جان لیوا سوئیاں

اس رات بھی میں اسپتال کی ایمرجنسی میں معمول کے کاموں میں مصروف تھا۔ ڈیوٹی ڈاکٹر پوری توجہ سے وہاں لائے جانے والے مریضوں کو ضروری طبی امداد فراہم کر رہے تھے۔ سینئر ہونے وجہ سے مریضوں کو دیکھنے کے ساتھ اسٹاف کے کام پر نگاہ رکھنا بھی میرے فرائض میں شامل تھا۔

رات ایک بجے کے قریب کا وقت ہوگا جب میں نے دیکھا کہ اسپتال کا عملا ایک گیارہ سالہ بچی کو ایمرجنسی وارڈ میں لایا۔ اس لڑکی کے ساتھ اس کے والدین بھی تھے۔ میرے معلوم کرنے پر انہوں نے بتایا گیا کہ ان کی بیٹی نے پیپر پن نگل لی ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ شاید یہ پن اس کی سانس کی نالی میں چلی گئی ہے۔ میں نے فوری طور پر اس کا ایکسرے کرنے کی ہدایات دیں اور خود بھی ایکسرے مشین آپریٹر سے بات کی کہ لڑکی کو ایکسرے فوری طور پر بھیجے۔

ایکسرے آنے پر لڑکی کے جسم میں پن کی موجودگی ثابت ہو گئی۔ پن لڑکی کی سانس کی نالی سے ہوتی ہوئی اس کے دل کے قریب پہنچ گئی تھی جس سے لڑکی کی جان جانے کے شدید خطرات پیدا ہوگئے تھے۔ وقت کم تھا اور اس پن کو فوری نکالنا ضروری تھا ۔ میں نے پن کو جسم سے نکالنے سے پہلے مزید کچھ لیباریٹری ٹیسٹس کروائے اور لڑکی کو آپریشن تھیٹر منتقل کروایا۔

لڑکی کے والدین کی جان جیسے سولی پر لٹک رہی تھی۔ اس کی والدہ کے آنکھوں سے آنسو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ والد کا حال بھی برا تھا اور کیوں نہ ہوتا جس کی جوان لڑکی کی جان جانے کےخطرہ ہو وہ کیسے اطمینان سے بیٹھ سکتا تھا۔

کراچی سمیت ملک بھر کے اسپتالوں میں حادثاتی طور پر پن یا سوئی وغیرہ نگل لینے کے متعدد مریض آئے دن لائے جاتے ہیں ۔ ان مریضوں میں بچوں اور بچیوں کے ساتھ بڑی عمر کی لڑکیاں اور خواتین بھی شامل ہوتی ہیں۔ کم عمر بچے ، بچیوں کے پن ، سوئی یا کچھ اور نگلنے کے واقعات کی بنیادی وجہ والدین اور گھرکے دیگر افراد کی لاپرواہی ہوتی ہے جس میں پن ، سوئیوں اوردیگر اشیاء کو فرش اور زمین پر پھینکنا، بچے بچیوں سے بے توجہی برتتے ہوئے زمین پر چھوڑ دینا ہوتا ہے۔

جبکہ لڑکیوں اور خواتین کے پن یا سوئی نگلنے کی وجہ کسی کپڑے میں لگانے یا دھاگہ ڈالنے کے لیے پن یا سوئی کوکام کے دوران منہ میں دبا کر رکھنا ہے۔

بہرحال ہم نے تمام ضروری ٹیسٹ کرنے کے بعد پن نکالنے کے عمل کا آغاز کیا۔ اس عمل کو ‘برانکواسکوپی’ پروسیجر پروسیجر کہتے ہیں۔ اس میں نہ صرف سرجن کے ساتھ ایک تجربہ کار انیستھیٹسٹ یا مریض کو بیہوش کرنے کے ماہر ڈاکٹر کی موجودگی ضروری ہوتی ہے۔ اس مخصوص واقعے کی بات کریں تو اس 11 سالہ لڑکی کے پروسیجر کےدوران اس کے دل کے قریب پہنچی ہوئی یہ پن ہر دھڑکن کے ساتھ تھرکتی نظر آرہی تھی۔

دل کے اتنے قریب سوئی کو ہلتے ہلتے آگے بڑھتے دیکھ کر ڈاکٹروں کے ساتھ آپریشن تھیٹر میں موجود عملے کے افراد کے دل بھی اس پن کے ساتھ دھڑک رہے تھے ۔ جوں جوں سوئی تھرکتی وہاں موجود افراد کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی سانس نیچے رہ جاتی۔ یہ سنسنی اس وقت تک جاری رہی جب تک سوئی کو کامیابی سے نکال نہیں لیا گیا۔

ہم نے صبح سویرے کامیابی سے اس پن کو بچی کے دل کے قریب سے نکال کر جان بچا لی۔

برانکو اسکوپی ماہرین کے مطابق اس نوعیت کے مریض محض اپنی غفلت سے اس تکلیف اور جاں کنی کی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کے سر پر دوپٹے ، حجاب یا کسی اور کپڑے کو پھسلنے سے روکنے کے لیے مختلف طرح کی سوئیوں اور پنوں کی مقبولیت کے ساتھ ان پنوں کی سانس کی نالی میں جانے کے واقعات میں بھی قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔

یہ پن منہ میں رکھ کر باتیں کرنا یا ہنسنا اس کی اہم وجوہات ہے۔ اس غیر ضروری مشکل سے بچانے کے لیے احتیاط ہی واحد راستہ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے