حیرانی تو بنتی ہے!

پورا پاکستان حیران ہے اور حیرانی کی وجہ نیوزی لینڈ کی خاتون وزیراعظم ہیں جن کی مسجد پر ہونے والے حملوں کے بعد کی تصویروں نے جہاں پوری دنیا کو متاثر کیا ہے وہیں انہوں نے پاکستانیوں کو اس سے زیادہ حیران کیا ہے۔ اس ٹریجڈی کے درد کو کم کرنے میں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کی تصویروں نے اہم رول ادا کیا ہے۔ لوگوں کی توجہ ٹریجڈی سے ہٹ کر وزیراعظم پر فوکس ہوگئی ہے۔ اس خاتون وزیراعظم نے خود کو عوام اور میڈیا کے سامنے جس طرح پیش کیا ہے اس سے ڈھارس بندھی ہے کہ شاید دنیا میں ابھی اچھے حکمران پائے جاتے ہیں جو انسان کے بہتے ہوئے خون پر دل سے ہمدردی دکھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔

پاکستانیوں کی اس حیرانی کے پیچھے بہت سی وجوہات ہیں ۔ ان برسوں میں اس ملک میں قیامت گزر گئی۔ پندرہ برس تک پاکستان میں روزانہ اتنے لوگ بم دھماکوں میںمارے جاتے رہے جتنے نیوزی لینڈ حملے میں جان بحق ہوئے ہیں ۔

باقی ملک کا چھوڑیں جب اسلام آباد میں بم دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا تو شروع میں سب پریشان ہوئے۔ مجھے خود دوسرے شہروں میں رہنے والے دوستوں اور رشتہ داروں کے فون آنا شروع ہوجاتے ۔ دھیرے دھیرے یہ فون کالز کم ہوگئیں جبکہ دہشت گردی عروج پر پہنچتی گئی۔ ایک دن وہ بھی آیا جب اسلام آباد میں ایک بڑی ٹریجڈی ہوئی لیکن مجھے اس دن کوئی فون کال نہ آئی۔

اس دن مجھے احساس ہوا کہ جب واقعات مسلسل ہورہے ہوں تو ہم احساس کھو دیتے ہیں ۔ انسانوں کا مرنا خبر نہیں رہتی۔ جس ملک میں ستر ہزار افراد مارے گئے ہوں اور اس ملک کا ایک بڑا طبقہ پارلیمنٹ میں‘ ٹی وی شو یا اخبارات کے کالموں میں انہی انسانوں کے قاتلوں کا دفاع اور قتل عام کے جواز پیش کررہے ہوں وہاں انسانی خون کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟ جب تک پشاور میں ایک سو چالیس معصوم بچے نہیں مارے گئے اس ملک کا ایک بڑا حصہ اپنے ہی قاتلوں کو معصوم اور گمراہ کہہ کر ان کے لیے دلوں میں راستے پیدا کرنے کی کوششوں میں لگا رہا ۔ ایک مرحلہ تو وہ بھی آیا جب ہمارے فوجیوں کے جنازے تک پڑھانے سے انکاری لوگوں کو پھولوں کے ہار پہنا کر پارلیمنٹ لایا گیا ۔ یوں اس معاشرے میں بے حسی نے دھیرے دھیرے قبضہ کر لیا ۔ یہاں مرنا ایک عام سی بات ٹھہری۔

اسلام نے خودکشی کو حرام اور ایک بے گناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے ‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسانی زندگی کا کتنا احترام ہمارے مذہب نے دیا ہے ۔ چلیں دہشت گردی کے کچھ اعدادوشمار ہمارے پاس تھے لیکن جو لوگ روزانہ سڑکوں پر حادثات میں مارے جاتے ہیں ان کا کوئی حساب نہیں ہے۔ جتنے لوگ سڑکوں پر مارے گئے ہیں وہ دہشت گردی سے کہیں زیادہ ہیں۔ دہشت گرد کسی دن حملہ کرتے ہیں لیکن سڑک پر روزانہ دہشت گردی ہورہی ہے۔حیرت کی بات ہے کہ عام آدمی جو ان سڑکوں پر مرتا ہے اسے بھی کوئی پروا نہیں۔

کبھی نہیں سنا ہوگا کہ لوگوں نے اچھی سڑکوں‘ پولیس پٹرولنگ یا پھر اپنے علاقوں میں ٹراما سینٹرز یا حادثوں کے دوران بہتر سروسز کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہو ۔ یہی وجہ تھی کہ چند ماہ پہلے جب میں نے وزیراعظم عمران خان کی توجہ مظفرگڑھ میانوالی روڈ کی طرف دلوائی کہ وہاں روزانہ لوگ مررہے ہیں ‘اس طویل سڑک کی حالت بہت خراب ہے‘ ان سرائیکی علاقوں کے لوگوں کا پرسان حال کوئی نہیں ہے۔مگر جہاں عمران خان کے جواب نے مجھے حیران کر دیا وہیں ان کے حامیوں نے بھی میرا مذاق بنا لیا ۔ اس کے بعد حکم ہوا کہ رئوف کلاسرا کو دوبارہ اینکرز کے ساتھ وزیراعظم سے ملاقات کے لیے نہ بلایا جائے۔ ہم تو ویسے ہی حکمرانوں سے دور رہنے کے بہانے ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ خیر چھ ماہ بعد خود ہی بین اٹھا کر پھر بلایا گیا ۔ میں ایک سوال کرنے لگا تو ہمارے دوست کاشف عباسی نے مذاقاً کہا: لگتا ہے کلاسرا صاحب پھر ایم ایم روڈ کی بات کرنے لگے ہیں۔ اس پر قہقہہ پڑا ۔

حکمرانوں کو ایسی عوام سوئٹ کرتی ہے جو مر جائے گی لیکن اپنا جائز حق نہیں مانگے گی۔ یہ وہ غلامانہ سوچ ہے جو اس خطے کی صدیوں پر پھیلی غلامی کا نتیجہ ہے۔میرا خیال تھا کہ ہم سرائیکی نرم مزاج لوگ ہوتے ہیں لہٰذا ہمیں اپنا حق مانگتے ہوئے شرم آتی ہے۔ ہم لٹ جاتے ہیں لیکن اپنے لیے کھڑے نہیں ہوتے۔ اس لیے ایم ایم روڈ پر روزانہ مررہے ہیں لیکن سڑک بنوانے کے لیے کبھی کوئی مظاہرہ نہیں ہوا۔ میرا خیال تھا کہ سینٹرل پنجاب کے لوگ اس معاملے میں ہم سرائیکیوں سے آگے ہیں کہ وہ ڈٹ کر اپنے کام کرواتے ہیں اور حکمرانوں کو دبا کر رکھتے ہیں ‘ لیکن ابھی چند دن پہلے گوجرانولہ تک جی ٹی روڈ پر سفر کیا تو اندازہ ہوا کہ ایم ایم روڈ ابھی بہتر ہے۔ جی ٹی روڈ کو ایک ایڈوانٹج ہے کہ یہ ون وے ہے ورنہ اس سے گندہ اور برا روڈ شاید ہی پاکستان میں ہو ۔ روزانہ لوگ ٹال ٹیکس دے کر ذلیل ہوتے ہیں لیکن مجال ہے کبھی کہا ہو کہ جی ٹی روڈ کو دوبارہ تعمیر کرو۔

حکمرانوں نے عوام کو ان کے حقوق بھی اس طرح دینے کی کوشش کی ہے جیسے وہ ان پر بہت بڑا احسان کررہے ہوں۔ عوام کو یہ جتلایا جاتا ہے کہ وہ سب کچھ اپنی جیب سے کررہے ہیں۔ پیسہ عوام دیتے ہیں اور تختیاں ان کی لگ جاتی ہیں جو یہ کام کرنے کی باقاعدہ تنخواہ اورمراعات لیتے ہیں ۔ جب عوام اپنے ہی حکمرانوں کو اپنا خادم سمجھنے کی بجائے الٹا اپنا مالک اور آقا سمجھ لیتے ہے تو پھر وہاں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسے حکمران پیدا نہیں ہوتے۔ جس ملک میں غلطیاں لیڈرز اور وزیراعظم کریں لیکن الٹا ان کا دفاع عوام کریں تو وہاں نیوزی لینڈ جیسے وزیراعظم پیدا نہیں ہوتے۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم بار بار معافی مانگ رہی ہیں کہ وہ اپنے شہریوں کا تحفظ کرنے میں ناکام رہیں۔ کیا کبھی نواز شریف یا شہباز شریف کے منہ سے سنا کہ وہ ماڈل ٹائون میں چودہ لوگوں کی جانیں پولیس بربریت کے ہاتھوں بچانے میں ناکام رہے ہیں اور معافی مانگتے ہیں ؟ یا پھر آپ نے عمران خان صاحب کے منہ سے سنا کہ ساہیوال میں معصوم بچوں کے والدین کے قتلِ عام کا ذمہ دار وہ خود کو سمجھتے ہیں‘ جیسے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کہہ رہی ہیں؟

عمران خان نے ساہیوال میں ہونے والے قتلِ عام پر کوئی معافی مانگی؟ نہ نواز شریف کو خدا نے توفیق دی کہ وہ ان بچوں کے گھر جا کر سر پر ہاتھ رکھتے جنہیں ماڈل ٹاون میں پولیس نے گولیاں مار دی تھیں اور نہ ہی عمران خان کا دل ان تین بچوں کو دیکھ کر پسیجا جنہیں پولیس یونیفارم پہنے قاتل پٹرول پمپ پر چھوڑ گئے تھے۔ نہ نواز شریف کو ترس آیا نہ ہی عمران خان کو۔ عمران خان اور نواز شریف ان مظلوم بچوں کے گھر گئے اور نہ بچوں کو گلے لگایا جیسے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کررہی تھیں ۔

اگر نواز شریف اور عمران خان کا رویہ اس طرح کا نہیں جیسے نیوزی لینڈ کی خاتون وزیراعظم کا رہا ہے تو اس میں قصور ہم پاکستانیوں ہی کا ہے۔ ہم نے ہی حکمرانوں کو یہ سہولت دے رکھی ہے کہ وہ ہمارے آقا بن کر ہم پر حکمرانی کریں۔ اگر انہیں چھینک بھی آئے گی تو پورا ملک پریشان ہوجائے گا کہ بادشاہ کا علاج کہاں سے ہوگا لیکن اگر عوام مارے جائیں تو نواز شریف سے عمران خان تک کوئی بھی ان کے گھر تک نہیں جائے گا۔ اس وقت وہ پولیس کی دہشت گردی کا ساتھ دیں گے۔

آج جب نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے مشکل کی گھڑی میں دنیا بھر میں عزت کمائی ہے‘ہمارے دلوں کو فتح کیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اس لمحے سے فائدہ اٹھایا ہے جو آپ کو ہیرو یا زیرو کرتا ہے۔ہماری حیرانی اس لیے بنتی ہے کہ پاکستانیوں پر ان برسوں میں کئی قیامتیں گزر گئیں لیکن کبھی ہمارے حکمرانوں نے عوام کو گلے لگا کر اس درد اور تکلیف کا مظاہرہ نہ کیا اور نہ ہی ان کی آنکھیں اس طرح نم ہوئیں جیسے ہمیں کرائسٹ چرچ میں دیکھنے کو ملی ہیں ۔ہم سب اس ٹریجڈی کو بھول کر الٹا حیران ہیں کہ وزیراعظم ایسے بھی ہوتے ہیں جو مظلوموں کو گلے لگاتے ہیں اور اپنی آنکھوں میں آنسو لا کر معافیاں مانگتے ہیں ۔ حیرانی تو بنتی ہے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے