ترازو

زرداری خاندان ، شریف خاندان اور گجرات کے چوہدریوں میں جوہری فرق کیا ہے؟ دو اور تین نہیں، ترازو ایک ہی ہوتا ہے۔

بیک وقت ذاتی مخالفین اور اپوزیشن سے نبرد آزما وزیر اطلاعات نے فرمایا کہ اپوزیشن کو حکومت ساتھ لے کر چلے گی۔ اچنبھا فطری تھا۔ سبحان اللہ، کنٹینر سے کیا آپ اتر آئے؟ کیا ادراک کر لیا کہ ایک چیز ترجیحات بھی ہوتی ہیں۔ کیا علم ہو گیا، دشمن سے مڈ بھیڑ ہو تو سب سے زیادہ ضرورت قومی اتحاد کی ہوتی ہے۔

کوئی دن قرار رہا، دونوں طرف سے اکّا دکّا جنونی آگ اگلتے رہے اور اکّا دکّا پاگل ہر دیار میں ہوتے ہیں۔ اکثریت بہر حال عملی انداز فکر کی ہوتی ہے۔ خدانخواستہ گھر کو آگ لگنے کا اندیشہ ہو تو باہمی تنازعے، کم از کم وقتی طور پر بھلا دیئے جاتے ہیں۔مگر اسی ہنگام وزیراعظم کا اعلان ِجنگ اور اس سے پہلے افلاطون احسن اقبال کا آتشیں خطاب؟ دونوں طرف کے میڈیا سیل خاموش کر دیئے گئے تھے۔ فریقین نے احتیاط کا دامن تھاما اور کچھ دن تھامے رکھّا تھا۔
اقتدار عجب چیز ہے۔ کچھ بھی باقی رہے‘ جذباتی توازن خال ہی باقی بچتا ہے۔ غلبے کی تمنا نہیںجاتی۔ میانوالی کے لوگ کہتے ہیں ”شیر کڈاہیں دب نئیں کھاندا‘‘۔ شیر گھاس کبھی نہیں کھاتا۔ جی ہاں، نہیں کھاتا۔ پھر جس کے منہ کو، آدم کا خون لگ جائے، وہ جانوروں کے ماس پہ بھی بسر نہیں کر سکتا۔ اسے خون چاہئے ہوتا ہے، خون۔

مخالفت ایک چیز ہے، عداوت دوسری۔ دشمنی میں بغض و عناد مل جائے تو ہڈّیوں کے گودے تک اتر جاتی ہے۔

طرزِ زندگی بن جاتی ہے، شعار ہو جاتی ہے، فطرتِ ثانیہ ! فرمایا: کوہِ احد اپنی جگہ سے ٹل سکتا ہے، مگر عادت نہیں۔اگرچہ واضح اور دو ٹوک تھا۔ وزیراطلاعات کے بیان پر یقین نہیں آیا۔ وہی شعر ؎
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا

جلتی پر تیل نارووال میں ”قانون پسند‘‘ جتھّے مرتب فرمانے والے لیڈر نے ڈالا۔ یہی اس کا وظیفہ اور یہی اس کا اندازِ کار ہے۔ پارٹی میں یہی اس کی افادیت اور یہی اس کی ذمہ داری ہے۔ اشارۂ ابرو پہ حرکت میں آنا۔
مثالِ کشتیٔ بے حس مطیعِ فرماں ہیں
کہو تو بستۂ ساحل رہیں، کہو تو بہیں

اپوزیشن کو اعتبار کیسے آتا۔ اس لیے کہ جنگ بندی کے باوجود ،فائرنگ کی سیٹیاں سنائی دیتی رہیں۔ جنگ بند تھی مگر بند نہیںتھی۔

ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا

اپوزیشن کو کچھ خوف اپنے جرائم کا کہ ماضی آلودگی سے اٹا ہے، کچھ اندیشہ حریف کی کم ذوقی سے۔ اللہ کی بستی میں حیات کا انحصار عدل اور قصاص پر ہے۔ عدل کا دائرہ بے حد وسیع ہے۔ قصاص ایک دوسری چیز ہے؛ اگرچہ عدل کے کائناتی نظام میں انصاف کے اہم ترین حصوں میں سے ایک حصّہ یہی قصاص ہے۔

ارشاد اس بے کراں نظام کے بارے میں یہ ہے: نظر اٹھا کر دیکھو، تھک کے لوٹ آئے گی۔ رحمن کی اس کائنات میں تم کوئی خلل نہ پائو گے۔ قصاص نام ہے، بروقت اور مستحسن ترین انداز میں ،قصور وار کو اس کی کوتاہی یا جرم پہ سزا دینے کا۔ فرمان ہے کہ اس کرۂ خاک پہ زندگیوں کے چراغ جلنے کا انحصار قصاص پہ ہے، ورنہ بجھ جائیں۔
ستاروں بھرے آسمان سے، مہتاب رواں کی لوری سناتی چاندنی ،آفتاب کی حیات بخش حرارت تلے پھلتی پھولتی ہمہ رنگ زندگی بکھر جائے۔ عدل کا ابدی قانون اگر لپیٹ دیا جائے۔ خوشبو میں آہنگ پیدا کرتے‘ یہ فرانس کے بوڑھے ہنر مند کا ہاتھ ہے۔ ایک ذرا سا کانپا اور سحر انگیز افسوں کی بجائے، بازاری سی رہ گئی۔ جادو نہ جگا، تماشا رہ گئی۔ بہت ہی سخت اصول ، بہت سخت، لوہار کا باٹ نہیں اس کے لیے سنار کا ترازو چاہئے۔ جوہری کی نگاہ اور صوفی کا سا دل چاہئے۔

ایک ذرا سے تکنیکی و قانونی نکتے اور چھوٹے سے شبے کا فائدہ بھی ملزم کو پہنچے گا، محتسب کو نہیں۔

بظاہر ایران میں جنگ تمام ہو چکی، مگر تمام نہ ہوئی تھی۔ وہ آخری حکمران، وہ آخری جنرل یزد گرد ،اٹک گیا تھا۔ بستیوں میں امن قائم ہو جاتا۔ گھروں کے آنگنوں میں بچّے کلکاریاں مارتے پھرتے، مگر وہ فریب کار جنگجو سدّراہ تھا۔ معاہدہ کر لیتا، لشکر آسودہ ہو جاتے کہ وہ پھر سے آن پڑتا۔ پھر سے تلواریں ٹکراتیں، پھر سے خون بہتا۔ پھر سے لاشے اٹھتے، پھر سے گھر گھر ماتم۔

اہل ایمان کا یہ طریق نہ تھا۔ زندگی کی تکریم اور اس کی تقدیس کا احساس ان کی رگ رگ میں تھا۔ ایسی احتیاط ہر بار رزم گاہوں میں ملحوظ رکھّی گئی کہ تاریخ میں کوئی دوسری نظیر تلاش نہیں کی جا سکتی۔ صرف چار پانچ سو زندگیاں نذر ہوئیں ۔ پورا جزیرہ نما تسخیر کر لیا گیا۔ کوئی بھی دوسرا دلاور ہوتا تو فتح مکّہ میں اتنا لہو بہتا کہ حرم کے در و دیوار تک خون آلود ہو جاتے۔ شہرِ امن، شہرِ امن نہ رہتا۔

قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی/ اور اس شہرِ امن کی/آدمی کو ہم نے بہترین تقویم پر پیدا کیا/پھر اسے پست سے پست تر کر ڈالا/مگر وہ جو ایمان لائے اور اچھے اعمال کیے رحمت عالمؐ نے اہتمام ایسا کیا۔ اس رازداری سے منزل کا قصد کیا کہ ریگزار کی ہوائوں تک کو خبر نہ ہوئی۔ ایسی ڈرا کر خاموش کر دینے کی حکمتِ عملی اختیار کی کہ آگ اگلنے والے پرندے اپنے آشیانوں سے اڑ ہی نہ سکے۔ ایسی آسان شرائط مکینوں کو پیش کیں کہ چند احمقوں کے سوا، کسی کو آنچ تک نہ آئی۔ پھر امان بخشی اور ایسی امان کہ دل کی گہرائیوں سے وہ شاد ہو گئے۔

فاروقِ اعظم عمر ابن خطابؓ کے سامنے ظاہر ہے کہ یہی اسوہ تھا۔ چاہتے آپ بھی یہی تھے کہ ایران کی قدیم اور دل آویز سر زمین کے زیادہ سے زیادہ آدم زاد بلکہ شجر تک جھلسنے سے بچ جائیں۔ مگر وہ وعدہ شکن یزدگرد!

آخر کار وہ دن آیا کہ اسے مدینہ لایا گیا۔ خلقِ خدا کا بے تکان خدمت گزار، تھکا ماندہ اس دن کھجوروں کے ایک جھنڈ میں سویا پڑا تھا۔ آنکھ کھلی تو رنگ برنگے پیرہن میں ملبوس اجنبی پر۔ جانتا تھا، وہ خوب جانتا تھا کہ اس کی گردن تلوار کی مستحق ہے۔ مگر وہ بھی ایک کائیاں تھا۔ پانی کے ایک پیالے کی اس نے درخواست کی اور وعدہ لیا کہ ”اس‘‘ پیالے کو پینے سے پہلے اس پہ فیصلہ نہ سنایا جائے ۔ پھر یہ پیالہ اس نے گرا دیا۔ اور یہ کہا: اب آپ مجھے سزا دے ہی نہیں سکتے۔ وہ پیالہ میں نے پیا ہی نہیں۔

امیر المومنین کی خواہش کے برعکس، مدینہ منورہ کے مکینوں نے اسے معاف کرنے کا حکم دیا۔ استدلال ان کا یہ تھا: آپ پیمان کر چکے اور پیمان توڑا نہیں جا سکتا۔

یہی وہ اخلاقی برتری تھی، روم و ایران جس کے ٹھنڈے سائے میں ایمان لائے۔ انتقام اگر ہوتا تو سینے سلگتے رہتے۔ تیور دوسرے ہوتے۔

ایوانِ عدل کے چند اٹل اصول ہیں۔ انصاف صرف ہونا نہیں ، ہوتا نظر بھی آنا چاہئے۔ دوسرے یہ کہ شک کا فائدہ ملزم کو ملے گا اور بہر حال۔ تیسرے صاحبِ معاملہ کبھی جج نہیں ہوتا‘خواہ وہ پارسائوں کا پارسا ہو۔ قاتلانہ حملے کی سماعت میں ممبئی کے غیر مسلم جج نے کہا تھا: مسٹر جناح کے بعد گواہی کی ضرورت تو نہیں مگر قانون کے تقاضے مختلف ہیں۔ اراضی کے ایک چھوٹے سے قطعے پر تنازعہ تھا۔ امیر المومنین عمر ابن خطابؓ کو ثبوت پیش کرنا پڑا تھا، ورنہ فیصلہ انکے خلاف ہوتا۔

وزیراعظم فریق بن گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: نہیں چھوڑوں گا، کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ عدالتیں سو فیصد بھی انصاف کریں تب بھی، معاملہ مشکوک۔

وزیراعظم کے مزاج میں تعجیل ہے، وہ تعجیل جو غلبے کی جبلّت سے پھوٹتی ہے۔ اپوزیشن کے بہت سے لیڈر قصور وار ہیں، گندگی میں لتھڑے ہوئے۔ دوسری طرف ان کی پارٹی میں جہانگیر ترین، نذر محمد گوندل اور ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان جیسے لوگ موجود ہیں۔ ایسے میں انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ عدل کا نظام سورج اور چاند کی کرنوں کی مانند شفاف ہو۔ کیا تحریک انصاف کا مینڈیٹ اتنا اجلا ہے کہ وزیراعظم تلوار سونت کر کھڑے ہوں؟ زرداری خاندان، شریف خاندان اور گجرات کے چوہدریوں میں جوہری فرق کیا ہے؟ دو اور تین نہیں، ترازو ایک ہی ہوتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے