اعتراضیہ

خواتین کے حقوق کا عالمی دن۔۔۔ ہمارے مسلم معاشرے میں ہر دن ہی عورت کا دن ہے۔جو عزت،مقام اور رتبہ اسلام عورت کو دیتا ہے وہ شاید خواتین کے حقوق کے بڑے بڑے علمبردار بھی نہیں دے سکتے۔ اسلام ماں کے روپ میں جنت قدموں میں دے دیتا ہے تو بیٹی کے روپ میں رحمت، بیوی کے روپ میں آدھا ایمان مکمل کرواتا ہے۔ دوسری جانب معاشرے میں عورتوں کے حقوق کے علمبردار ہی عورتوں کے حقوق کا قتل کرتے ہیں. عورتوں کو حقوق دلوانے کا درس دنیا کو اسلام نے ہی سب سے پہلے دیا اور یہی خواتین کے حقوق کے اصل محافظ ہیں. بد قسمتی سے معاشرے میں مذہبی ذہن رکھنے والے لوگوں کو عورتوں کے حقوق کا مخالف سمجھا جاتا ہے ۔

اعتراض تو یہ ہیکہ دائیں بازو کے لوگوں نے عورتوں کے حقوق کی بات نہ کر کے معاشرے میں موجود بھیڑیوں کو اس کا ٹھیکیدار بنا دیتے ہیں. دائیں بازوں سے تعلق رکھنے والے افراد عورتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا چھوڑ کر اپنے فرض سے روگردانی کر رہے ہیں. جس طرح اسلامی روایات کو برقرار رکھنا فرض ہے اسی طرح عورتوں کے حقوق کی پاسداری بھی مذہبی ذہن کے لوگوں کا ہی فرض ہے. خواتین کو گھر سے باہر مسائل کے بارے میں اور پیشہ ورانہ فرائض سر انجام دیتے ہوئےخواتین کو حراساں کرنے کے خلاف دائیں بازو کے لوگوں کی آواز دب سی گئی ہے. معاشرے میں یہ تاثر زائل کرنے کی ضرورت ہیکہ دائیں بازوں کے لوگ خواتین کے گھر سے باہر نکلنے کے ہی مخالف ہیں.

لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے ۔ اسلامی تاریخ پر نظر ڈالیں تو حضرت عائشہ صدیقہؓ کے معاشرے کے لیے کردار کو بھلایا نہیں جاسکتا ۔ جنہیں علم دین کے علاوہ تاریخ، ادب اور طب کے علوم میں بھی کافی مہارت حاصل تھی۔

ہجرت کے وقت کم سنی اور کم عمری میں ہوش مندی اور قوت حافظہ کا یہ حال تھا کہ ہجرتِ نبوی کے تمام واقعات ان کو یاد تھیے ان سے بڑھ کر کسی صحابیؓ نے ہجرت کے واقعات کو ایسی تفصیل کے ساتھ نقل نہیں کیا ہے۔ اسی طرح جنت میں عورتوں کی سردار حضرت فاطمہ کے کردار سے کوئی کیوں کر واقف نہ ہوگا۔ جن کی وجہ سے تیمم کا قرآنی حکم نازل ہوا۔ جن کے نسبت کے بغیر اہل ایمان بخشش ہی تصور نہیں کرتے ۔ عورت کا جائیدار میں حصہ اسلام نے دیا ماں، بہن اور بیوی کا ترکے میں حصہ اسلام کی ہی خوبصورتی ہے۔ نکاح میں آنے والی عورت کے لیے مہر کا حق اسلام کی عورت کے تحفظ کے لیے بنایا گیا قانون ہے۔

پاکستان میں خواتین کو دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے انتہائی کم مسائل کا سامنا ہے ۔ تحریک آزادی کی بات کریں یا مسلم ممالک کی پہلی خاتون سربراہ کی ، ہمارے معاشرے میں خواتین کو نمایاں جگہ دی گئی ۔ اس وقت ملک میں خواتین ہر شعبے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں ۔ نہ صرف شہری علاقوں بلکہ دیہی علاقوں میں بھی خواتین کی شرح خواندگی میں اضافہ ہو رہا ہے اور کئی علاقے تو ایسے ہیں جہاں خواتین کی مردوں کی نسبت شرح خواندگی زیادہ ہے.

دنیا تبدیل ہو رہی ہے اس تبدیلی کو اپنا کر ہی اپنی بنیادی اصولوں اور معاشرے میں سر اٹھاتے بگاڑ کو روکا جاسکتا ہے. ورنہ تباہی ہمارا مقدر ہے.عورتوں کو تحفظ دینے کے لیے مذہبی زہن کے لوگوں کو سامنے آکر خواتین کے حقوق کے علمدبردار بنے ان کے حقوق کے قاتلوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے