سبیل سے بندوق تک

۱۹۸۶-۸۷ میں میری عمر سات برس تھی – ہمارا محلے میں سنی اکثریت میں تھے اور شاید دو چار شیعہ خاندان بھی آباد تھے یہ الگ بات کہ اس وقت ہمیں یہ تقسیم معلوم ہی نہیں تھی کہ کون شیعہ ہے اور کون سنی اور یہ ہوتا کیا ہے ۔

ہمارے ہاں محرم کے مہینے کا آغاز سے ہی کچھ رسوم کا آغاز ہو جاتا تھا جن میں ختم قرآن کرنا ، دعا کرنا ، اور منتیں مرا دیں مانگنا ۔ ایک دفعہ میں نے اپنے والد سے سوال کیا کہ ہم یہ سب اہتمام کہوں کرتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ اہل بیت جو ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا گھرانہ ہے اس مہینے میں ہم ان کو نہ صرف یاد کرتے ہیں بلکہ ان لوگوں کی خدمت بھی کرتے ہیں ۔ جو ان کی یاد کا اہتمام کرتے ہیں ۔

شاید محلے کےسارے بچوں کی تربیت بھی اس طرح ہی ہوتی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ محرم کے آغاز سے ہی ہم محلے کے سارے بچے ایک سفید چادر لے کر سارے محلے میں ننگے پاوں پھرتے اور ۱۰ محرم کو اہل تشیع کے جلوس کے لئے سبیل لگانے اور میٹھے چاولوں کی دیگ بنانے کے لئے چندہ جمع کرتے ۔

قریب ہر محلے میں اسی طرح کا اہتمام نظر آتا ۔مگر ان ہی سالوں میں ایک دفعہ ہوں ہوا کہ ہمیں یہ کہ کر محرم میں باہر نکلنے سے منع کر دیا گیا کہ ان دنوں میں باہر نکلنا خطرناک ہے ۔ ادھر ادھر سے جو معلوم پڑا وہ یہ تھا ۔ کہ امام بارگاہ جس کو ہم تب امام باڑہ کہتے تھے۔ کے قریب ایک نئی مسجد بنی ہے ۔اور اس مسجد والوں کا کہنا ہے کہ کہ اگر اہل تشیع جلوس نکالیں گے تو بدنظمی پیدا ہو گی۔

مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنے ابو سے یہ سوال کیا کہ ان کے جلوس کے لئے تو ہم سبیلیں لگاتے تھے مگر اب یہ بندوقیں کس نے لگا دیں ۔ مگر ان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا ۔ اور پھر آہستہ آہستہ سبیلوں کا سلسہ ختم ہوتا گیا اور بندوقوں کا سلسلہ شرو ع ہو گیا – ہم بڑے ہو گئے اور ہمیں پتا چل گیا کہ تقسیم کیا ہوتی ہے ۔

مگر آج میں سوچتا ہوں کہ تقسیم کی اس آگہی نے ہمیں کتنا فائدہ دیا ؟ کبھی کبھی کوئی آگہی کتنا کرب دیتی ہے

۔ تقسیم کرنے والوں نے ملانے والوں کا بٹوارہ کر دیا ۔ ہم نے صحابہ کرام رضی اللہ اور اہل بیت اطہار کو تقسیم کر دیا۔ یہ میرا ہے اور وہ تمہارا۔ محبتیں نفرتوں میں بدل گیئں۔

جو ہمیں پڑھایا گیا وہ اس طرح تھا ۔
رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق فرمایا:

اصحابی کالنجوم فبايهم اقتديتم فاهتديتم
’’میرے صحابہ ہدایت کے ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کسی کی پیروی اور اقتداء کرلو گے تم سیدھی راہ پالو گے‘‘۔
(عبد بن حميد، المسند، ج1، ص250، رقم الحديث783)

اہل بیت کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم، صحابہ میں شامل ہیں لیکن ان کے متعلق یوں ارشاد ہوا کہ

ترکت فيکم ما ان اخذتم به لن تضلوا کتاب الله وعترتي اهل بيتی
’’میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑی ہیں اگر تم نے انہیں مضبوطی سے تھام لیا، تو میرے بعد کبھی بھی تم رستہ نہیں بھولو گے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی کتاب اور میری آل‘‘۔
(الجامع الصغير للسيوطی، رقم الحديث: 1942)

اور اہل بیت کے بارے میں قرآن پاک میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ۔

اِنَّمَا يُرِيْدُ اﷲُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِرَکُمْ تَطْهِيْرًا.
’’بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے‘‘۔

لیکن تقسیم نے نہ صرف شخصیا ت کو تقسیم کیا بلکہ آیات کو بھی تقسیم کیا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہما کی عزت و عظمت سے متعلق آیات و احادیث سنیوں کی میراث اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہما سے محبت کےمتعلق ارشادات اہل تشیع کی وراثت قرار دے دیے گئے ۔

اللہ تعالی اور آقائے کائنات نے جو تعلیم دی تھی اس کو ہم نے پس پشت ڈال دیا ۔

اللہ رب العزت نے امت محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرمایا:
اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَی النَّاسِ.
’’ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو ‘‘۔
(البقرة، 2: 143)

ہم نے اختلاف کے نام پر گالم گلوچ اور فساد کا بازار گرم کر دیا ۔ خون کی ندیاں بہا دیں ۔ جو امن سکھانے اور پھیلانے آئے تھے ۔انہوں نے تفرقہ کی بنیا د پر عرب دنیا سمیت برصغیر میں جنگ کا میدان گرم کر رکھا ہے ۔

جبکہ دوسری طرف صحابیت کے تاجدار صدیق اکبر رضی اللہ ، ولایت کے تاجدار مولا علی رضی اللہ سے یہ فرماتے ہیں

رايت ابي بکر رضی الله تعالیٰ عنه وحمل الحسن وهو يقول بابي شبيه بالنبي ليس شبيه بعلی وعلی يضحک
’’میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ گلی میں جارہے ہیں اور سیدنا امام حسن علیہ السلام کو اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے اور کہہ رہے کہ مجھے اپنے باپ کی قسم! حسن، مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شبیہ ہے، علی تمہاری شبیہ نہیں ہے۔ حضرت علی یہ سن کر ہنس دیئے‘‘۔
(صحیح بخاری، ج3، ص1370، الرقم:3540/3349)

میری نظر سے ایسا کوئی واقعہ نہیں گزرا جس میں بتایا گیا ہو کہ ابوبکر نے اپنے بیٹوں کو کندھے پر اٹھا کر گلیوں میں چلے ہوں۔ نواسہ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اٹھا کر چل رہے ہیں، کیوں؟ اس لئے کہ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تھا کہ وہ حسن و حسین کو کندھوں پر بٹھا کر گلی میں چلتے ہیں۔

یہ تھی صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اور اہل بیت کی آپس کی محبت اور احترام۔ ہمیں آج اسی اسوہ کی ضرورت ہے ۔ اختلاف رہتے ہوئے ایک دوسرے کو برداشت پیدا کرنا اور اس برداشت کے سہارے قوم کو ترقی کی طرف لے جانے میں ہی بھلائی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے