بس ذرا گوجرانوالہ تک

پھر وہی پرانا مسئلہ درپیش تھا جس سے میری جان جاتی ہے۔

گوجرانوالہ کے ریجنل پولیس افسر طارق عباس قریشی کا میسج تھا۔ وہ ‘پولیس اور عوام کے درمیان اچھے تعلقات کیسے تعمیر کیے جا سکتے ہیں‘ کے موضوع پر سیمینار کرانا چاہتے تھے۔

میری سیمینار میں شرکت اور لیکچرز دینے سے جان جاتی ہے۔ شاید سرائیکی ہونا بھی وجہ ہے۔ ہمارا گھر سے باہر جانے کو دل نہیں چاہتا۔ ہم سرائیکیوں کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک گائوں سے دوسرے گائوں چلے جائیں تو بھی پردیس میں پہنچ جاتے ہیں اور مونجھ آنا شروع ہو جاتی ہے۔ ہم سرائیکیوں کو اس مونجھ نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ مونجھ بھی ہے۔ لندن میں بھی یہ مسئلہ مجھے درپیش تھا۔ سب دوست کہتے: یہیں رہ جائو۔ میں کہتا: میں تو رہ لوں گا لیکن مونجھ نہیں رہنے دے گی‘ سنبھالو اپنا لندن۔

اب سوچ میں پڑ گیا کہ طارق قریشی صاحب کو کیسے انکار کروں۔ سیمینار میں کون سیکھتا ہے۔ انسان دوسروں کی باتوں سے زیادہ اپنے تجربات سے سیکھتا ہے۔ لوگ مجبوراً سیمینار میں بیٹھتے ہیں لیکن توجہ کم ہوتی ہے کہ کون کیا کہہ رہا ہے۔ لوگ سنجیدہ گفتگو سے مزاحیہ مشاعرہ زیادہ توجہ سے سنتے ہیں۔ جو لوگ کتابیں نہیں پڑھتے انہیں ویسے بھی نئی بات پر قائل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ زندگی بھر جو سنتے آئے ہیں اسی کو قابل اعتماد سمجھتے ہیں۔ پھر مجھے یہ لگ رہا تھا کہ میں ایک ڈیڑھ گھنٹے کے سیمینار میں پولیس افسران اور اہلکاروں یا عوام کو کیا نئی بات بتا سکتا ہوں‘ جس کا انہیں پہلے سے علم نہ ہو۔ یا وہ سب میری باتیں سن کر خود کو کیوں نئی لائن پر لگائیں؟ وہ وہی کام کیوں نہ کرتے رہیں جو وہ پہلے کر رہے ہیں؟ ویسے بھی انسانی نفسیات ہے کہ وہ کوئی بھی نیا کام کرنے سے ڈرتا ہے۔ اور تو اور کسی ریسٹورنٹ میں نئی ڈش کا آرڈر کرتے وقت بھی ڈرتے ہیں کہ پتہ نہیں ذائقہ کیسا ہو لہٰذا جو پہلے کھایا ہوا ہے وہی آرڈر کر دو۔

طارق قریشی صاحب ان چند افسران میں سے ہیں‘ جن کی میں عزت کرتا ہوں۔ جس کی آپ عزت کرتے ہوں اسے انکار کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس دوران ہمارے کالم نگار دوست توفیق بٹ کا فون آ گیا۔ بٹ صاحب بھی اپنی ذات میں انجمن ہیں۔ اچھا لکھتے اور اچھا بولتے ہیں۔ کافی کوشش کی لیکن لگا کہ اس بار کامیاب نہیں ہو پائوں گا‘ گوجرانوالہ جانا ہی پڑے گا۔

رات سے بارش ہو رہی تھی اور اوپر سے جی ٹی روڈ کی برباد سڑک۔ شریف سیاستدان دس سال تک پنجاب کے حکمران رہے لیکن مجال ہے‘ جی ٹی روڈ کو توجہ دی ہو۔ ہم سرائیکی یونہی رولا ڈالتے رہے کہ مظفرگڑھ میانوالی روڈ کی حالت بہت خراب ہے۔ اگر حالت خراب دیکھنی ہے تو ذرا جی ٹی روڈ پر پنڈی سے لاہور تک کا سفر کرکے دیکھیں‘ پتہ چل جائے گا۔ ان شریف بھائیوں نے صرف وہی پراجیکٹ شروع کیے‘ جن میں فوراً پیسہ تھا۔ مجھے یاد نہیں پڑتا‘ دو تین گھنٹے کے اس سفر میں کوئی لمحہ ایسا گزرا ہو‘ جہاں آپ کو دھکے نہ لگے ہوں۔

جی ٹی روڈ کے ٹول پلازوں میں روزانہ ہزاروں گاڑیوں سے کروڑوں روپے اکٹھے کیے جا رہے ہیں اور لوگ جس حالت میں سفر کررہے ہیں‘ اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ یہ نہ بھولیں کہ اس جی ٹی روڈ پر سب وہی شہر ہیں جنہیں نواز شریف صاحب کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ جنہوں نے تیس سال تک شریفوں کو حکومت لے کر دی، انہیں جواب میں شریف حکومت انسانوں کے سفر کے قابل سڑک بھی بنا کر نہ دے سکی۔

جس طرح ذلیل ہو کر گوجرانوالہ پہنچے وہ سیمینار ہال میں لوگوں کا جوش اور ولولہ دیکھ کر کم ہوا۔ طارق قریشی نے بہت کم عرصے میں گوجرانوالہ کے شہریوں کا دل جیت لیا ہے۔ اس سے زیادہ خوشی مجھے قریشی صاحب کو اپنی ٹیم کی تعریف کرتے دیکھ کر ہوئی۔ وہ سارا کریڈٹ اپنے افسران اور اہلکاروں کو دے رہے تھے۔ سی پی او معین صاحب بتانے لگے کہ کیسے ان سب نے محنت کرکے پچھلے کچھ عرصے میں کروڑوں روپوں کی ریکوریز کرائی تھیں جو اس دن سیمینار میں متاثرین میں تقسیم کی گئیں تاکہ عوام کو بتایا جا سکے کہ پولیس ان کے لیے کتنی کوششیں کر رہی ہے۔

سہیل وڑائچ اور توفیق بٹ نے بڑی اچھی تقریریں کیں اور داد پائی۔ سہیل وڑائچ کو فن آتا ہے کہ کیسے اچھی اچھی باتیں کرنا ہیں اور لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ لانی ہے۔ ان کی یہ بڑی خوبی ہے کہ دنیا کا مشکل ترین سوال بھی انتہائی معصومانہ انداز میں پوچھ لیتے ہیں اور اگلے کو دیر بعد پتہ چلتا ہے کیا پوچھا گیا تھا اور وہ کیا جواب دے بیٹھا ہے۔

میرے لیے حیران کن تھا کہ بڑی تعداد میں عوام اور پولیس والے موجود تھے اور بڑے سکون سے انہوں نے سب کو سنا۔ میرا خیال تھا کہ پولیس یہ سیمینار کرا رہی تھی لہٰذا پولیس اہلکاروں اور عوام کو حکم ملا ہو گا: بات سمجھ آئے یا نہ آئے لیکن آپ لوگوں نے تالیاں ٹھوکنی ہیں؛ تاہم حیرانی ہوئی‘ تالیاں اس وقت بجائی گئیں جب واقعی کسی مقرر کی کوئی بات اس قابل تھی کہ اسے سراہا جاتا۔

میرا یہی تعارف کرایا گیا کہ یہ کہیں آنے جانے اور سیمینارز یا اس طرح کی تقریبات میں جانے سے گریز کرتے ہیں۔ میں نے مذاقاً کہا: طارق قریشی صاحب بہت اصرار کر رہے تھے تو میں نے سوچا‘ شاید یہ گوجرانوالہ سے تنگ آئے ہوئے ہیں اور اپنا تبادلہ چاہتے ہیں‘ کیونکہ ہمارے بارے میں مشہور ہے کہ جس افسر کی تعریف کریں‘ اگلے دن اس کا تبادلہ ہو جاتا ہے یا پھر اسے پوسٹنگ نہیں ملتی۔ حکمران سمجھتے ہیں‘ اب یہ افسر ہمارے کسی کام کے نہیں ہیں۔ مطلب‘ یہ ہمارے کہنے پر بندے نہیں ماریں گے یا سڑکوں پر قتل عام نہیں کریں گے۔ غلط کام کریں گے نہ ہونے دیں گے۔ لہٰذا ان کا مجھے میسج تھا: آپ کی مہربانی لیکن ہمیں نوکری کرنی ہے۔ میں وہ پیغام سن کر کچھ ڈیپریس بھی ہوا تھا کہ یہ ہے ہمارا ملک یہاں اگر اچھے افسران کی تعریف کی جائے تو انہیں پوسٹنگ نہیں ملتی؟ اور افسران بھی چاہتے ہیں ان کا اچھے لفظوں میں ذکر نہ کیا جائے۔

سیمینار میں کہا: اس لیے یہاں آیا ہوں کہ طارق قریشی کی عزت کرتا ہوں۔ یہ وہ سنہری اصول ہے جو پولیس کو اپنانا چاہیے۔ کسی انسان کو عزت مفت میں نہیں ملتی۔ عزت آپ کو کمانا پڑتی ہے۔ آپ کے پاس بھی آپشن ہے‘ عزت کمانی ہے یا پیسہ؟ میں نے کہا: پنجاب پولیس کے افسران کے بارے میں کسی سے پوچھنا ہو تو میں طارق قریشی سے پوچھتا ہوں: کیسا افسر ہے۔ ان کی رائے کا احترام کرتا ہوں۔ وہ ان چند افسران میں سے ہیں جن سے آپ غلط کاموںکی توقع نہیں کر سکتے۔

پولیس کو کچھ رول ماڈلز کی ضرورت ہے۔ بڑی تیزی سے پولیس نے اپنا مقام کھویا ہے۔ ساہیوال میں جس طرح پورے خاندان کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا اور اس کا دفاع بھی پولیس افسران نے کیا‘ اس کے بعد پولیس کا امیج مزید خراب ہوا ہے۔ میں اس لیے کچھ افسران کے نام عزت سے لیتا ہوں تاکہ نوجوان پولیس افسران ان کو رول ماڈل بنائیں۔ اسلام آباد میں ایک نوجوان پولیس افسر سے ملاقات ہوئی تو وہ بھی یہ شکایت کر رہے تھے کہ انہیں ایمانداری سے کام کرنے کی یہ سزا ملتی ہے کہ فیلڈ پوسٹنگ نہیں ملتی۔ میں نے انہیں بھی یہی کہا تھا: آپ ان کرپٹ افسران یا حکمرانوں سے کبھی کمپرومائز نہ کریں۔ ڈاکٹر ظفر الطاف وہ ڈی ایم جی افسر تھے جنہوں نے مرضی سے اڑتیس برس نوکری کی۔ کئی دفعہ ہٹائے گئے‘ لیکن وہ باز نہ آئے۔ پولیس میں طارق کھوسہ اور میر زبیر محمود جیسے افسران نے ڈٹ کر نوکری کی اور دونوں آئی جی بھی بنے اور بائیس گریڈ بھی ملا۔ آفتاب چیمہ اور محمد علی نیکوکارا جیسے افسران نے دھرنے کے دنوں میں بچوں عورتوں پر گولیاں چلانے سے انکار کرکے عزت کمائی۔

قدرت بھی بہادر اور ایماندار لوگوں کی عزت کرتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ نے ایمانداری سے نوکری کی ہو، غلط کام سے انکار کیا ہو‘ اور خدا نے آپ کو بھیڑیوں کے غول میں اکیلا چھوڑ دیا ہو۔ قدرت بھی ایماندار اور اچھے لوگوں کی عزت کرتی اور ان کا خیال رکھتی ہے۔ لیکن قدرت آپ کو آزماتی بھی ہے۔ آپ کا پورا ٹرائل کرتی ہے۔ اگر آپ راستے میں ہی دل چھوڑ بیٹھے تو پھر شکوہ نہ کریں۔

وہی پرانی بات کہ مفت میں کچھ نہیں ملتا۔ عزت بھی خیرات میں نہیں ملتی۔ خیرات میں اچھی پوسٹنگ یا بھاری رشوت مل سکتی ہے۔

عزت اور محبت پانے کے لیے تو سات جنگل اور سات دریا عبور کرنا پڑتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے