کیا16مارچ”ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبت“ کایوم تاسیس ہے؟

بقول گوربا چوف کے ” ماضی کی تاریخ کتنی ہی خون آشام ،نفرت انگیز اور بربریت پر مبنی کیوں نہ ہو ،وہ ہماری تاریخ ہے ،ہم اس سے انکار نہیں کر سکتے ہیں“۔بعینہ مہاراجہ گلاب سنگھ اچھا تھا یا برا ، وہ ہماری تاریخ کا ایک اہم کر دار ہے۔ہمیں اچھا لگے یا برا ، آج ہم 84 ہزار 471 مربع میل پر پھیلی ہوئی جس ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبت کے دعوے دار ہیں ،اس کا بانی مہاراجہ گلاب سنگھ ہے، اس سے قبل یہ علاقے کسی ایک انتظام میں نہیں تھے بلکہ یہاں پچاس سے زیادہ چھوٹے چھوٹے رجواڑے تھے جہاں کوئی مرکزی انتظام نہیں تھا، کسی بھی وقت کوئی بھی زور آور آپ کے علاقے پر قبضہ کر سکتا تھا ، بالخصوص 1586 کے بعد یہ علاقے کبھی مغلوں ، کبھی افغانوں اور کبھی سکھوں کی غلامی میں رہے ہیں۔1846 میں یہ علاقے جب سکھوں سے انگریزوں کی غلامی میں چلے گئے تو مہاراجہ گلاب سنگھ نے ان تمام علاقوں کو انگریزوں سے لے کر انھیں ایک مرکزی انتظام کے تحت لاتے ہوئے ایک نئی منظم ریاست کی داغ بیل ڈالی، ہم چاہیں بھی تو اس کا یہ کریڈٹ تاریخ سے نہیں کھرچ سکتے ہیں۔

یہ بات بھی درست ہے کہ مہاراجہ گلاب سنگھ اور اس کے جتنے بھی پیش رو تھے ، ان کی طرز حکمرانی میں وہ تمام خامیاں شامل تھیں جو ایک شخصی حکمران یا مطلق عنان حکومتوں میں ہوتی ہیں، ان کی ان ہی خامیوں ،خرابیوں ، کوتائیوں اور زیادتیوں کے خلاف ریاست کے عوام نے ہر دور میں ان کے خلاف بنیادی سماجی معاشی اور سیاسی حقوق کی جنگ لڑی ہے ، مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف بھی ریاست کے عوام اپنے حقوق کے لیے پر امن جمہوری جدوجہد کر رہے تھے جسے کچھ لوگوں نے قومی آزادی کی جنگ کا نام دے کر کشمیر کی تقسیم کی راہ ہموار کی ، یہ وہ غلطی تھی جس کی سزا 70سال سے ریاستی عوام بھگت رہے ہیں اور نہ جانے کتنی دہائیوں مزید بھگتیں گے۔

مہاراجہ گلاب سنگھ اور ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبت کی تاریخی حیثیت کو سمجھنے کے لیے 16مارچ 1846 کے معائدہ امرتسر کو 9مارچ 1846 کے معائدے کے ساتھ ملا کر پڑھا جانا چاہیے جو خالصہ دربار لاہور اور سرکار انگلشیہ ہند کے درمیان ہوا تھا۔ 9مارچ 1846سے پہلے موجودہ ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبت کے تمام حصے سکھ سلطنت ( خالصہ دربار لاہور ) کا حصہ تھے ، جس کے فرمانروا مہاراجہ رنجیت سنگھ تھے ،رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد ان کے بھائی اور پھر بیٹا دلیپ سنگھ حکمران بنا ،جو کم عمری کے باعث اپنی والدہ رانی جنداں کی مشاورت و معاونت سے حکومت کرتا تھا۔یہ وہ عہد تھا جب انگریز وں نے پورے برصغیر پر قبضہ کرتے ہوئے اسے سرکار انگلشیہ ہند کا نام دیا جو براہ راست تاج برطانیہ کے کنٹرول میں تھا۔

مہارانی جند کور/رانی جنداں

برطانیہ نے اس خطہ میں اپنی آخری بڑی لڑائی میں سکھ سلطنت( خالصہ دربار لاہور ) کو بھی زیر کر تے ہوئے اس کے تمام علاقوں پر قبضہ کر لیا۔رانی جنداں نے صلح کے معاہدے کے لیے برطانوی حکومت کے ساتھ بات چیت کی ذمہ داری مہاراجہ گلاب سنگھ کو سونپتے ہوئے اسے یہ اختیار دیا کہ وہ ملک کے مفاد میں انگریزوں کے ساتھ صلح کے لیے جو بھی شراط طے کریں گے انہیں منظور ہو گا۔ مہاراجہ گلاب سنگھ نے ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ گورنر جنرل سرکار انگلشیہ (ہند) کے ساتھ ملاقات کی اور صلح نامے کی شراط پر بات چیت کی۔گورنر جنرل سرکار انگلشیہ (ہند) نے صلح نامے کے لئے دو کروڑ روپے (سکہ نانک شاہی ) اور ملک دو آبہ تاوان جنگ میں طلب کیا۔مہاراجہ گلاب سنگھ نے ان شراط کو صلح کے لیے کڑی شراط قرار دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ان شراط پر عم لدرآمد ہمارے لیے ممکن نہیں ہوگا تاہم انھوں نے بات چیت کا عمل جاری رکھا اور طویل بات چیت کے بعد گورنر جنرل سرکار انگلشیہ (ہند) کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ تاوان جنگ میں ڈیڑھ کروڑ روپے دیے جائیں گئے اور ملک دو آبہ سیمت ملک کا کوئی حصہ انگریزوں کے حوالے نہیں کیا جائے گا نیز ڈیڑھ کروڑ روپے میں سے پچاس لاکھ روپے معاہدے پر ادا کیے جائیں گے ، باقی کا ایک کروڑ روپیہ تین قسطوں میں ادا کیا جائے گا اس وقت تک بطور ضمانت ملک دو آبہ سرکار انگلشیہ (ہند) کے ماتحت ہو گا، رقم کی ادائیگی پر یہ ملک واپس خالصہ دربار لاہور کے حوالے کر دیا جائے گا۔صلح کی شراط طے ہونے کے بعد خالصہ دربار لاہور کے مہاراجہ دلیپ سنگھ نے بھی گورنر جنرل سرکار انگلشیہ (ہند) کے ساتھ ملاقات کی اور شراط پر آمادگی کا اظہار کیا۔

اسی اثنا میں خالصہ دربار لاہور کے دیوان خاص راجہ لعل سنگھ جو مہاراجہ گلاب سنگھ سے مخاصمت رکھتا تھا، رانی جندان کو یہ بات باور کروانے میں کامیاب ہو گیا کہ انگریزوں کے ساتھ صلح کے لیے مہاراجہ گلاب سنگھ نے جو شرائط طے کی ہیں وہ غیر منصفانہ ہیں ، اتنی بڑی رقم بطور تاوان ادا نہیں کی جا سکتی ہے۔ رانی جندان نے مہاراجہ گلاب سنگھ کو مذاکراتی عہدے سے معزول کرتے ہوئے راجہ لعل سنگھ کو انگریزوں کے ساتھ دوبارہ بات چیت کی ذمہ داری سونپی۔ راجہ لعل سنگھ نے انگریزوں کو پیش کش کی کہ وہ ڈیڑھ کروڑ کی بجائے ایک کروڑ روپیہ بطور تاوان جنگ دینے اور پچاس لاکھ روپے کے عوض ملک دو آبہ بیاس و ستلج مع کانگڑہ، ملک کوہستان مع دیار کشمیر ،ہزارہ و چمبہ و جموں اور تمام متصلات سرکار انگلشیہ (ہند) کو دینے کے لیے تیار ہیں، مذاکرات کے بعد فریقین نے 9مارچ 1846کو معائدے پر دستخط کیے جس کے تحت سکھ سلطنت ( خالصہ دربار لاہور ) کی قلمرو میں شامل مذکورہ علاقے بشمول موجودہ ریاست جموں کشمیر، ملک دو آبہ بیاس و ستلج مع کانگڑہ، ملک کوہستان،ہزارہ ، چمبہ اور تمام متصلات سرکار انگلشیہ (ہند) کے قلمرو میں شامل کر دیے گئے۔دوسروں لفظوں میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ 9مارچ 1846 کے معائدے کے تحت موجودہ ریاست جموں کشمیر میں شامل تمام علاقے سکھوں کی غلامی سے انگریزوں کی غلامی میں چلے گئے تھے۔

مہاراجہ گلاب سنگھ جو صلح نامے کی شرائط سے سخت نالاں تھے، انہوں نے سکھوں کی سلطنت کو بچانے کے لیے مزید کسی سعی کی بجائے ان علاقوں کو انگریزوں سے آزاد کروا کر ایک نیا ملک بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے مہاراجہ گلاب سنگھ نے دیوان جولا سہائے کو اپنا نمائندہ خاص مقرر کر کے سرکار انگلشیہ (ہند) کے ساتھ بات چیت شروع کی۔دیوان جولا سہائے نے ابتدائی مذاکرات کے بعد مہاراجہ گلاب سنگھ کو رپورٹ دی کہ سرکار انگلشیہ (ہند) خالصہ دربار لاہور کے ذمے واجب الادا تاوان کی بقیہ رقم ادا کرنے پر ان علاقوں کو آزاد کرنے پر رضا مند ہو سکتی ہے جس پر مہاراجہ گلاب سنگھ نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے دیوان جولا سہائے کو بات چیت کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری سونپی ، طویل بات چیت کے بعد یہ طے پایا کہ ایک کروڑ روپے تاوان/ نذرانہ کے عوض سرکار انگلشیہ (ہند) از ابتدائے دریائے بیاس تا دریائے سندھ ملک کانگڑہ ،دیار کشمیر ،ہزارہ مع جمیع حدود کوہستان کے تمام علاقے مہاراجہ گلاب سنگھ کی قلمرو میں دے دی گی۔

مہاراجہ گلاب سنگھ

مہاراجہ گلاب سنگھ نے روپے کی کمی کے باعث دریائے راوی کے درمیان کا ملک پچیس لاکھ روپے کے عوض چھوڑ دیا اور دریائے راوی مع علاقہ چمبہ ماسوائے لاہور کے مشرقی سرحد جموں مقرر ہوئی، اس معائدے پر 16مارچ 1846 کو امرتسر میں دستخط ہوئے۔ معائدے کے تحت ملک دیار کشمیر مع ہزارہ و جمیع ملک کوہستان کے جانبین، دریائے راوی و سندھ و جانب ہزارہ واقع ہیں ،مع متعلقات اس کوہستان کے جو دریائے سندھ کے مشرق میں اور دریائے راوی کے مغرب میں واقع ہیں ، مع علاقہ چمبہ ماسوائے لاہور کے برائے دوام بااختیار مستقل مہاراجہ گلاب سنگھ کو عطا کر دیے گئے۔ اس معائدے کو موجودہ ریاست جموں کشمیر میں شامل علاقوں یا ریاستوں میں سے پونچھ مع چھبال کے حکمرانوں راجہ جوہر سنگھ اور راجہ موتی سنگھ کے علاوہ کسی نے بھی چیلنج نہیں کیا۔راجہ جوہر سنگھ اور راجہ موتی سنگھ نے سرکار انگلشیہ ہند کی عدالت میں اس معائدے کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ علاقہ پونچھ ، چھبال کی حق حکمرانی ، یہاں کی دولت اور علاقہ جسروٹہ پر مہارجہ گلاب سنگھ کا کوئی حق نہیں ہے ، اس کا اختیار و اقتدار ہمیں واپس لوٹایا جائے۔ عدالت نے ان کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے نمٹا دی اور قرار دیا کہ 9مارچ 1846 سے پہلے یہ تمام علاقے خالصہ دربار لاہور کی قلمرو میں شامل تھے، 9مارچ کو ایک معائدے کے تحت یہ علاقے سرکار انگلشیہ ہند کا حصہ قرار پائے ہیں اور 16مارچ 1846 کو سرکار انگلشیہ ہند اور مہاراجہ گلاب سنگھ کے درمیان طے پانے والے معائدے کے تحت اب یہ علاقے ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبت کا حصہ ہیں۔

عدالت کے اس فیصلے بعد مہاراجہ گلاب سنگھ اور راجہ پونچھ کے درمیان باقاعدہ ایک معائدہ ہوا جس کے تحت سالانہ خراج اور ا نعامات کے عوض ان کی راجگی کو قائم رکھا گیا۔ان معائدوں کے بعد مہاراجہ گلاب سنگھ نے انگریزوں سے حاصل کردہ علاقوں پر ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبت کے نام سے ایک نئے ملک کی داغ بیل ڈالی جو 1947تک قائم رہا اور آج بھی ریاست کے چاروں حصوں میں بسنے والے تمام مکتبہ فکر کے لوگ بلاامتیاز رنگ ،نسل ،مذہب اور سیاسی نظریے ریاست کی وحدت کی بحالی کے نظریے پر مکمل اتحاد و اتفاق رکھتے ہیں۔ 16 مارچ ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبت کا یوم تاسیس ہے ، اس دن کو سرکاری سطح پر منایا جانا چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے