مولانا تقی عثمانی پرحملہ

23 مارچ اور 14 اگست کے دودن ایسے دن ہیں‘ جو پاکستان کی تاریخ کے یادگار دن ہیں۔ 23 مارچ 1940 ء کو پاکستان بنانے کا عزم کیا گیا تھا‘ تو 14 اگست 1947 ء کو مذکورہ عزم نے زمینی حقیقت کا لباس زیب تن کیا تھا ۔

اس لباس کو پاکستان کا پرچم کہا جا سکتاہے۔ یہ دو رنگوں پر مشتمل ہے ؛سبز رنگ لا الہ الا اللہ کا اقرار کرنے والوں کا رنگ ہے ‘جبکہ سفید رنگ غیر مسلم برادری کا رنگ ہے۔مطلب یہ ہے کہ پاکستان خوشحال ہو گا۔ہر سو سبز ہ لہرائے گا۔آنکھوں کو ٹھنڈک ملے گی ۔سانس کو آکسیجن ملے گی تو اس خوشحالی میں سفید رنگ کو ایسا امن ملے گاکہ وہاں کوئی دھبہ بھی نہیں پڑے گا ۔یوں دونوں رنگ مل کر پاکستان کو امن اور خوشحالی کا منبع بنائیں گے؛ چنانچہ سبز اور سفید رنگ کا پرچم پاکستان کا لباس ٹھہرا۔یہ لباس جب پاک وطن کو پہنانے کا دن آیا توحضرت قائد اعظمؒ نے ایک فیصلہ کیاکہ پرچم مولانا شبیر احمدعثمانی لہرائیں گے ۔

دوسرے لفظوں میں مولانا شبیر احمد عثمانی کے ہاتھ سے پاکستان کو لباس پہنایا جائے گا ؛چنانچہ ایسا ہی ہوا جب قائد اعظمؒ کی موجودگی میں پاک دیس کے پہلے دارالحکومت کراچی میں مولانا شبیر احمد عثمانی کے ہاتھ سے پاک پرچم فضائوں میں بلند ہوا تو ہواکی لہروں میں لہرا کر پاکستان کی یکجہتی کا اک پیغام دے گیا ۔یہ پیغام شفاف اور واضح تھا کہ پاکستان کی مخالفت کی گرد میں ایسی شخصیت کو مذکورہ اعزاز سے نوازا گیا‘ جنہوںنے پاکستان کی حمایت میں بھر پور آواز بلند کرنے کے ساتھ ناقابل فراموش اور تاریخی کردار بھی ادا کیا۔یہ اعزاز حضرت مولانا سید دائود غزنوی کے لیے بھی تھا۔حضرت پیر مہر علی شاہ کے لیے بھی تھااور جناب محترم آغاخان کے لیے بھی تھا۔آج فضا صاف اور شفاف تھی۔گردکا نام ونشان نہ تھا۔فضائوںمیں پاکستان کا مطلب کیا ۔لا الہ الااللہ کے نعر ے تھے۔پاکستان زندہ باد کے نعرے تھے۔

اس بار 2019 ء کا 23 مارچ آیا تو دشمن نے اک پلان بنایا کہ 22 مارچ کو مولانا شبیر احمد عثمانی کے فرزند ارجمند مفتی تقی عثمانی پر حملہ کیا جائے ۔23 مارچ کی صبح کو جب اخبارات شائع ہوں تو وہ خون ‘لہواور شہادت کے سرخ رنگ سے رنگین ہو کر اپنی شہ سرخیوں کے ساتھ آشکارہوں ۔میں کہتا ہوں ؛حملے کا یہ پلان مولانا تقی عثمانی حفظہ اللہ کے لیے اس لیے تھا کہ علامتی طور پر یہ حملہ 23 مارچ پر تھا ۔پاکستان پر حملہ تھا ۔پاکستان کے نظریے پر حملہ تھا ۔

پاکستان کے تمام مسالک کی یکجہتی پر تھا ۔غیر مسلم برادری کے سفید حصے پر حملہ تھا ۔ریاست نے اپنی ذمہ داری پوری کی تھی کہ محترم مفتی صاحب کے ہمراہ پولیس کا سکواڈ موجود تھا‘ مگر حملہ آوروں نے اپنی طرف سے یقینی شہادت کا پورا پورا انتظام کیا تھا‘ مگر زندگی موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔شہادت ملی ‘مگر ڈرائیور کو ۔پولیس مین کو ملی دیگر افراد کو ملی مولانا تقی عثمانی جو اصل نشانہ تھے‘ وہ محفوظ رہے ۔ایسے محفوظ رہے کہ خراش تک نہ آئی ۔ان کی اہلیہ محترمہ اور بیٹا بھی محفوظ رہے۔میں کہتا ہوں اس واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور عنایت کے ساتھ ساتھ حکمت یہ نظرآتی ہے کہ میرے مولا کریم نے دشمنان پاکستان کو ناکام کر دیا ۔پاکستان کی حفاظت کا اشارہ دے دیا ۔قرآن کے وہ مقام میر ے لیے ورد زبان ہوا‘ جس کا ترجمہ یوں ہے کہ ” وہ جو تم چاہتے ہو وہ نہیں ہوتا ۔ہوتا وہی ہے ‘جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا ہے‘ کیا شک ہے‘ اللہ تعالیٰ خوب جانے والا اور حکمتوں والا ہے‘‘۔ (القرآن)

حضرت ابوبکر صدیقؓ ٰایک قریشی تھے ۔اب ان کی اولاد سے متعلق لو گ اپنے آپ کو صدیقی کہلواتے ہیں ‘اسی طرح خلیفہ دوم حضرت عمرفاروق ؓکی آل اولاد کے لوگ فاروقی ۔حضرت عثمان ؓبن عفان ؓ کی نسل سے متعلق لوگ عثمانی‘ جبکہ حضرت علی ؓ حیدر کرار کی جو اولاد حضرات حسنین ؓ کے علاوہ ہے‘ وہ علوی کہلواتی ہے ۔مولانا شبیر احمد عثمانی مرحوم؛ اگر اس لحاظ سے عثمانی ہیں‘ تب مزید بھی فخر کی بات یہ ہے کہ وہ ایک ممتاز عالم تھے اور اہل علم میں تحریک پاکستان کی جدو جہد کی اک علامت تھے۔ان کے دونوں بیٹے مولانا رفیع عثمانی اور مولانا تقی عثمانی بھی ممتاز علماء میں سے ہیں۔ہزاروں ان کے شاگرد ہیں۔ تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔ مولانا رفیع عثمانی نے تو قرآن کا ترجمہ سلیس زبان میں کر کے کمال کردیا ہے۔ مولانا تقی عثمانی اسلامی قانون کے ممتاز ماہر ہیں۔

انہیں پاکستان کامفتی کہا جاتا ہے ‘یعنی عظیم باپ کے دونوں بیٹے عظیم ہیں۔محترم رفیع عثمانی کے ساتھ میری ملاقات اس وقت جامعہ اشرفیہ لاہو ر میں ہوئی‘ جب حرمت ِرسولﷺ کی تحریک کا اجلاس وہاں ہوا تھا۔تھوڑی دیر کیلئے حضرت تشریف لائے تھے۔ مولانا فضل الرحیم جو میرے ساتھ حرمت ِرسولﷺ کے حوالے سے بے پناہ شفقت فرماتے ہیں۔انہوں نے تعارف کروایا تھا ۔محترم مفتی تقی عثمانی صاحب سے بھی محترم قاضی حسین احمدکی زیرصدارت تقریب کے دوران رسمی سی ملاقات ہوئی تھی‘مگر میرے دل میں قال اللہ وقال الرسول ﷺ کے حوالے سے اور پاکستان کے حوالے سے ان کے لیے بے حد احترام پایا جاتا ہے۔سچی بات ہے جب حملے کا سنا تو دل دھک کر کے رہ گیا جب ان کی خیریت کا پتا چلا تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ۔ان کے جو ساتھی شہید ہوئے اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔لواحقین کو صبر جمیل اور حضرت تقی عثمانی کا سایہ اہل پاکستان خصوصاً علمی حلقے پر تا دیر رکھے۔(آمین)23 مارچ کا دن‘ اسلام آباد میں فوجی پریڈ کا دن ہوتا ہے۔

صدراور وزیر اعظم کے ساتھ تنیوں مسلّح افواج کے چیف بھی موجود ہوتے ہیں۔یوں مذکورہ تقریب پاکستان کی قوت کے اظہار کی تقریب ہوتی ہے۔کئی سال کی دہشت گردی کی وجہ سے یہ تقریب ملتوی ہوتی رہی۔دہشت گردی کے خاتمے کے بعد اس تقریب کا پچھلے سال احیا ہوا تو یہ واضح علامت تھی کہ پاکستان نہ صرف دہشت گردی کو ختم کرنے میں کامیاب ہوا‘ بلکہ اپنی عسکری قوت کی دھاک بھی بٹھا چکا ہے ( الحمد للہ)اس بار مولانا تقی عثمانی کی حفاظت اور مامونیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں دہشت گردی کی ناپاک مہم سے محفوظ رکھا ؛اگر اگلے دن مولانا تقی عثمانی کو مذکورہ تقریب میں بلا کر پاکستان کا پرچم ان کے ہاتھ سے لہرایا جاتا تو دشمنان ِپاکستان کو ایک مضبوط پیغام جاتا ۔

بہر حال !ایسا نہ ہو سکا تو اب میری رائے اور گزارش یہ ہے کہ اگلے سال ‘یعنی 2020 ء کے 23 مارچ کو پاک پرچم مفتی تقی عثمانی اور مولانا رفیع عثمانی کے ہاتھوں سے بلند کر واکے پرانی یادوں کو تازہ کر کے مضبوط پیغام دیا جائے ۔مذکورہ عمل امسال 14 اگست کو ہوجائے تو تاریخ اپنے آپ کو سوفیصددہرائے گی ۔اس موقع پر مجھے حضرت مولنا سمیع الحق شہید بھی شدت سے یاد آرہے ہیں۔ دفاع پاکستان کے چیئرمین کی حیثیت سے انہوں نے دفاع وطن کا حق ادا کیا ۔کسی جلسے میں ؛اگر مجھ سے شرکت نہ ہوپاتی‘ تو شفقت سے فرماتے ہوئے کہتے: امیر حمزہ !تمہاری گرجدارللکاروںسے محروم رہے۔پیچھے نہ رہا کرو۔میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ دہشت گردی کے شکار تمام شہداء کی شہادت کوقبول فرماتے ہوئے فردوس عطا فرمائے ۔میرے پاک دیس اور دیس کے ہر باسی کی حفاظت فرمائے ۔پاکستان زندہ باد ۔محبان پاکستان پائندہ باد۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے