پر اس صورت میں جب ان کے سکول میں پانی کا مناسب انتظام نہیں ہوتا اور وہ اپنے کپڑوں کو دھو نہیں سکتیں۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے، یونیسیف، کے ایک سروے کے مطابق مظفر آباد میں جن دو سو لڑکیوں سے پوچھا گیا، ان میں سے نصف کا کہنا تھا کہ وہ ماہواری میں سکول سے چھٹی کر لیتی ہیں۔ اتنی ہی تعداد ایسی لڑکیوں کی تھی جن کا کہنا تھا کہ ان کے پاس سینیٹری پیڈز خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے۔

[pullquote]یہ کیلکولیٹر کام کیسے کرتا ہے؟[/pullquote]

اس کیلکولیٹر کو بنانے میں جو اعداد وشمار استعمال کیے گئے ہیں ان کا تعین مختلف ممالک میں ان مصنوعات کی قیمتوں کو سامنے رکھ کر کیا گیا ہے جو اُس ملک میں سب سے زیادہ مقبول ہیں اور یہ بھی مد نظر رکھا گیا کہ ایک ماہواری کے دوران خواتین یہ مصنوعات کس مقدار میں استعمال کرتی ہیں۔

جہاں تک ان مصنوعات کی قیمتوں کا تعلق ہے، اس کے لیے مختلف ممالک میں اس قسم کی مصنوعات فروخت کرنے والی آن لائین کپمنیوں کی قیمتوں کو سامنے رکھا گیا، مثلاً واٹسنز اور گارڈین جیسی کمپنیاں۔ جن ممالک میں یہ اعداد وشدمار دستیاب نہیں تھے، بی بی سی نے اپنی مقامی نامہ نگاروں یا کسی غیر سرکاری تنظیم سے مدد حاصل کی۔

ہم نے اس کیلکولیٹر میں درد کی گولیوں کو اس لیے شامل کیا ہے کیونکہ تقریباً ہر خاتون کو ماہواری کے پہلے روز درد سے گزرنا پڑتا ہے جبکہ مہاسوں والی کریم کو شامل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اکثر ماہرین کی رائے میں ماہواری میں ہر خاتون کے ہارمونز میں اتار چڑہاؤ کے دس دن آتے ہیں جن میں مہاسوں کا خدشہ ہوتا ہے۔

اس کے بعد ان مصنوعات پر کسی بھی خاتون کے انفرادی اخراجات کا تخمینہ 480 سے ضرب دے کر کیا گیا ہے کیونکہ برطانیہ کے ادارۂ صحت کے مطابق ایک خاتون زندگی بھر میں اوسطاً 480 مرتبہ ماہواری سے گزرتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے