مہاراجہ کشمیر کا جھنڈا مظفرآباداور راولاکوٹ میں

16مارچ 2019 کو آزادکشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد اور راولاکوٹ میں کچھ جوان ایک ایسا جھنڈا لہراتے ہوئے سڑکوں پر نکلے جو 1947 کے بعد پہلی مرتبہ دیکھا گیا ، سرخ پٹی کے اردگرد دو زرد پٹیوں پر مشتمل یہ جھنڈا ریاست جموں کشمیر کے آخری مطلق العنان حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کا جھنڈا تھا۔

راولاکوٹ میں 16 مارچ کی ریلی کے مناظر

1947میں برطانوی ہند تقسیم ہوتا ہے، پاکستان اور ہندوستان وجود میں آتے ہیں ،ریاست جموں کشمیر بھی اُس تقسیم کے اثرات کی وجہ سے ٹکڑوں میں بٹ جاتی ہے ،ایک حصے پر ہندوستان قابض ہوتا ہے جسے ہم بھارتی مقبوضہ کشمیر کہتے ہیں ،دوحصے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان پاکستان کے زیرانتظام ہیں اور کچھ علاقہ چین کے پاس ہے ،یوں وہ ریاست جس کا وجود 16مارچ 1846 کو معاہدہ امرتسر کے ذریعے گلاب سنگھ نے رکھا تھا ، آج جغرافیائی ،مذہبی ،مسلکی اور نظریاتی بنیادوں پر تقسیم ہے۔ 16مارچ 2019 کو مظفرآباد اور راولاکوٹ میں ایک سرخ اور دو زور پٹیوں پر مشتمل جھنڈے کے ساتھ173سال قبل کی ریاست کی جغرافیائی یوم تاسیس ،الفاظ دیگر یوم بنیاد کو منایا گیا ۔

مہاراجہ کے دور میں ریاست جموں وکشمیر کا جھنڈا

نظریاتی سوچ ہر ایک کی اپنی اور قابل احترام ۔۔۔۔۔۔لیکن جھنڈا لہرانے والوں سے ایک گزارش کرتا ہوں کہ وہ ایک ایسے جھنڈے کو اُٹھانے سے قبل تاریخ کا مطالعہ کریں، جو جھنڈا بدترین شخصی حکمرانی ،ظلم وبربریت ، انسانی حقوق کی پامالیوں ، ریاست جموں کشمیر کی مسلم اکثریت اور کمزور طبقات سے نفرت اور 95 فیصد آبادی کو غلام رکھنے کی علامت تھا ، کیا اسے اٹھانا اور لہرانا مناسب ہے؟

ریکارڈ گواہ ہے ریاست جموں کشمیر کے مسلمانوں اور کمزور طبقات نے اس جھنڈے کے خاتمے کے لیے بھرپور جدوجہد کی ، 13جولائی1931 کے 22 شہداء اسی جھنڈے کے خلاف اپنی جانیں قربان کرتے ہیں ،مسلم کانفرنس اور بعدازاں نیشنل کانفرنس کے پلیٹ فارم سے اہل کشمیر کی اکثریت نے اسی جھنڈے کی بالادستی کے خلاف جدوجہد بھی کی ، یہ الگ بات ہے بعد ازاں یہ دونوں سیاسی جماعتیں اپنے ایجنڈے سے ہٹ گئیں مگر اس کے باوجود 1947میں جب ریاست جموں و کشمیر تقسیم ہوئی تو منقسم ریاست جموں کشمیر کے تمام حصوں میں اس جھنڈے کو جگہ نہ مل سکی

مظفرآباد میں ریاست جموں وکشمیر کے یوم تاسیس پر نکالی گئی ریلی کا منظر

بھارتی مقبوضہ کشمیر کا جھنڈا سرخ اور ہل کے نشان والا ہے جو پہلے مسلم کانفرنس اور بعدازاں نیشنل کانفرنس اور پھر تقسیم ریاست جموں کشمیر کے بعد بھارت کے زیرقبضہ کشمیر کا جھنڈا بن گیا، آزادکشمیر کا جھنڈا کم وبیش 80فیصد سبز اور20فیصد پیلے رنگ پر مشتمل ہے جس کے سبز حصے میں چاندتارہ اور سفید رنگ کی چار پٹیاں ہیں ۔گزشتہ ایک عرصہ سے یہ جھنڈا ریاست جموں کشمیر کے پاکستان کے زیرانتظام حصے آزادکشمیر کی نمائندگی کررہا ہے ،منقسم ریاست جموں کشمیر جو پہلے سے نظریاتی جغرافیائی اور مسلکی طور پر تقسیم شدہ ہے اُس میں ایک ایسا جھنڈا جو ظلم اور بربریت کے دور کی علامت ہو ،جسے ریاست کے ہندو دانشوروں پر یم ناتھ بزاز ،کرشن دیو سیٹھی اور وید بھسین نے غلامی کی علامت قراردیا ہو اُسے اس ریاست میں پھر سے لہرانا درست عمل نہیں.

ریلی کے شرکا نے علیحدگی پسند سیاسی جماعت یو کے پی این پی اور مہاراجہ ہری عہد کے جھنڈے اٹھا رکھے ہیں

میرے وہ دوست جو دانستہ اور نادانستہ اس کھیل کا حصہ بن رہے ہیں اُن سے انتہائی ادب سے گزار ش ہے کہ قوم پرستی کے نام پر ریاست جموں کشمیر کے لوگوں کو ماضی کے ایک اور جھگڑے میں نہ ڈالیں ۔16مارچ ریاست جموں کشمیر کا یوم تاسیس ضرور ہے ،معاہدہ امرتسر کے ذریعے 16مارچ 1846 کو اس ریاست کی بنیاد بھی رکھی گئی ،لیکن شخصی حکمرانی کی اطاعت کی سوچ کے تحت اس جھنڈے کو بطور علامت مارکیٹ میں لا کر جمہوریت انسانی قدروں اور انسانی آزادیوں کی بات کرنے والے یہ جھنڈا لہر کر اپنے دعوے کے برعکس عمل کررہے ہیں۔آزادی کے دعوے کی جدوجہد کے اس طرز کی بھاری قیمت اس خطے کے لوگ اداکریں گے ہم بھی چاہتے ہیں کہ 1947کی ریاست بحال ہو مگر کسی مطلق العنا ن جبر کے دور کے حکمران کی یاد گار کو اپنا مستقبل نہیں بنا سکتے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے