وزیرِ اعلیٰ ہاؤس کِتھاں اے۔۔۔!

جمعہ کی صبح ناصر باغ سے گورنمنٹ کالج ہاسٹل جانے کے لیے نِکلے ہی تھے کہ ایک بوڑھا شخص سر پر میلا ساعمامہ،تن پر خستہ سی قمیص و تہہ بند اور پاؤں میں بوسیدہ سا کھُسہ پہنے ہوےسامنے تھا۔سفید داڑھی ،کسی بھی تاثر سے خالی چہرہ اور پاؤں کی جِلد اوپرسے یوں پھٹی ہوئی تھی جیسے بعضوں کی پھٹی ہوئی ایڑیاں ہوتی ہیں ۔ظاہر ہورہاتھا کہ حالات کاماراہوااللہ کابندہ ہے جو اُس کی الوہیت میں یوں ماراماراپھررہاہے۔ ہمیں روکا اور پوچھا
"وزیرِ اعلیٰ ہاؤس کِتھاں اے” (وزیرِ اعلیٰ ہاؤس کہاں ہے ۔؟)

ہمیں اس کی حالت دکھائی دے رہی تھی اور سوال بھی سنا حیرت ہوئی کہ یہ شخص کیا پوچھ رہاہے۔

راستہ بتایا تو اس شخص نے شاید ہماری حیرانی بھانپ لی تھی ،تھیلا نکالا اس میں کاغذوں کے درمیان رکھی ایک تصویر دکھائی اور رِندھی ہوئی آواز میں بولا

” میڈابھرامار چھوڑے نے،پیسے آلے بندے ہن پولیس پرچہ نئیں کٹیندی،پہلے خودکشی داالزام لاے نے بعد ہچ رپورٹ آئی تے پتہ لگے سَت بندے آکے قتل کرگے ہن۔ولا وی پرچہ نئیں کٹیندے رپورٹ وی نئیں ڈیندےکوئی نی سُنڑدا،ہنڑوزیرِ اعلیٰ کوں ملنڑ آیاں”

(میرابھائی قتل کیا ہے، پیسے والے لوگ ہیں پولیس ان کے خلاف پرچہ نھیں کاٹ رہی ،پہلے خودکشی کا الزام لگایااور بعدمیں رپورٹ آئی تو معلوم ہواکہ سات لوگ قتل کر نے آے تھے۔ پھر بھی پرچہ نھیں کاٹ رہے اور رپورٹ بھی نھیں دے رہے کوئی بات نھیں سنتا تواب وزیرِ اعلیٰ سے ملاقات کے لیے آیاہوں )

اُس کی بھرائی ہوئی آواز سنی تومیں نے دیکھناچاہاکہ شاید رورہاہے مگر اس کی آنکھوںمیں آنسو تو کیا نمی تک نہ تھی شاید کہ آنسو خشک ہوچکے تھے۔ میں نے پوچھا

چاچا کِتھوں آے او۔؟” (چاچو کہاں سے اے ہو۔؟)

بولے

"جتوئی توں آیاں "(جتوئی سے آیاہوں )

اس سے آگے میری زبان گُنگ ہوگئی اور بوڑھا شخص مال روڈ کی طرف چل دِ یا اور ہم ہاسٹل کی طرف یہ سوچتے ہوے کہ اس شخص کو یہ راہ کس نے دِکھائی ہےکہ وہاں جاؤ گے توشنوائی ہوگی۔ ہمارے ذہن سے وہ صورت محو ہی نھیں ہورہی،صورت ایسی شکستہ تھی کہ دیر تک روتے رہے کہ اسے یہاں سے بھی مایوس لوٹنا پڑاتو وہ کہاں جاے گا۔

ضلع مظفرگڑھ سے لاہور آنے والا یہ شخص جو میلوں فاصلہ طے کر کے یہاں فقط حصولِ انصاف کے لیے پہنچا تھا۔اس کا سراپا ولباس چیخ چیخ کر بتارہاتھا کہ وہ کس قدر مشکل زندگی بسرکررہاہےاور اس کے پاس اتنامال وزر نھیں جو وہ اس عدالتی نظم میں اپنامقدمہ لڑسکے ۔وہ ایک درد واذیت سے گزررہاتھا کہ یہاں مظلوم کی سننے والا کوئی نھیں ہے بل کہ مظلوم کو ہی سماج میں مجرم بناکر پیش کیا جاتاہے۔وہ حاکمِ اعلیٰ کے پاس اس آس پر آرہاتھا کہ یہاں اسے انصاف مِلے گا اور حاکمِ اعلیٰ نے نہ جانے اس کی عرضی سنی بھی کہ نھیں ۔

یہ ایک شخص کی کہانی تھی کہ وہ کہاں دوردراز سے یہاں ایک امید لے کر پہنچاتھا مگر ہمارے حکمرانوں کو ان بے آسرا ومظلوم خان دانوں سے کوئی سرو کار ہے بھی کہ نھیں ۔ یہاں فقط چہرے بدلتے ہیں نظام وہی فرسودہ بل کہ بے ہودہ ہی رہتا ہے ۔ یہاں عوام کے خون کی کوئی قیمت ہے نہ مظلوم کی آنکھ سے بہنے والے آنسو کی کوئی قدر۔یہاں کوئی معتبر ہے تو وہ طاقت ور ہے اور کوئی ناقابل ِ تکریم ہے تو فاقہ کش۔ابھی کچھ ماہ پہلے ہی ہم نے ایک واقعہ دیکھا جہاں ایک خاندان کو سرِ عام ریاستی دہشت گردی کانشانہ بنایاگیا مگر نتائج ظالم کے حق میں ہی ہیں ۔ کیسے مان لیاجاے کہ یہ حکومت عوام دوست یامظلوم کی دادرسی کرسکتی ہے۔ ہم عوام بھی جلد بھول جاتے ہیں کہ ہمارے گرد وپیش میں کوئی سانحہ رونما ہواتھا یاکسی کالہو بے وجہ ہی بہاتھا۔ہم نے خود کو فوری ردِ عمل کاعادی کر دیا ہے کہ جب کوئی مسئلہ ہوتاہے تو جذباتیت میں بہت کچھ کہہ لیتے ہیں مگر جوں ہی کچھ روز گزرتے ہیں ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم پچھلے دنوں شور کیوں کررہے تھے ۔

مظلوم کے حق میں آواز اٹھانے والا کوئی نھیں ہوتااورظالم کے حق میں تاویلیں پیش کرناقومی فریضہ سمجھاجاتاہے ۔ کوئی کسی کوکہیں ظلم کانشانہ بنا دے تو ہم پہلے اس کھوج میں لگ جاتے ہیں کہ آخر "کچھ نہ کچھ ” ایسا کیاہوگا کہ نوبت یہاں تک آئی۔ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہری کے مال وجان کی حفاظت کرے اور وہ کسی بھی غیرقانونی کام میں ملوث ہے تواسے قانونی چارہ جوئی کے ذریعے سزادی جاے ۔ اسی طرح کوئی شہری ریاستی اداروں کے ذریعے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی دادرسی چاہتا ہے تو بھی ادارے آئینی طور پرپابند ہیں کہ شفاف انداز سے مظلوم کے دعوے کی تحقیق کرکے ظالم کو سزادے۔ہمارے یہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے کہ مظلوم کی بات تک نھیں سنی جاتی اور ظالم سے داد وصول کی جاتی ہے۔ ان سے اتنابھی نھیں ہوتا کہ مدعی کی تسلی کے لیے کچھ کاغذی کارروائی ہی کردیں ۔ کم ازکم اُسے ریاست سے یہ شکایت نہ ہوکہ اس کی بات نھیں سنی جاتی اور وہ دربدر خوار ہوتارہے ۔

حکم رانی عوام کی امانت ہے اور حکم ران پر ذمہ داری ہے کہ عوام کی بہبود کو اپنا اول و آخر فرض جانے ۔ یہاں عوام دھکے کھاتے پھرتے ہیں اور حکم ران سیاسی لڑائیوں میں مصروف ہیں ۔حکم ران جماعت کے ساتھ ساتھ حزبِ اختلاف کا یہ فرض ہے کہ وہ عوام کے نمائندوں کے طور پر ایوانوں تک رسائی پاتے ہیں تو عوام کے حق میں آواز بھی بلند کریں ۔سیاسی لڑائیوں کی بجاے قومی مفاد میں عوامی لڑائیاں لڑی جائیں تو کسی جتوئی کے باسی کو انصاف کے حصول کے لیے لاہور نہ آنا پڑے اور وہ بھی جھوٹی امیدوں کے سہارے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے