یہ سوچ، یہ فکر۔۔۔۔!

یہ مارچ 2018 کی بات ہے کہ 9مارچ کو لاہور "ایوا نِ اقبال "میں "امیرِ شریعت کانفرنس” تھی اور 10 مارچ کو بادشاہی مسجد میں "ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کانفرنس” ۔ مہما نِ خصوصی ا س وقت کی حکومت کے اتحادی مولانافضل الرحما ن صاحب تھے اور باقی علما میں مولانا زاہد الراشدی ،شاہ اویس نورانی،ابولخیرزبیر،علامہ زبیر الہی ظہیر ودیگرمعروف شخصیات شامل تھیں ۔ سب لوگوں نے موضوعات سے متعلق گفتگو کی اور ایمان وایقان کی خوب بات ہوئی۔

ان دنوں میاں نوز شریف صاحب زیرِ عتاب تھے اور ان کامشہور سوال "مجھے کیوں نکالا” زبان زد عام تھا ‘سو اس پربھی مقررین نے اپنی راے دیناضروری سمجھا۔دونوں مجالس میں جو بات بار بار کی گئی اور بیشتر مقررین نے کی وہ یہ تھی کہ اس سوال کاجواب ایک ہی ہے کہ تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے "غداری ” کی اسی سبب سے رسواہورہے ہو ۔ممتاز قادری جیسے شخص کو تم نے پھانسی پرلٹکادیا تو اللہ کا عتاب تم پر نازل ہورہاہے۔

میں نے ان سنجیدہ سمجھے جانے والے علما سے اس طرح کی باتیں سنیں تو مجھے حیرت ہی نھیں افسوس بھی ہوا کہ یہ کیاپیغام دیناچاہ رہے ہیں ۔ مجھے دھچکا لگا کہ یہ وہ علما ہیں جو اپنے اپنے مکتبہ ِ فکر کے سنجیدہ وعلمی نمائند ے سمجھے جاتے ہیں اور گفتگو ایک مسلمان بارے اس طرح کی کررہے ہیں ۔کل اگر اس شخص کو کوئی نقصان پہنچا تو عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی ذمہ داری یہ لوگ قبول کریں گے بھی کہ نھیں ۔میں وہاں کچھ عجیب سی سوچ میں پڑگیا ‘ پھر اگلے ہی دن جامعہ نعیمیہ میں میاں نواز شریف پر جوتا اچھالنے اور احسن اقبال پر سیاہی پھینکنے کی خبر پڑھی تو ان علماکے بیانیہ کے "ثمرات” کاقائل ہوگیا ۔

پچھلے دنوں ایوا ن اقبال میں "ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کانفرنس ” میں جانے کاموقع مِلا تو وہاں جسٹس ریٹائرڈ نذیر صاحب خطاب فرمارہے تھے جب کہ طاہر اشرفی صاحب دیگر علما کے ساتھ اسٹیج پر موجود تھے ۔ جسٹس صاحب فرمارہے تھے "اگر کوئی مسلمان کسی گستاخ کو قتل کرتا ہے تو جائز ہے اور اس کی اجازت خود نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دے رکھی ہے کسی عدالت یاریاست کی اجازت کے ہم محتاج نھیں ۔” بقول جسٹس صاحب کے یہ بات انھوں نے ممتاز قادری کے دفاع میں عدالت میں بھی کہی تھی اور دلائل سے ثابت کیاتھا کہ ممتازقادری کاعمل جائز تھا۔ کہتے ہیں ” یہ بات درست ہے کہ یہ حق صرف ریاست کوہے کہ توہین رسالت کے مجرم کوسزا دے لیکن کوئی مسلمان اپنے طور پر بھی ایک فرض سمجھتے ہوئے ایسے گستاخ کوقتل کردے تو شرعاََ اس کے لیے معافی ہے سزا نہیں ۔

میں سوچنے لگا کہ یہ لوگ کس بات کادرس دے رہے ہیں اور سماج میں کس طرح کی ذہنیت پروان چڑھارہے ہیں ۔دو روز قبل بہاول پور میں ایک طالب علم نے استاذ کو توہینِ مذہب کے "جرم ” میں قتل کردیا۔ایسے واقعات ضروری نھیں کہ ایوا نِ اقبال یا بادشاہی مسجد کے منبر سے جانے والی پکار ہی کاشاخسانہ ہوں لیکن ایک بات ضرور ہے کہ زمینی فاصلوں سے زیادہ قوم میں ذہنی قربت ہے۔

خدشات جب سچ ثابت ہونے لگیں تو عجیب طرح کاخوف دامن گیر ہوجاتا ہے۔یہی حالت اپنی ہے کہ اندیشے ،وسوسے اور خوف گھیرے ہوئے ہے کہ سماج کس طرف جارہاہے۔ جن پتوں پر تقیہ ہو وہی ہوا دینے لگیں تو نشیمنوں کی خیرمانگنی چاہیے ۔ ریاست و سماج میں امن کاامکان تب ہی ہوتاہے جب سماج میں شدت پسندذہن نہ ہوں یاکم ہوں ۔ جذبات کو برانگیختہ کرنے کاکام کم علم کریں تو انسان کو یہ آسرا ہوتا ہے کہ ہوش مندی کی تلقین کرنے والے بھی موجود ہیں مگر یہاں ایسی امید بھی نظر نھیں آتی۔ایسے معاملات میں عموماََ علما کی طرف سے یاتوخاموشی اختیار کی جاتی ہے یا پھر ان غیر قانونی کارروائیوں کی توجیحات پیش کی جاتی ہیں ۔مذمت کرنے کا توسوال ہی پیدا نھیں ہوتا کہ اس سے ایمان پر حرف آتاہے۔

ہمیں سوچنا چاہیے کہ "پیغا مِ پاکستان ” جیسے نمائشی بیانیے سے قوم میں کوئی مثبت تبدیلی آسکتی ہے یا نھیں ۔سنجیدہ فکر رکھنے والے علما کرام کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے اوراپنے بیانیے پر نظر ثانی کی بھی ۔

ممکن ہے کہ ان اجتماعات میں موجودسب مقررین کی راے ایک ہی نہ ہو لیکن یہ معاملہ اتنانازک ہے کہ اس پر کوئی غلط راے دی جارہی ہے تو بیٹھے ہوئے علماحضرات اس کی تصحیح کرنے کے شرعاََ پابند ہیں ۔مذہب کے نام پر ہونے والی قتل وغارت کی مذمت ہی نھیں بل کہ اس کے لیے باقاعدہ فکری محاذ پر کام کرنے کی ضرورت ہے جسے شاید اہل علم دانستہ نظرانداز کیے ہوئے ہیں ۔

نیوزی لینڈ میں ہونے والے واقعہ پر جس طرح وہاں کی وزیرِ اعظم نے قابلِ تقلید رویہ اپنایا اس کی تحسین ہی نھیں تلقین کی بھی ضرورت ہے۔ یہ وہی رویہ ہے جواسلام و پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا ہواہے کہ مظلوم خواہ تمہاری قوم میں سے نہ بھی ہوتو اس کے ساتھ کھڑے جاؤ ۔ظالم خواہ تم میں سے ہوتو اس کے سامنے ڈٹ جاؤ کسی صورت بھی اس کی تائید نہ کرو۔دوٹوک انداز میں ظالم کو معطون اور مظلوم کی دادرسی کریں۔لازم ہے کہ بہاول پور ہو یاساہیوال،معاملہ توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کاہویا نام نہاد ریاستی تحفظ کا۔ ظالم کو اس کے ظلم سے روکیں ، قاتل کی کسی طور حمایت نہ کریں بل کہ مظلوم ومقتول کے ساتھ کامل یک جہتی کا اظہار کریں کہ وہ تو اپنی قوم میں سے بھی ہیں ۔مظلوم غیرمسلم ہوں تب بھی دینی فریضہ ہے کہ ظلم کو ظلم کہا جاے اور قانون کی پاس داری کی جاے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے