ہم جذباتی پاکستانی

تاریخ میں پہلی بار پاکستانی آسٹریلیا کی ٹیم سے بھی محبت کا اظہار کر رہے ہیں۔

کیونکہ ایک پاکستانی نثراد آسٹریلیا کی ٹیم میں شامل ہے اور بھرپور انداز میں پرفارمینس دے رہا ہے۔

لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ ہم دشمنی کس کس انداز میں نبھاتے ہیں؟

دو قومی نظریہ ہمارے قلب و لہو میں کس قدر موجود ہے اسکا لیول ہمیں یہاں سے لگا لینا چاہیے۔

لیکن کیا ہی خوب ہو کہ ہم یہی دو قومی نظریہ اور دشمنی کا بیج اپنی ترقی کے راستے میں پیوستہ کریں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں ترقی کے پھلوں سے مستفید ہو سکیں۔

دو قومی نظریے کے مطابق ہندوستان سے دشمنی کرنی ہے تو پاکستان بھر میں ملاوٹ زدہ اشیاء خوردونوش نوش،ملاوٹ زدہ دودھ کا کاروبار ختم کریں۔

پاکستان بھر میں کھلے عام شاہراہوں،گلی محلوں،خالی پلاٹوں،بس اسٹیشنز،ریلوے اسٹیشنز،ہوٹلز،فیکٹریوں کے ارد گرد حتیٰ کہ سیرگاہوں میں گندگی ڈالنے سے توبہ کریں اور دو قومی نظریے کے مطابق زندگی گزارنے کا اصول اپنا کر اچھے مسلمان ہونے کا ثبوت دیں کیونکہ اسی دین کو آزادانہ طریقے سے گزارنے کے لئے آپ کے آباؤ اجداد نے بے شمار قربانیاں دے کر یہ ملک حاصل کیا تھا۔دین اسلام میں صفائی کو نصف ایمان کا درجہ قرار دیا گیا ہے لیکن ہم پاکستانی اس کے برعکس ذندگی گزار رہے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دو قومی نظریہ بحیثیت قوم صرف نفرت پر مبنی ہے نہ کہ اصلاح پر۔

بات نکلی ہے تو یاد کراتا چلوں دو قومی نظریے کو قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر کے عین نیچے رکھی گئی کرسی پر براجمان ہو کر ہم اس طرح سے دفن کرتے ہیں کہ قائد اعظم کی روح تڑپ جاتی ہوگی جب ہم رشوت،میرٹ کے خلاف فیصلے،تھانوں میں بے گناہوں پر ظلم و ستم،کالجوں یونی ورسٹیوں میں غیر معیاری تعلیم اور صرف کاروبار اور زیادہ پیسے کے حصول کے لئے ڈگریوں کی بندر بانٹ،ہسپتالوں میں امیر کا بہترین علاج اور غریب کو دھکے،وزرا کا خود کی تنخواہوں کو بڑھانے کا بل منظور کرانا اور وزیراعظم کا صرف اظہار افسوس کرنا،غریب مزدور کی تنخواہ سرکاری طور پر پندرہ ہزار مقرر کرنا اور صرف بجلی گیس کے بل بیس ہزار بھیجنا،غیرت کے نام پر قتل کرنا اور فخر سے سر کو اونچا کرنا لیکن دین اسلام سے رہنمائی نہ لینا یا ریاست کے قانون کا خوف نہ ہونا،ملک میں فرقہ پرستی کو فروغ دینا جب کہ دو قومی نظریہ مسلمانوں،اقلیتوں کو آزادی سے پاکستان میں ذندگی گزارنے کا موقع فراہم کرنا تھا۔

قلم جب اپنی روانی میں ہو تو بہت سی دل کی باتیں صحفہ کی رونق بن کر آپکی کی نگاہوں سے ہوتی ہوئی آپکے دل و دماغ تک پہنچ جاتی ہیں لیکن کیا آپ ان باتوں پر عمل بھی کرتے ہیں یا نہیں یہ سوچ کر دل بے قرار ہو جاتا ہے۔کوشش کیجئے کہ پاکستانی ہونے کہ ناطے جس دین کو پاکستان کے نام پر حاصل کرنے کے لئے دنیا کے سامنے لایا گیا تھا اسکی تعلیمات پر عمل کو یقینی بنائیں۔

آج تبدیلی کی دعویدار حکومت موجود ہے اور اس تبدیلی کے سرخیل محترم وزیراعظم عمران خان صاحب پاکستان کو اگر واقعی طور پر ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتے ہیں تو ملک میں قومی ہم آہنگی کے فروغ کے لئے ایسے اقدامات کریں جن سے معیشت پر بھی اثر پڑے اور قانون کی حکمرانی یقینی ہو۔قانون کی حکمرانی سے مطلب امیر و غریب،طاقتور اور کمزور سب کے لئے قانون برابر ہو اور سزا و جزا میں کوئی فرق نہ برتا جائے۔

پاکستان کی ترقی کے لئے ضروری ہے عوامی سطح پر ایسی سوچ و فکر کو اجاگر کیا جائے جس میں اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا نہ صرف آسان لگے بلکہ ذمہ داری بھی محسوس ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ سکول،کالج،یونیورسٹی اور مدرسے میں نصاب اور ایسا ماحول تشکیل دیا جا سکے جس سے آنے والی نسلوں میں محب الوطنی کا وہ جذبہ بیدار ہو جو اوپر دی گئی ہمارے معاشرے میں موجود برائیوں کا حصہ نہ بنیں اور انکے خاتمے میں اپنا مثبت کردار فعال طریقے سے ادا کر سکیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے