لائٹر اور رائٹر!

مجھے اپنے ایک دوست کی طرف سے جو چیز اکثر تحفے میں ملتی ہے، وہ گیس لائٹر ہے اور گیس لائٹر کو جو چیز ورثے میں ملی ہے وہ اُس کی تیزی و طراری ہے، یعنی دوسرے تیسرے دن اُس لائٹر میں سے گیس ختم ہو جاتی ہے، باقی صرف لائٹر رہ جاتا ہے اور اِس لائٹر کی حیثیت ایک پرانی فلم’’سات لاکھ‘‘ کے اِس ڈائیلاگ کے مانند ہوتی ہے جس کے مطابق ’’تم یہ سات لاکھ روپے گن سکتے ہو، مگر خرچ نہیں کر سکتے‘‘ چنانچہ اِس بے گیس لائٹر کو’’شو،شا‘‘ کے لئے ہاتھ میں پکڑا جا سکتا ہے، کسی کے سر کا نشانہ لیا جا سکتا ہے، لیکن اگر اِس سے کوئی کام نہیں لیا جا سکتا تو وہ سگریٹ جلانے کا کام ہے۔ یعنی جس طرح انسان کو دردِ دل کے واسطے پیدا کیا گیا ہے مگر وہ درد سر بن کر رہ گیا ہے، اِسی طرح یہ گیس لائٹر بھی بے فیض لائٹر ثابت ہوتا ہے کیونکہ وقت پڑنے پر اپنے ’’فرائضِ منصبی‘‘ ادا کرنے کے بجائے یہ ’’تجاہل عارفانہ‘‘ سے کام لینے لگتا ہے!

گیس لائٹر کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر ذرا سی ہوا بھی چل رہی ہو اور اِس دوران اِسے جلانے کی کوشش کی جائے تو یہ جواب میں میر انیسؔ کا یہ شعر بزبانِ حال پڑھنے لگتا ہے؎

انیسؔ دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جائو

چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے

چنانچہ جو’’سخن فہم‘‘ ہیں وہ اپنے ارادےسے باز رہتے ہیں یعنی اگر پنکھا بھی چل رہا ہو تو لائٹر نہیں جلاتے لیکن کچھ ’’سخن ناشناس‘‘ وہ لائٹر جلانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، جس کے نتیجے میں بچی کھچی گیس بھی ختم ہو جاتی ہے۔ اِس کے علاوہ متذکرہ صورتحال میں ایک چیز اور بھی ہے جس کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اُس چیز کو شرفا اپنی زبان میں شرمندگی کہتے ہیں۔

مجھے عزیزی لائٹر سے ایک شکایت یہ بھی ہے کہ ماچس کے مقابلے میں اُس کی افادیت بہت کم ہے۔ مثلاً بچہ رو رہا ہو تو ماچس کھڑکا کر اسے چپ کرایا جا سکتا ہے، اُس کی تیلی کےمسالے والے حصے پر روئی لپیٹ کر کان کی میل نکالی جا سکتی ہے۔ اُس کے دوسرے سرے سے خلال کیا جا سکتا ہے۔ فارغ اوقات میں ایک تیلی جلا کر اُس سے دوسری کا مسالا جلایا جائے تو دل سلگنے کی سی کیفیت کا احساس ہوتا ہے اور اگر دل واقعی سلگ رہا ہو تو ایک تیلی سے بیک وقت پوری ماچس کو جلا کر یوں لگتا ہے جیسے دشمن کی چھائونی کو آگ لگادی ہو، بہرحال لائٹر میں جس کمی کا شدت سے احساس ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ آپ اس سے خلال نہیں کر سکتے، یہ کوئی سنی سنائی بات نہیں ہے بلکہ میں دو ایک بار لائٹر سے خلال کرنے کی کوشش کر چکا ہوں۔

خیر یہ تو سبھی فروعی مسائل ہیں، گیس لائٹر سے میری شکایت کی اصل بنیاد اُس کی کمینگی ہے یعنی اُدھر گیس بھریں، اِدھر جواب آتا ہے کہ بس بہت ہو گئی اور اُس کے بعد یہ لائٹر نہیں’’لائیبلٹی‘‘ بن جاتا ہے چنانچہ میں اِسے یا تو کونے کھدرے میں پھینک دیتا ہوں یا پھر اُس میں گیس بھر کر کسی دوست کو بطورِ تحفہ، محبت سے پیش کر دیتا ہوں۔ بالکل اُسی طرح جس طرح تحفے میں یہ لائٹر کسی دل جلے دوست نے مجھے دیا تھا۔ اُس کے باوجود بہت سے بے فیض لائٹر بچ جاتے ہیں، چنانچہ

چند تصویر بتاں، چند حسینوں کے خطوط

کے علاوہ بعد مرنے کے میرے گھر سے کچھ لائٹر بھی برآمد ہوں گے جبکہ باقی میرے دوستوں کی جیبوں سے برآمد کئے جا سکتے ہیں، جو لائٹر شعلہ نہ دے، وہ شعلہ نہیں راکھ کا ڈھیر ہے اور یہ بات لائٹروں پر ہی نہیں رائٹروں پر بھی صادق آتی ہے۔ چنانچہ صورتحال یہ ہے کہ لائٹر کے علاوہ رائٹر بھی ان دنوں یا تو کسی کونے کھدرے میں چھپے نظر آتے ہیں یا کسی کی ’’جیب‘‘ سے برآمد ہوتے ہیں۔

اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ رائٹرز کا ذکر آئے اور میں بات آگے نہ چلائوں۔ میری ساری زندگی اِنہی کے ساتھ بسر ہوئی ہے اور باقی زندگی بھی اِنہی کے ساتھ گزارنے کی خواہش ہے۔ اِن دنوں ہمارے ہاں فکشن لکھنے والے بہت کم رہ گئے ہیں۔ ایک اپنے مستنصر حسین تارڑ تھے جو اپنے سفر ناموں میں فکشن لکھا کرتے تھے، دوستوں نے اُنہیں سمجھایا کہ یار جب تم اِتنی اچھی فکشن لکھ سکتے ہو تو اِسے خواہ مخواہ سفر نامہ کیوں قرار دیتے ہو۔ اِس طرح کا اعتراض کرنے والے وہ لوگ تھے جو تارڑ کے سفر نامے میں ہر حسینہ کو اُس مسافر پر عاشق ہوتے دیکھ کر یورپ کے سفر پر نکل کھڑے ہوئے۔ وہاں جس میم سے اُن کی ملاقات ہو، وہ بہت خوش اخلاقی سے اُن سے ملے۔ اُنہوں نے جان لیا کہ یہ عفیفہ اُن پر عاشق ہو گئی ہے، اُنہوں نے غالباً یہ شعر نہیں سنا تھا ؎

میں جسے پیار کا انداز سمجھ بیٹھا ہوں

وہ تبسم، وہ تکلم تری عادت ہی نہ ہو

اِس کی سمجھ تو اُنہیں اُس وقت آئی جب پیش دستی کے نتیجے میں دوچار مقدموں میں اُنہیں دھر لیا گیا اور حوالات میں کچھ دن گزارنا پڑے۔ بس اُس کے بعد اُنہوں نے پاکستان واپسی کا ٹکٹ کٹایا اور یہ پہلوان نما لوگ سیدھے تارڑ کے پاس گئے۔ بس اُس کے بعد سے تارڑ نے اپنی فکشن کو سفرنامہ قرار دینے سے گریز کیا۔ کاش اُن معصوم مسافروں نے غالب کا یہ شعر پڑھا ہوتا ؎

دھول دھپا اس سراپا ناز کا شیوہ نہ تھا

ہم ہی کر بیٹھے تھے غالبؔ پیش دستی ایک دن

کچھ نقادوں نے غالب کی افتادِ طبع کے پیش نظر اس ’’پیش دستی‘‘ کا جو مطلب بتایا ہے، وہ ہمارے ہاں عموماً ہجوم میں کی جاتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے