’’اندر گھس کر ماریں گے‘‘ والی لاف زنی

کئی بار ذکر کرچکا ہوں۔میرے صحافتی کیرئیر کے ابتدائی دنوں میں 1984ء کے دوران بہت بڑا بریک اس وقت آیا جب اندراگاندھی کے قتل کے بعد بھارت میں ہوئے عام انتخابات کو زندگی میں پہلی بار اس ملک میں جاکررپورٹ کرنے کا موقعہ نصیب ہوا۔دلی اُترا تو وہاں کسی ایک شخص سے بھی شناسائی نہیں تھی۔چند بزرگوں کے حوالے تھے۔ ان کے توسط سے بھارت کے مشہور صحافیوں تک رسائی کی کوشش ہوسکتی تھی۔ میں نے ان سے روابط استوار کرنے سے قبل مگر دلی سے کلکتہ جانے والی ایک ٹرین پکڑلی۔ 28گھنٹوں کے سفر کے دوران تھرڈ کلاس کا مسافر ہوتے ہوئے یوپی اور بہار کے وسیع تر علاقوں سے ہوتا ہوا کلکتہ پہنچا۔ وہاں پہنچنے تک یہ حقیقت عیاں ہوگئی کہ کم از کم بھارت کے ہندی بولنے والے یا نام نہاد Cow Beltکے باسی ’’لمڈے(راجیوگاندھی) کو ایک چانس‘‘پر تلے بیٹھے ہیں۔میں نے ریل کی تھرڈ کلاس میں سفر کی بدولت عام آدمی کے ایک بہت بڑے Sampleسے گفتگو کے بعد جو نتیجہ اخذ کیا اسے دیانت داری سے من وعن لکھ ڈالا۔میری خبر پاکستان میں چھپی تو ہماری ریاست کے ان نما ئندوں کو جو پیشہ وارانہ بنیادوں پر بھارت کے معاملات پر گہری نگاہ رکھتے ہیںاعتبار نہ آیا۔

کئی ناراض ہوئے۔زیادہ تر نے ایک ’’نوجوان اور سادہ لوح‘‘ رپورٹر کے ڈھٹائی کے ساتھ لکھے ’’تجزیے‘‘ کا مذاق اُڑایا۔دلی لوٹنے کے بعد میں نے وہاں کے سینئر ترین صحافیوں سے روابط استوار کرلئے تو ان کی اکثریت بھی اس گماں میں مبتلا تھی کہ اندراگاندھی کے قتل کے بعد جو بحران پیدا ہوا ہے اس نے کانگریس کو پریشان ومفلوج کردیا ہے۔ دوسری جماعتیں بھی کوئی واضح پیغام دینے میں ناکام نظر آرہی ہیں۔عام انتخابات کی بدولت لہذا بھارت میں مستحکم حکومت قائم ہونے کی اُمید نہیں۔ کئی ایک جماعتوں کو نتائج آنے کے بعد مخلوط حکومت بنانے کی راہ ڈھونڈنا ہوگی۔ ’’جید‘‘ صحافیوں اور تبصرہ نگاروں سے میں نے بحث میں الجھنے سے گریز کیا۔ دل ہی دل میں لیکن اپنی رائے پر ڈٹا رہا۔انتخابی نتائج آجانے کے بعد البتہ اپنی ’’ذہانت‘‘ پر اتراتا رہا۔

11اپریل سے ایک بار پھر بھارت میں انتخابی عمل شروع ہورہا ہے۔پولنگ کا مرحلہ وار سلسلہ ایک ماہ تک جاری رہے گا۔ نتائج کا اعلان 23مئی کو ہوگا۔اپنے صحافتی کیرئیر کی آخری اننگز میں تقریباََ ’’بارھواں کھلاڑی‘‘ ہوتے ہوئے بھی جی مچل رہا ہے کہ وقت،ہمت اور وسائل ہوتے تو بھارت پہنچ کر ان انتخابات کا جائزہ لیا جائے۔ یہ ہونا ممکن نہیں۔ گھر میں بیٹھ کر ’’تجزیہ‘‘ کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔دُنیا بھر کی طرح بھارت کے انتخابات بھی اب ٹی وی سکرینوں کے ذریعے ’’لڑے‘‘ جاتے ہیں۔گزشتہ دو دن میں نے بھارتی سکرینوں کو مانیٹر کرنے میں گزارے ہیں۔ کئی سروے اور تجزیے بھی انٹرنیٹ کی بدولت غورسے پڑھنے کی کوشش کی۔

جو ’’ہوا‘‘ ٹی وی سکرینوں اور سمارٹ فونوںپر میسر معلومات کے حوالے سے چلی نظر آرہی ہے اس کے مطابق نریندر مودی ’’چھایا‘‘ ہوا ہے۔ راہول گاندھی اور دیگر مخالفین کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ اسے دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے سے کیسے روکیں۔نجانے کیوں 1984کے تجربات کو یاد کرتے ہوئے مجھے یہ گماں ہورہا ہے کہ حقیقت ایسی نہیں جو بھارتی سکرینوں پردکھائی جارہی ہے۔ حال ہی میں بھارت کے تین صوبوں میں وہاں کی اسمبلیوں کے لئے جو انتخابات ہوئے تھے مودی کی جماعت کو اس میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔جن علاقوں میں اسے جیت نصیب ہوئی وہ بہت جوڑ توڑ اور محنت کے بعد ملی تھی۔

نوٹ بندی کی وجہ سے ہوئی کسادبازاری،غریب اور درمیانے طبقے کے کاشت کار کی مشکلات اور مسلسل پھیلتی بے روزگاری BJPکی شکست کے ذمہ دار ٹھہرائے گئے۔صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے نتائج آنے کے بعد میں نے اس کالم میں اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ عام انتخابات کی جانب بڑھتے ہوئے مودی اب خود کو مزید ’’ہندو‘‘ اور پاکستان کا دشمن ’’قوم پرست‘‘ ثابت کرنے کی ضد میں مبتلا ہوجائے گا۔بہت دُکھ کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ پلوامہ میں ہوئے واقعہ کے بعد اس نے جو رویہ اختیار کیا اس نے میرے خدشات کو درست ثابت کردیا۔

اپنے خدشات کے درست ثابت ہونے پر شاداں ہونے کے بجائے میری اصل گھبراہٹ مگر اب یہ ہے کہ مودی کو ’’چھایا‘‘ دکھاتے ہوئے بھارت کی ٹیلی وژن سکرینیں اور انٹرنیٹ Outletsخود کو فقط ’’بالاکوٹ‘‘ تک محدود رکھے ہوئے ہیں۔اس کی بنیاد پر ’’اندرگھس کر ماریں گے‘‘ والی بڑھک کو جنونی انداز میں ورد کی صورت دہرایا جارہا ہے۔یہ بات کہیں دیکھنے اور پڑھنے کو نہیں مل رہی کہ بالاکوٹ پر حملے کے بعد پاکستان نے مداخلت کا نپاتلا لیکن مؤثر جواب بھی دیا تھا۔ پاکستانی سرحد کے اندر گھسا ایک بھارتی مگ طیارہ مارگرایا گیا۔ اس کا پائلٹ گرفتار ہوا۔اپنے پائلٹ کی گرفتاری کے بعد مودی میزائل حملوں کے ذریعے ’’جواب‘‘ دینا چاہ رہا تھا۔ اس کے جواب کا جواب دینے کی تیاری ہمارے ہاں بھی مکمل تھی۔ دُنیا کو اس کی خبر ہوگئی۔ امریکی وزیر خارجہ ہنوئی میں موجود ہوتے ہوئے شمالی کوریا سے مذاکرات بھول کر ٹیلی فون ڈپلومیسی میں مصروف ہوگیا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے علاوہ کئی یورپی ممالک بھی خاموش سفارت کاری کو مجبور ہوگئے۔

بالآخر اطلاع یہ ملی کہ پاکستان اور بھارت کو ایک بار پھر ’’ایٹمی جنگ‘‘ کے دھانے کی طرف بڑھنے سے روک لیا گیا ہے۔مجھے ہرگز سمجھ نہیں آرہی کہ بالاکوٹ پر حملے کے بعد دنیا بھر کو نظر آنے والی ہزیمت کے ہوتے ہوئے بھی ’’56انچ کی چھاتی‘‘کا دعوے دار ’’اندر گھس کر ماریں گے‘‘ والی بڑھک کو انتخابات جیتنے کے لئے کیسے استعمال کرسکتا ہے۔حقیقت جبکہ یہ ہے کہ اس نے محض ایک پوائنٹ سکور کرنے کے لئے اپنا طیارہ گروایا۔ بھارتی پائلٹ کو دیگر ممالک کی مداخلت کے ذریعے رہائی دلوائی اور خود کو بھرپور پاک-بھارت جنگ کی طرف بڑھنے سے روکنا پڑا۔امریکہ اور دیگر ممالک کی مداخلت سے Near-Warسے بچے خطے میں ’’56انچ کی چھاتی+اندر گھس کر ماریں گے‘‘ والی گفتگو محض لاف زنی ہے۔ حالیہ حقائق نے بلکہ ثابت یہ کیا ہے کہ روایتی حوالوں سے ’’فوجی برتری‘‘ کے باوجود بھارت پاکستان کو دھونس کے ذریعے دبائو میں نہیں لاسکتا۔ دھونس کا رویہ جاری رہا تو میرے منہ میں خاک معاملہ Near Warتک محدود نہیں رہے گا۔ ہمارے خطے میں مکمل تباہی آئے گی۔

سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ بھارتی ٹی وی سکرینوں کے مقابلے میں برسرزمین انتخابی مہم کے دوران مودی مخالفین کی جانب سے اس ضمن میں مؤثر سوالات اٹھائے جارہے ہیں یا نہیں۔ اگر یہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں مگر ہمیں سکرینوں پر نظر نہیں آرہے تو مودی کی ’’حمایت‘‘ میں دکھائی ’’ہوا‘‘ کی کوئی وقعت باقی نہیں رہے گی۔اسلام آباد میں بیٹھا اگرچہ میں اس خوف کا اظہار کرسکتا ہوں کہ اگر بالاکوٹ کے بعد ہوئے واقعات کو ذہن میں رکھتے ہوئے مودی مخالفین کی جانب سے مؤثر سوالات اٹھنا شروع ہوگئے تو عام انتخابات سے قبل یا اس کے مختلف مراحل کے دوران ہی مودی پاکستان کے خلاف ایک اور ایڈونچر کو راغب ہوجائے گا۔ممکنہ ایڈونچر یہ حقیقت واضح کردے گا کہ ’’56انچ چھاتی‘‘ والا چورن بک نہیں پارہا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے