نیشنل ایکشن پلان؟

آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملہ ہوا تو دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ نیشنل ایکشن پلان کے 20نکات کی صورت قوم کے سامنے آیا۔ اسوقت کی حکومت نے دہشت گردی کی روک تھام میں کچھ تیز اقدامات بھی کئے اور کچھ ٹھوس نتائج بھی سامنے آئے مگر جوں جوں قوم کے حافظے سے پشاور اسکول کا اندوہناک واقعہ دھندلاتا گیا، توں توں دہشت گردی کے خلاف اقدامات اور نیشنل ایکشن پلان کے نکات پر عملدرآمد بھی غیر ضروری اور غیر موثر ہوتا گیا۔ سیاسی مدو جزر اور عام انتخابات کے بعد نئی حکومت وجود میں آئی تو پہلا چیلنج دہشت گردی نہیں بلکہ معیشت ہی تھا۔ اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے ٹامک ٹوئیاں ماری جا رہی تھیں کہ پلوامہ کا واقعہ ہوگیا۔ نتیجے میں دو نیوکلیئر ریاستیں پاکستان اور بھارت آستینیں چڑھائے ایک دوسرے کے سامنے آکھڑی ہوئیں۔ ظاہر ہے پہل بھارت نے کی اور بڑے ہونے کے گھمنڈ میں آکر پاکستان پر فضائی حملہ کر دیا۔ خدا کے فضل اور پاک فضائیہ کے جانبازوں کی مدد سے قوم کے سر فخر سے بلند ہوئے۔

نہ صرف ایک بھارتی طیارہ پاک سرزمین پر گرایا گیا بلکہ اس کا پائلٹ بھی گرفتار کر لیا گیا۔ مسئلہ پاک بھارت تنازعے تک ہی محدود نہیں تھا، بھارت کی طرف سے حملے کے بعد پلوامہ حملے کا ڈوزئیر دیا گیا اور الزام کالعدم جیشِ محمد پر عائد کیا گیا۔ بھارتی الزامات صرف پاکستان کو ہی ارسال نہیں کئے گئے ان کا واویلا عالمی سطح پر بھی مچایا گیا۔ یہ ساری صورتحال اس لئے بڑی نازک تھی کہ عالمی برادری پہلے ہی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس اور ایشیا پیسفک گروپ جیسے اداروں کے ذریعے دہشت گردی کی روک تھام کے حوالے سے پاکستانی اقدامات کی نگرانی کر رہی تھی۔ ہمارا ماضی کا ریکارڈ بھی اتنا اچھا نہیں تھا، اسی لئے ہمیں بلیک لسٹ میں ڈالے جانے کا خطرہ بھی تھا، جو آج بھی موجود ہے۔ بلیک لسٹ کا مطلب عالمی مالیاتی پابندیاں سمجھا جائے۔ اس تناظر میں پاکستان نے ایک بار پھر کالعدم تنظیموں کے خلاف اقدامات کافیصلہ کیا ۔ بھارتی ڈوزئیر میں پلوامہ حملے میں پاکستان یا کسی پاکستانی کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت تو موجود نہیں تاہم 22کے قریب افراد کو ممکنہ طور پر اس معاملے سے منسلک قراردیا گیا ہے اور ان کے نام بھی ڈوزئیر میں لکھے گئے ہیں۔

پاکستان نے فوری اقدامات کرتے ہوئے 44افراد کو حراست میں لیا اور اگلے دو روز میں مزید 221افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔ دراصل تازہ کارروائیاں اس لئے بھی ضروری ہیں کہ 25مارچ کو ایشیا پیسفک گروپ کا ایک اہم وفد پاکستان پہنچ رہا ہے۔ یہ وفد پاکستان کی طرف سے کالعدم تنظیموں اور ان سے منسلک افراد کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کا جائزہ لے گا۔ ظاہر ہے یہ تمام اقدامات ریاست پاکستان کی طرف سے اس وفد کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔

حالیہ پاک بھارت تنازع کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا سب سے مثبت پہلو یہ تھا کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اس معاملے پر حکومت کے ساتھ کھڑی نظر آئیں۔ پوری پارلیمنٹ نے پاکستان کی مسلح افواج کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ پارلیمنٹ میں ہونے والی تقاریر میں دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی ضرورت پر زور دیا گیا۔پارلیمنٹ کے سیشنز کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سربراہی میں ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد کے لئے سویلین حکومت کا بھرپور ساتھ دینے کا اعلان کیا گیا۔ یہ سب مثبت باتیں ہیں مگر حکومت کی سنجیدگی کا نیشنل ایکشن پلان کے20 نکات سے موازنہ کرلیجئے تو آپ سر پیٹ کر رہ جائیں گے۔ اس پلان میں سب سے پہلے نمبر پر دہشت گردی کی روک تھام کے لئے نیشنل کائونٹر ٹیرر ازم اتھارٹی یعنی نیکٹا کے ادارے کو موثر بنانے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ صورتحال یہ ہے کہ نیکٹا کو گریڈ بائیس میں ریٹائرڈ ہونے والے سینئر پولیس افسر احسان غنی کی سربراہی میں سابق دور میں جتنا موثر اور متحرک بنایا گیا تھا آج یہ ادارہ اتنا ہی غیر موثر اور اپاہج بن گیا ہے۔

حکومت نے سابق دور میں نیشنل ایکشن پلان پر نگرانی کا کام وزارت داخلہ سے لیکر نیشنل سیکورٹی ڈویژن کے سپرد کیا تھا، جسے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر چلاتا تھا۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ناصر جنجوعہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد نئی حکومت نے ابھی تک اس عہدے پر کسی کو تعینات ہی نہیں کیا۔ سابق آئی بی چیف اعجاز شاہ عام انتخابات کے بعد پنجاب سے منتخب ہو کر قومی اسمبلی میں آئے تو توقع تھی کہ حکومت انہیں وزارت داخلہ کا قلمدان دے گی مگر وزیراعظم نے یہ قلمدان اپنے پاس ہی رکھا۔ اب اعجاز شاہ کا نام نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کےطور پر سنا جا رہا ہے۔ وزیراعظم نے ایک تقریب میں اسکا اعلان بھی کر دیا مگر نوٹیفیکیشن ابھی تک جاری نہیں ہوا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جنوری 2015میں بنائے گئے نیشنل ایکشن پلان کا ازسر نو جائزہ لے کر اس میں ترامیم عمل میں لائی جائیں اور ان پر عملدرآمد اور نگرانی کا نظام وضع کیا جائے۔ اس سارے کام کیلئے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دینے والے تمام دماغوں کو ایک بار پھر اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے