آوارہ خیالی

آج آوارہ خیالی کا تجربہ کرتے ہیں یعنی بے ربط انداز میں اس طرح لکھنا جیسے ریلیکسڈ طریقہ سے سوچنا جس کے دوران خیالات مختلف ہی نہیں متضاد سمتوں میں بہکتے اور بھٹکتے پھرتے ہیں، مثلاً لڑکپن کی کسی لڑائی کے بارے میں سوچتے سوچتے غیر ارادی طور پر کسی جدائی کی یاد، کیرئیر کی ابتداء کا کوئی قصہ جسے یاد کرتے کرتے کسی یادگار سفر کے دوران پیش آنے والا کوئی واقعہ۔سب سے پہلے دھیان ن لیگ کے انتہائی مہذب ترجمان ملک احمد خان کی طرف جاتا ہے جو مجھے بھائیوں کی طرح عزیز ہے۔احمد خان نے دو دن قبل کسی نجی ٹی وی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا’’میاں صاحب کو رولنگ سٹون کی مانند مختلف ہسپتالوں کے درمیان گھمایا گیا۔‘‘

اس تبصرہ پر خیال آیا کہ پاکستان کے عوام تو 70سال سے رولنگ سٹون کی طرح دائیں سے بائیں اور نیچے سے بہت ہی نیچے کی طرف مسلسل لڑھک رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر ان عوام کو بھی احمد خان جیسا کوئی خوش بیان ترجمان مل جاتا جو ان کے دکھ بھی بیان کرتا۔اس بیان سے دھیان نواز شریف کی طرف بھی گیا کہ دو روز قبل میاں صاحب نے اپنی پریشان بیٹی مریم کو حوصلہ رکھنے اور مضبوط رہنے کا مشورہ دیا جو میں نے اخبارات میں پڑھا تو بے ساختہ مجھے ڈاکٹر ریاض مجید یاد آئے جنہوں نے عشروں پہلے اردو قارئین کو یہ لازوال شعر عطا کیا تھا

؎وقت خوش خوش کاٹنے کا مشورہ دیتے ہوئےرو پڑا وہ
آپ مجھ کو حوصلہ دیتے ہوئےپھر بلاول یاد آیا

جو کچھ دن پہلے نواز شریف سے ملاقات کے لئے جیل گیا۔ تب مجھے بینظیر بھٹو مرحومہ ا ور نواز شریف کے درمیان برسوں پر محیط وہ تصادم یاد آیا جس میں آج کے قیدی اور اس وقت کے’’چیتے‘‘ نواز شریف اینڈ کمپنی کی طرف سے رکھ رکھائو، وضعداری، شرافت و نجابت کا رتی برابر مظاہرہ بھی دکھائی نہ دیا۔ یہ وہ دن تھے جب میں مسلسل لکھ رہا تھا کہ آج یہ دونوں (نواز، بینظیر) قبائلی جنگجوئوں کی طرح برسر پیکار ہیں لیکن وہ وقت دور نہیں جب یہ دونوں بری طرح رگیدے جانے کے بعد آپس میں مل بیٹھنے پر مجبور ہوں گے اور ایک ہی ٹرک پر چڑھ کر بحالی جمہوریت کی تحریک چلائیں گے…….پھر دنیا نے انہیں’’میثاق جمہوریت‘‘ سائن کرتے دیکھا حالانکہ جمہوریت پاکستان کے قریب سے بھی کبھی نہیں گزری ۔

اسی ’’تھاٹ پراسیس‘‘ میں مجھے’’جنگ‘‘ کے سٹار کالمسٹ ارشاد احمد حقانی مرحوم یاد آئے جو ان دنوں ان دونوں کو آپس میں مل بیٹھنے، کچھ لو کچھ دو اور ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کے عالمانہ، بزرگانہ، کالمانہ مشورے دے رہے تھے جس پر میں نے بصد احترام اک اختلافی کالم میں لکھا کہ ’’پلیز! ان دونوں کو لڑنے دیں کیونکہ درندوں کی لڑائی میں ہی خرگوشوں اور ہرنوں کی بھلائی ہے عوام بےچارے تو ان صنعتکار و جاگیردار مہم جوئوں کا بگاڑ کچھ نہیں سکتے سو بہتر ہے یہ دونوں آپس میں برسرپیکار اک دوجے کو لہولہان کرتے رہیں۔ارشاد حقانی صاحب مرحوم و مغفور سے میرا دھیان ان کے جنازے کی طرف جا نکلا جو میری زندگی کا اک انوکھا تجربہ تھا جس نے مجھے اس معاشرہ سے صحیح معنوں میں متعارف کرایا کہ اسی روز شہر کے ایک نامی گرامی ’’ڈان‘‘ کا جنازہ بھی تھا۔ حقانی صاحب کا جنازہ محدود جبکہ ان صاحب کا لامحدود تھا۔معاشرہ سے خیال آیا کہ یہ تو دراصل معاشی رشتوں کی کوکھ سے جنم لیتا ہے جس کے نتیجہ میں ’’نیوسنس ویلیو‘‘ ہی معاشرہ کی واحد’’ویلیو‘‘ رہ جاتی ہے۔ عالی دماغ، عالی ظرف یا عالی نسب نہیں،VIPصرف وہ ہوتا ہے جو دوسروں کوHELPیاHARMکرسکے،’’معزز‘‘ وہ ہیں جو اوروں کو مدد فراہم کرسکیں یا ضرر پہنچانے کے قابل ہوں۔

معاشرہ پر سوچتے سوچتے سلپ ہو کر میں ملکی معیشت کی طرف جانکلا جس کی حالت لیلیٰ کی انگلیوں اور مجنوں کی پسلیوں سے بھی بدتر ہے اور یہ غیر معمولی طور پر خطرناک صورتحال تب تک نہیں سنبھل سکتی جب تک انتہائی غیر معمولی فیصلے نہیں کئے جاتے جن کے لئے بےتحاشہ حکمت اور حوصلہ درکار ہے۔مندرجہ ذیل آوارہ اقدامات پر غور فرمائیں اور پسند نہ آنے پر مجھے معاف بھی فرمائیں کہ خیالات آوارہ ہوجائیں تو کہیں سے کہیں جانکلتے ہیں۔پہلی بات تو یہ کہ وہ ہزاروں کھرب روپیہ جو سلیس زبان میں’’بلیک منی‘‘ کہلاتا ہے اور کونوں کھدروں میں سہما اور چھپا ہوا ہے، اسے ’’رونمائی‘‘ کی دعوت عام کیوں نہیں دیتے؟میکرو لیول کی اس ایمنسٹی میں کون سی ایسی رکاوٹ ہے جو دور نہیں ہوسکتی؟ ذرا اندازہ لگائیں کہ اگر کھربوں روپے پر مشتمل یہ بلیک منی ہماری مردہ معاشی منڈیوں میں آجائے اور اسے 5سال کے لئے پروٹیکشن مل جائے تو کون سی قیامت آجائے گی؟

مطلب یہ کہ جو شخص آئندہ پانچ سال میں کسی بھی وقت کالا دھن سرمایہ کاری کے لئے پیش کرے گا اسے نہ ’’نیب‘‘ پوچھ سکے گا نہFBRتو سوچیں صورتحال کیا ہوگی؟مقامی و غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لئے جینوئن قسم کی ’’ون ونڈو‘‘ کیوں نہیں؟پراپرٹی پر لگی قدغنیں ریلیکس کرکے اس کی ایکٹویٹی کو بحال کرنے میں کون سی شے مانع ہے؟جٹکے فیصلوں کے بغیر معاشی جھٹکے بند ہوتے کم از کم مجھے تو دور دور تک دکھائی نہیں دیتے، سوائے وزیر خزانہ کے اس ڈھٹائی بھرے بیان کے کہ ’’مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا اور عوام مزید چیخیں گے۔‘‘روم جل رہا تھا…….نیرو بانسری بجارہا تھامعیشت جل رہی ہے…….ہمارا نابغہ ڈفلی بجارہا ہےروم کا نیرو خیالی تصویروں میں موٹا بہت ہےہمارا اقتصادی نیرو لمبا بہت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے