سیاستدانو! آئو‘ صحرا کو چلیں!

بہاولپور کے صحرا کو ” میرا زمین ‘‘کا صحرا کہنا چاہیے‘ یعنی ساٹھ ستر فی صد ریت اور باقی مٹی ہے‘ لہٰذا ایسی زمین جہاں جہاں نہری پانی دستیاب ہو تاہے ‘ وہاں وہاں گندم کی فصل خوب بہار دے رہی تھی۔ میں ان فصلوں کے بعد اب صحرا میں سفر کر رہا تھا۔ کوئی ایک گھنٹے کے بعد حاجی عبدالخالق گل صاحب کے فارم میں تھا۔ یہ بستیوں اور آبادیوں سے دور ایک ایسا مقام ہے ‘جہاں مجھے سکون اور راحت کی ایک رات ایسی میسرا ٓئی کہ اس کی یادیں میرے دامن کو تھامے ہوئے ہیں اوربقیہ زندگی وہیں گزارنے کا کہہ رہی ہیں۔ ساٹھ سال کے کنارے پر آن لگا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ ساحلی ریت پر اور کتنے قدم میرے باقی ہیں۔ احمد پور شرقیہ کے نواحی قصبے شاہی والا بنگلہ میں ڈاکٹر عبدالرحمان شاہ علاقے کی ہر دلعزیز شخصیت ہیں۔

وہ اپنے ہسپتال میں جہاں علاقہ بھر کے لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں‘ وہیں وہ ایک مہمان نواز شخصیت اور سیاسی اثرورسوخ کے مالک بھی ہیں۔ میں جب بھی ان کے ہاں یہاں خطبہ جمعہ دینے آیا‘ ان کے دسترخوان پر چولستانی شکار کی لذتوں سے بھی آشنا ہوا۔ اس بار بھی 8 مارچ کا خطبہ جمعہ ان کے ہاں دیا اور پھر حاجی عبدالخالق گل صاحب کے فارم پر جا پہنچا۔ اس بار عزم یہ تھا کہ صحرا کی گہرائی اور پہنائی میں اپنے مہربان خالق و مالک کے دامن رحمت کو دل کے نادیدہ ہاتھوں کے ساتھ تھامنے کی کوشش کرتے ہوئے اشک بہاؤں گا۔

میں عشا سے ذرا پہلے یہاں پہنچا تھا۔ راستہ بھر میں دیکھتا آیاکہ سارا دن اونٹ اور اونٹنیاں اپنے بچوں کے ساتھ صحرائی جھاڑیاں کھاتی رہیں اور اب وہ صحرامیں ہی آرام کرنے کو بیٹھ گئی تھیں۔ رات کو اب ہرنوں کے چرنے اور چوکڑیاں بھرنے کی باری تھی۔ مجھے حاجی عبدالخالق گل صاحب کے ساتھیوں نے بتلایا کہ حاجی صاحب نے یہاں ہرن پال رکھے ہیں۔ آپ کے آنے سے ذرا پہلے وہ صحرامیں چلے گئے ہیں۔ ساری رات صحرا میں مزے کریں گے اور صبح جونہی سورج کی کرنیں ظاہر ہوں گی وہ فارم پہ آجائیں گے اور پھر سارا دن فارم پر رہیں گے‘ یہ ان کا معمول ہے۔ اب مجھے ان کے آنے کا شدت سے انتظار ہونے لگا ۔ صبح کو میں انہیں خوش آمدید کہوں گا۔

صحن میں دیہاتی سلیقے کے ساتھ چارپائیاں بچھا دی گئی تھیں۔ پائنتی میں سوتی کھیس تو سرائنتی (سرہانے کی طرف) میں تکیے لگے تھے۔ سفر کی تھکاوٹ خوب تھی۔ میں جونہی دراز ہو کر لیٹا‘ آسمان پر ستاروں کی جگمگاہٹ کو دیکھا تو قرآن میں سورۃ صافات کی ابتدائی آیت کا ورد زبان پہ آیا‘ مولا کریم فرماتے ہیں۔ ترجمہ:”ہم نے دنیاوی آسمان کو ستاروں کی زینت کے ساتھ حسین و جمیل بنا دیا۔‘‘

اللہ اللہ! میں تو اس حسین منظر میں جیسے غائب ہو گیا۔ دنیا کو چھوڑ کر بس اسی میں کھو گیا۔ زبان پہ سبحان اللہ کا ورد تھا۔ اتنے میں عشا کی اذان کا ٹائم ہو چکا تھا۔ حاجی صاحب نے یہاں چھوٹی سی خوبصورت مسجد بنا رکھی ہے۔

پوری مسجد سنگ مر مر کی سفیدی میں ستاروں کی روشنی کو اپنے اندر جذب کر کے یوں لگ رہی تھی جیسے وہ بھی میرے ساتھ سبحان اللہ کا ورد کر رہی ہو۔ ہاں ہاں! وہ تو ورد کر رہی تھی۔ قرآن نے آگاہ کر دیا ہے کہ ہر شے سبحان اللہ کہہ رہی ہے۔ اب اس سوچ اور دید کے ساتھ میں نے کہاکہ آج کی اذان میں کہوں گا۔ جب طالب علم تھا اور جوان تھا تو اذان کہتا تھا۔ منبر پر بیٹھنا شروع ہوا تو اذان کا موقع نہ ملا۔ اب برسوں بعد بڑھاپے میں اذان کا موقع مل رہا تھا۔ میں نے اذان کہی۔ اللہ اکبر‘ لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کہنے پر چہرہ بے ساختہ آسمان کے حسن کو دیکھتا اور ہر کلمہ جو اللہ کے نام پر ختم ہوتا تھا‘ ختم کرنے کو جی نہ چاہتا تھا‘ مگر سانس ٹوٹ جاتا تھا۔ اللہ کی عظمتوں کا تقاضا کچھ اور تھا‘ مگر مٹی کا بنا ہوا جسم ہی اس قابل نہ تھا کہ ساتھ دے سکتا‘ اسے تو بہر حال ٹوٹنا ہی ہے۔

الغرض! وہاں دی ہوئی اذان کا سرور ایسا تھا کہ اب بھی تصور کر کے دل ہی دل میں خوش ہو جاتا ہوں۔ میرے حضور حضرت محمد کریم ﷺ نے فرمایا ہے:
”اور دل کی خوشی اک بڑی نعمت ہے۔‘‘ (صحیحہ: 174)

صحت کی بات کروں تو گزشتہ کئی برسوں سے موسم بہار اور برسات میں میری آنکھیں الرجی کی وجہ سے خراب ہو جاتی ہیں ‘ مگر میں بھی باز نہیں آتا۔ ڈراپ ڈالتا رہتا ہوں‘ پڑھتا اور لکھتا رہتا ہوں۔ آج میں خراب آنکھوں کے ساتھ سویا ہوں اور پچھلی رات بالکل صحیح آنکھوں کے ساتھ بیدار ہوا ہوں۔ پہاڑوں پر جاؤں یا صحرا میں‘ آنکھیں ٹھیک ہو جاتی ہیں۔ سوچتا ہوں کہ یہیں کہیں بس جاؤں۔ گناہوں کی بہتات کو استغفار کے ساتھ کمیاب کر لوں اور مسکینوں کے کسی ایسے قبرستان میں ایک قبر کی جگہ مل جائے‘ جہاں پختہ قبر نہ ہو‘ یعنی میرا آخری نشان بھی بس مسکینی کا اک اسلامی شعار اور سمبل ہو۔ باقی فیصلے تو مولا کریم کے ہیں‘ خواہشوں سے کیا ہوتا ہے۔ ہاں! ہوتا تو کچھ نہیں‘ مگر اللہ کے ہاںسچی خواہش اور اچھی نیت کا پھل ضرور ملتا ہے۔ یہ حقیقت میرے جان سے پیارے حضورﷺ فرما گئے ہیں۔

مجھے تو اپنے حضورﷺ ہی یادآرہے تھے کہ مدینہ منورہ میں آپ ﷺ اپنے گھرمبارک سے نکلے ‘ رات کا کوئی ٹائم تھا۔ ستاروں بھری رات تھی۔ راستے میں حضرت ابوذرؓ مل گئے تھے۔ آپ ﷺ ایک کوہستانی مگر قدرے ریتلے علاقے میں تشریف لے گئے ‘ وہاں آپ ﷺ نے آسمان کی طرف دیکھا اور قرآن کی وہ آیات تلاوت فرمائیں جن میں آسمان و زمین کی پیدائش پر غورو فکر کی دعوت دی گئی ہے۔ الغرض! میں نے آسمان کی جانب دیکھ کر اسی سنت پر عمل کیا۔ آسمان اپنی زینت کے جوبن پر تھا۔ یہ جوبن شہروں کی مصنوعی روشنیوں‘ دھویںاور گرد کی آلودگیوں میں نظر نہیں آسکتا۔ جی ہاں! آج کی رات میں لاہور شہر کی آلودگیوں سے دور تھا۔ سونے پہ سہاگہ کہ آنکھوں میں بھی اجلے پن کا اجالا تھا۔ اے مولا کریم! ہمارے دلوں میں بھی نور اور روشنی پیدا فرما دے۔ یہ روشنی تو قرآن اور حضور ﷺ کی سیرت پر عمل سے پیدا ہوتی ہے۔

شاہ فیصل بن عبدالعزیز ؒ سعودی عرب کے بادشاہ تھے۔ دنیا کی امیر ترین اور مقدس ترین سرزمین کے شاہ تھے ‘مگر وہ صحرا میں چلے جاتے تھے۔ چند راتیں وہاں ٹھہرتے‘ پچھلی رات اٹھتے‘ مصلّے پر بیٹھ جاتے۔ آسمان کی جانب دیکھتے‘ اپنے اللہ کی محبت میں کھو جاتے اور آنسو بہاتے۔ انتہائی عاجز اور منکسرالمزاج بادشاہ تھے۔ میں کہتا ہوں ہمارے حکمرانوں کو بھی ایسی جگہوں پر جانا چاہیے۔ محترم وزیراعظم پاکستان عمران خان سے گزارش کروں گا کہ صحرا میں تین راتیں گزاریں۔ جیلوں میں پھینکے ہوئے اربوں پتی سابق حکمرانوں کو بھی اپنے ساتھ لے جائیں۔ صحرا میں خیمے لگا دیں۔ سب تہجد کے وقت بیدار ہوں۔

مجھے حکم دیں تو میں حاجی عبدالخالق صاحب سے گزارش کر کے بندوبست کروا دیتا ہوں۔ وہاں سادگی کے ساتھ رہائش ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے پاس جانے کی تیاری کا وعظ ہو گا۔ مجھے اس قابل سمجھیں تو وہاں خدمت کے ساتھ ساتھ سب کو اس بات پر تیار کروں گا کہ اپنے مال کا ایک معمولی حصہ پاک ملک کے خزانے میں جمع کروا دیں۔ زندگی کا ٹائم تھوڑا رہ گیا ہے‘ ایک لمحے کا معلوم نہیں۔ جنت میں محلات بنوائیں ۔ جی ہاں! جیلوں‘ میڈیا ٹرائل کی بدنامیوں اور سختیوں کے ساتھ تو خزانے کو کچھ نہ ملا۔ مجھ خاکسار کا نسخہ استعمال کر کے دیکھ لیجئے۔ مجھے امید ہے اس میں کامیابی ہو گی۔ سیاست دانوں کے باہمی تعلقات بھی بہتر ہو جائیں گے۔ اخلاقی معیارات بھی اچھے ہو جائیں۔ (ان شاء اللہ)

موروں کی آوازیں‘ چکوروں کی چَر چَر اور کبوتروں کی غٹر غوں کے درمیان سورج اپنے ظہور کی کوشش کر رہا ہے۔ ستارے غائب ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ کھلے میدان میں آسمان اور زمین کو دیکھتا ہوں تو اک گول سا گنبد نظر آتا ہے۔ میں نے ایسے ہی گول جھونپڑے میں رات گزاری ہے۔ اب سرخی نمایاں ہو گئی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کرنوں نے میرے چہرے کو تھپتھپایا ہے۔ وہ چوکڑیاں بھرتے ہرن آگئے ہیں۔ ہرنوں کے گرد پرندے جمع ہو گئے ہیں۔ میں‘ میری اہلیہ‘ بیٹا اور باقی چند لوگ بھی ان کے ارد گرد کھڑے ہیں۔ یہ سب کھانا کھا رہے ہیں۔
سیاستدان یارو! کیا ہم ایسا نہیں کر سکتے؟ وقت نکالو! اللہ کے فضل سے ہم بھی اپنے ملک کے لیے ایسا کر سکتے ہیں۔ سب اکٹھے ہو کر ایک جگہ کھا پی سکتے ہیں۔ (باقی آئندہ ان شاء اللہ)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے