فرقہ وارانہ بحث: "تم سب سے بڑے جاہل ہو

نانا جی مرحوم پکے سُنی تھے۔ جب میرے والد صاحب گاؤں پھمہ سرا چھوڑ کے نوشہرہ ورکاں آئے تو نانا جی بھی ٹھٹھہ مانک چھوڑ کر نوشہرہ ورکاں آ بسے اور آٹے والی چکی لگا لی۔۔

لیکن وہ ٹھٹہ مانک کے اپنے پیر صاحب کی ایسے عزت کرتے تھے کہ وہ رات کو دن بھی کہتے تو نانا جی رات کو دن مان لیتے۔

وہابیوں اور دیوبندیوں کے بارے میں بھی ان کے اپنے نظریات تھے۔ نانا جی کہا کرتے تھے کہ چلتا ہوا پانی پاک ہوتا ہے اور اس میں سے کتا بھی گزر جائے تو پیا جا سکتا ہے لیکن اگر کوئی وہابی گزر جائے تو پانی پلید ہو جاتا ہے، پھر آپ نہ وضو کر سکتے ہیں اور نہ ہی وہ پانی پی سکتے ہیں۔

وہ اکثر مجھے بلا کر کہتے کہ وہابیوں کے ماتھے سے نور کھینچ لیا جاتا ہے۔ تم اپنے ابو کو ہی دیکھ لو وہ چار دن نماز پڑھے تو ماتھے پر نشان پڑ جاتا ہے کبھی ہمارے پڑا دیکھا تم نے؟ ۔۔

آٹے والی چکی پر نانا جی کا حقہ چلتا رہتا اور مذہب پر بحث بھی۔۔ کبھی کبھار ان کا کوئی یار مذاق سے پوچھتا ۔۔

محمد دین تم نے اپنی بیٹی کی شادی وہابی سے کر کیسے دی ؟ ۔۔ نانا جی مسکرا کے کہتے اب دین الگ بات ہے اور رشتہ داری الگ بات ہے۔۔

نانا جی مجھے جیب خرچ بھی دیتے، کھانا بھی کھلاتے لیکن ساتھ ہی یہ فقرہ بھی با آواز بلند کہتے اس کے برتن باقی برتنوں سے الگ کر دو ۔۔ یہ وہابی ہے۔۔

گھر میں اماں جی کا جب دل کرتا وہ دودھ کا گلاس اٹھا کر ختم دینا شروع کر دیتی مگر ابا جی نے دیوبندی ہونے کے باوجود انہیں کبھی نہیں روکا لیکن یہ ضرور کہتے کہ دودھ کسی قاری کو دینے کی بجائے اپنے کسی بچے کو پلا دو اور دودھ کے بغیر بھی کسی کو قرآن پڑھ کر ثواب پہنچایا جا سکتا ہے۔

ابا جی بس ایک بات کیا کرتے کہ بس سب کچھ رب کے نام کا دیا کرو۔۔ میں نے ابا جی کو آج تک کسی سے فرقہ وارانہ بحث کرتے نہیں دیکھا۔۔ نانا جی کوئی بات کرتے بھی تو مسکراتے رہتے اور یہی کہتے کہ بڑوں کا ادب ضروری ہے۔

میں بچپن میں سنیوں کی مسجد میں قرآن پڑھتا رہا، وہاں سے ساتھ والے محلے میں بننے والی دیوبندیوں کی مسجد میں چلا گیا۔ میٹرک کی چھٹیوں میں بلوغ المرام ( حدیث کی کتاب) پڑھنے کے لیے مولوی اسحاق اہلحدیث کی مسجد میں چلا گیا۔

یہی وہی مولوی صاحب تھے، جن کو ہم اور ہمارے سنی مولوی گیارہ ربیع الاول کے دن جلوس نکالتے ہوئے سچ مچ کی ’’ گندی گندی گالیاں‘‘ دیا کرتے تھے لیکن کبھی ہمارے کسی بڑے مولوی نے ہم کو نہیں روکا تھا۔

محلے میں چند شیعہ خاندان بھی ہیں۔ ان کے ساتھ بھی گھر والوں کے رواسم بہت اچھے تھے بلکہ ابو جی نے گاؤں ہی ایک شیعہ دوست کے مشورے پر چھوڑا تھا۔ اس خاندان کے ساتھ آج بھی ہمارے بہت اچھے تعلقات ہیں اور ان کے لڑکے میرے اچھے دوست بھی ہیں۔ میں بھی کبھی کبھار کسی شاعر ذاکر کی مجلس سننے چلا جاتا۔۔ وجہ صرف اور صرف اس کا اچھا شاعر ہونا ہوتی۔۔

لیکن میں جس مسجد میں بھی گیا وہاں مجھے صرف ایک بات ہی سننے کو ملی ، کہ بس ہم ٹھیک ہیں اور باقی سب غلط ہیں۔

آہستہ آہستہ میں نے بھی یہی گردان شروع کر دی کہ بس میں ٹھیک ہوں باقی سب غلط ہیں۔

ایک مرتبہ ابو جی مسجد میں عتکاف بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ چادروں کی بنائی ہوئی چار دایواری میں ایک سنی لڑکا بھی عتکاف بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ میری نور اور بشر پر بحث چل رہی تھی۔۔۔

آدھا گھنٹہ بحث کے بعد میں واپس ابو جی پاس آیا تو ان کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔ میں نے عتکاف میں ان کے چہرے پر اتنی سختی کبھی نہیں دیکھی تھی۔

ان کے پہلے لفظ یہ تھے، ’’آئندہ زندگی میں کبھی بھی میں یہ نہ سنوں کی تم کسی کے ساتھ کسی قسم کی فرقہ وارانہ بحث کر رہے تھے۔‘‘

ابو جی بولتے رہے ۔۔۔ کیا تم عالم ہو؟۔۔ نہیں تم جاہل ہو۔۔ ایسی بے نتیجہ بحثیں صرف جاہل کرتے ہیں۔۔

اور تم سب سے بڑے جاہل ہو۔۔ صرف اپنے آپ کو ٹھیک کرو۔۔۔ نماز وہابیوں کی بھی ٹھیک ہے، شیعوں کی بھی، سنیوں کی بھی اور جس طرح تم پڑھتے ہو وہ بھی۔۔۔۔

ابو جی نے بتایا کہ انہوں نے زندگی میں آج تک ایسی بحث کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں دیکھا ۔۔ان کے نتیجے میں صرف نفرتیں اور لڑائیاں جنم لیتی ہیں۔

وہ دن اور آج کا دن میں کبھی کسی سے فرقہ وارانہ بحث نہیں کی اور اگر کوئی ایسی بحث کرتا دیکھائی بھی دے تو میرے ذہن میں سب سے پہلے یہ فقرہ گونجتا ہے، ’’یہ جاہل ہے۔‘‘

جرمنی میں آکر جب میں نے یہ دیکھا کہ وہابی، سنی اور شیعہ سبھی ایک امام کے پیچھے نماز پڑھ لیتے ہیں اور کبھی کسی نے بحث بھی نہیں کی تو کیا یہ اچھے مسلمان ہے یا پاکستان والے؟

کیا پاکستان کے علماء یہاں کے علماء سے زیادہ پڑھے لکھے ہیں؟ پھر میرے ذہن میں یہ سوال آتا کہ کیا آخرت میں کبھی تاریخ کے بارے میں بھی سوال ہو گا؟ تو جواب تھا نہیں۔۔۔

آپ جس بھی حوالے سے دیکھ لیں موجودہ اختلافات کا باعث بننے والے گفتگو مطلوب ہی نہیں ہے، ہم ان چیزوں پر لڑ جھگڑ رہے ہیں، جن کا کوئی سوال ہی نہیں ہونا۔۔۔ آپ بھی تحقیق کر کے دیکھ لیں، یقین کریں آپ کو بھی پتہ چل جائے گا کہ 95 فیصد مسائل جن پر لڑائیاں ہو رہی ہیں، وہ کوئی مسئلہ ہیں ہی نہیں، صرف جہالت کی بنیاد پر ہو رہی ہیں۔

ہمارے معاشرے میں اخلاق کی کمی ہے، حسن سلوک کی کمی ہے، برداشت کی کمی ہے، تحقیق کی کمی ہے، کسی کی بات سننے کی کمی ہے، بات سنانے کی کمی ہے، خواتین کے ساتھ سلوک کیسے کرنا ہے، بچوں کے ساتھ کیسے پیش آنا ہے، حقوق العباد ہر طرح سے مارے جا رہے ہیں لیکن اس پر شاذ‌و نادر ہی بات کی جاتی ہے۔

مسجدوں اور امام بارگاہوں میں صرف اور صرف اختلافی موضوعات ہی بچے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جب سے تقریروں اور خطبوں کے لیے ممبروں پر علماء کی جگہ حافظ اور امام بارگاہوں میں ذاکرین کی بجائے بھانڈ آ کر بیٹھے ہیں ۔۔ ہمارے معاشرے کا بیڑا غرق ہو گیا ہے۔

میرے جیسا دین سے نابلد انسان صرف ایک چیز سیکھ رہا ہے، بس میں ٹھیک ہوں باقی سب غلط ہیں۔۔۔۔۔

اور جب تک عوام لڑائی جھگڑے کی باتوں پر واہ واہ کرتے رہیں گے، ایسے ہی فنکار سامنے آتے رہیں گے۔ ایسے ہزاروں اختلافی مسائل ہیں، جن کو عوام میں نہ بھی بیان کیا جائے تو دین میں کسی قسم کی کمی نہیں آتی لیکن اصل مسئلہ دکانداری کا ہے۔۔ بیان نہ کیا تو پھر بھلا دکاندای کیسے چلے گی ؟

اختلافات کہاں نہیں ہوتے؟ لیکن ہم اختلاف کرنے کا طریقہ ہی بھول چکے ہیں۔ ہم اختلاف کے نام پر گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں اور اختلاف کرنے والے کو دشمن سمجھ لیتے ہیں، اس سے بڑھ کر بھلا جہالت کی کوئی اور حد کیا ہو گی؟

ہم اور ہمارے علماء اکرام میں اب اتنی ہمت نہیں رہی کہ کبھی کبھار کسی دوسرے فرقے کی مسجد میں جا کر نماز ہی پڑھ لیا کریں۔۔۔ ہمارے علم کی حد یہ ہے کہ ہم جمعے کا خطبہ ’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو‘‘ سے شروع کرتے ہیں اور تقریر کے آخر تک دوسرے کو کافر قرار دے چکے ہوتے ہیں۔۔

مجھے پتہ ہے کہ مجھ جیسے جاہل بندے کو دینی موضوع پر کچھ نہیں لکھنا چاہیے لیکن یقین کریں میں ’’آپ کے ڈو ٹکے کی اور شہرت کے لیے کی جانے والی اختلافی تقریروں‘‘ سے تنگ آ چکا ہوں، آپ کا یہ ’’سچ اور علم‘‘ صرف اور صرف تباہی لا رہا ہے، یہ تقریریں صرف اور صرف زہر کے پیالے ہیں ، خدارا ہم جیسے لوگوں پر رحم کیجیے، آنے والی نسلوں پر رحم کیجیے۔۔

اور مزے کی بات ہے جس حکومت نے معاشرتی معیار قائم کرنے تھے اور معاشرے کو اخلاق کے دائرے میں رکھنا تھا ، وہ خود گالم گلوچ میں مصروف ہے۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے