آٹھ مارچ عورتوں کا دن نہیں ہے

مجھے معلوم ہے کہ آپ اس عنوان سے اتفاق نہیں کرتے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ حیران ہوں کہ آٹھ مارچ کی مناسبت سے جب کہ دنیا بھر میں عورتوں کے حقوق پر بات ہو رہی ہے، عالمی رہنماؤں سمیت مقامی بیان بازوں تک، سب کے لئے صدیوں پرانے پامال بیانات دہرانے کا دن ہے، کہیں حفیظ جالندھری ماؤں، بہنوں، بیٹوں کو بتا رہے ہیں کہ دنیا کی عزت ان سے ہے۔ کہیں اقبال میزان کے دو پلڑوں میں آزادی نسواں اور زمرد کا گلوبند رکھے آرائش و قیمت کی قدر پیمائی فرما رہے ہیں اور نتیجہ نکالتے ہیں کہ ’نسوانیت زن کا نگہبان ہے فقط مرد‘۔ کہیں ساحر لدھیانوی ثنا خوان تقدیس مشرق کو تلاش کر رہے ہیں، کہیں اسرار الحق مجاز عورت کو مشورہ دے رہے ہیں کہ اگر وہ اپنے ’آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا‘۔ کہیں حبیب جالب اعلان کر رہے ہیں کہ ’اب دہر میں بے یار و مددگار نہیں ہم‘۔

تو ایسے میں آٹھ مارچ کو عورتوں کا دن تسلیم کرنے سے انکار کیوں؟ عزیزان من، بات سادہ ہے۔ مقصد خواہ کیسا ہی بلند کیوں نہ ہو، حقوق کی لڑائی میں استخراجی لکیر کھینچنا درست نہیں۔ انسانی تاریخ میں جہاں جہاں ناانصافی ہوئی، مظلوم کے ساتھ ظالم بھی گھاٹے میں رہتا ہے۔ جب اس ہم کسی کو غلام بناتے ہیں تو دراصل اپنے آپ کو ناانصافی، جہالت اور ظلم کے ہاتھوں رہن رکھتے ہیں۔ مظلوم کی حق تلفی کرنے والا سب سے پہلے اپنے امکان سے محروم ہوتا ہے۔ مساوات، انصاف اور آزادی کو منطقوں میں بانٹنا ممکن نہیں ہوتا۔ آٹھ مارچ عورتوں کا دن نہیں، انسانی ضمیر کی سربلندی کا دن ہے۔ عورت اور مرد دو متحارب فریق نہیں، انسانیت کے دو رنگ ہیں۔ فرق محض جسمانی ہے، صلاحیت، رتبے اور حقوق میں کوئی فرق نہیں۔ جسمانی فرق کو معاشی، سماجی اور سیاسی فرق میں بدل کر ہم نے دنیا کو استحصال اور ناانصافی کی اجتماعی سازش بنا ڈالا ہے۔ عورت اور مرد کے درمیان جسمانی خصوصیات کی بنا پر روا رکھے گئے امتیازات کو ختم کرنے کی جدوجہد عورتوں اور مردوں کی سانجھی میراث ہے۔

کوئی انسان اپنی پیدائش کے وقت اپنی شناخت کے مختلف زاویوں کا انتخاب نہیں کرتا۔ ہم اپنی پیدائش کے مقام اور وقت کا تعین نہیں کرتے۔ اپنی جلد کا رنگ، مادری زبان، قومیت اور اپنے گھرانے کا انتخاب نہیں کرتے۔ اپنی جنس کا انتخاب نہیں کرتے۔ فرد کی شناخت کے یہ سب زاویے تو پیدائش کا حادثہ ہیں، انہیں استحقاق کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔ رنگ، نسل، قومیت، زبان اور جنس کے فرق سے قطع نظر، سب انسان رتبے، صلاحیت اور حقوق میں برابر ہیں۔ شناخت کے پیدائشی پہلو کسی شرمندگی یا تفاخر کی بنیاد نہیں ہو سکتے۔ انسان کی اخلاقی قامت تو اس کے شعوری انتخاب سے طے پاتی ہے، عورت یا مرد ہونا کسی کا شعوری انتخاب نہیں، چنانچہ عورت یا مرد ہونے کی بنیاد پر کھینچی گئی لکیروں کی بنیاد صرف یہ تاریخی حقیقت کہ قدیم معاشرے میں وسائل پر اختیار جسمانی قوت سے طے پاتا تھا۔

تہذیب جسمانی قوت کی بجائے دلیل کی مدد سے فیصلے کرنے کا نام ہے۔ طاقت جنگل کا دستور تھا اور دلیل تمدن کی بنیاد ہے۔ وسائل پر قبضے کے لئے فیصلہ سازی کا اختیار بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ جدید جمہوریت سے قبل ریاستوں میں حق حکمرانی تلوار سے طے پاتا تھا، اب ہم ووٹ کو حق حکمرانی کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ تلوار چلانے میں جسمانی طاقت کی ضرورت پیش آتی تھی۔ آج کے عہد میں علم، دلیل اور قانون کی موجودگی میں جسمانی طاقت کی مدد سے فیصلہ سازی بذات خود تشدد، ناانصافی اور استحصال کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ آج وسائل کی تقسیم بندوق کے بل پر نہیں بلکہ دلیل کی بنا پر کی جائے گی۔

ایک صدی پہلے تک بہتر ہتھیار رکھنے والی قومیں کمزور معاشروں پر قبضہ کر کے ان کا معاشی استحصال کرتی تھیں۔ ہم نے بیسویں صدی میں حق خود ارادیت اور سیلف رول جیسے اصولوں کی بنیاد پر قومی آزادی کی جدوجہد جیتی۔ بتائیے کہ دنیا کے دو تہائی رقبے پر نوآبادیوں کی موجودگی بہتر تھی یا آج دو سو کے قریب خود مختار قوموں کی موجودگی میں انصاف کا امکان زیادہ ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب انسانوں کو غلام بنانا جائز سمجھا جاتا تھا، گورے اور کالے میں امتیاز کیا جاتا تھا، کیا آج کی دنیا میں نسلی بنیاد پر غلامی یا اونچ نیچ کا تصور قابل قبول ہے؟ آج بھی کچھ اقوام خود کو دوسری قوموں سے برتر سمجھتی ہیں۔ کیا انسانی ضمیر قوموں کے مابین ایسی تفریق کو تسلیم کرتا ہے؟ صدیوں تک کسی ایک مذہب کے ماننے والے دوسرے مذہبی گروہوں پر بالادستی کا دعویٰ رکھتے تھے۔ آج بین الاقوامی قانون ہو یا ہمارے دستور کی شق 20، عقیدہ ایک انفرادی حق ہے۔ ریاست کا کام فرد کے حق عقیدہ کا غیر مشروط احترام ہے۔ عقیدے کی بنا پر کسی گروہ کو کمتر یا برتر تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

انسانیت نے تلوار، رنگ، عقیدے کے امتیازات مٹا کر ایک بہتر دنیا کی بنیاد رکھی ہے۔ لیکن عورت اور مرد کے درمیان امتیاز آج بھی ہر جگہ موجود ہے۔ جنس کی بنیاد پر امتیاز نے آدھی انسانیت کے ذہنی، اخلاقی، سیاسی اور معاشی امکان کو مفلوج کر رکھا ہے۔ جنگلوں سے نکل کر شہروں میں آ بسنے والے بھی آج تک عورت کو مال مویشی کی طرح ملکیت سمجھتے ہیں۔ یہ سوچ کسی قیمت پر قبول نہیں کی جا سکتی۔ اگر عورت اور مرد میں حیاتیاتی فرق سیاسی، معاشی اور سماجی حقوق اور مقام کا تعین کرے گا تو رنگ ، نسل اور عقیدے کی مساوات بھی بے معنی قرار پائے گی۔ اگر کسی معاشرے میں عورت کو مرد سے کمتر سمجھا جائے گا تو ایسے معاشرے میں جمہوریت قائم نہیں ہو سکتی۔ جمہوریت صرف پارلیمنٹ چننے کا نام نہیں، جمہوریت وسائل کی تقسیم کے بارے میں فیصلہ سازی کا حق ہے۔ آدھی آبادی کو فیصلہ سازی سے باہر رکھ کے منصفانہ فیصلے نہیں کئے جا سکتے۔ جدید معیشت علم سے بندھی ہے۔ اگر کسی ملک میں عورتوں کو علم تک مساوی رسائی نہیں تو معیشت کے امکانات بروئے کار نہیں لائے جا سکتے۔ کوئی معاشرہ آدھی آبادی کو منفعت بخش معاشی سرگرمیوں سے محروم رکھ کے معاشی ترقی نہیں کر سکتا۔ اگر عورت کو گھر کے اندر اور باہر قانوں کا مکمل اور مساوی تحفظ حاصل نہیں تو معاشرے میں قانون کی بالادستی کا خیال دل سے نکال دینا چاہیے۔

ہمارے ملک میں نامساعد حالات کے باوجود ایسی عظیم عورتوں اور مہذب مردوں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے پاکستان کو آگے بڑھانے میں قابل فخر کردار ادا کیا ہے۔ مجھ سے پوچھئے تو میں اس برس عورتوں کے آٹھ مارچ کو پاکستان کے اس عظیم بیٹے سے منسوب کرنا پسند کروں گا جس کا نام افضل کوہستانی تھا۔ جو اپنے پسماندہ معاشرے میں چار عورتوں کے قتل جیسے شرمناک جرم پر آٹھ برس تک انصاف مانگتا رہا۔ افضل کوہستانی کے پاس مالی وسائل تھے اور نہ سماجی رسوخ۔ ایک زندہ ضمیر اس کا کل اثاثہ تھا۔ بالآخر سات مارچ 2019 کو جب دنیا عورتوں کا عالمی دن منانے کی تیاری کر رہی تھی، عورتوں کے حقوق کا سچا علمبردار افضل کوہستانی ایبٹ آباد میں قتل کر دیا گیا۔ افضل کوہستانی نے جان دے کر بتا دیا کہ عورتوں کے مساوی حقوق کی تحریک صرف عورتوں سے تعلق نہیں رکھتی، پوری انسانیت کی مشترکہ میراث ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے