ہندو لڑکیاں دینے کے لیے ہمیں نو ارب روپے کی پیشکش کی گئی . میاں مٹھا

اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان کے صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والی دو بہنوں کی عمر اور اس معاملے میں حقائق کے تعین کے لیے پانچ رکنی کمیشن قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔

ضلع گھوٹکی کی رہائشی رینا اور روینہ کی مذہب کی تبدیلی اور مسلمان لڑکوں سے شادی کا معاملہ گذشتہ ماہ سامنے آیا تھا اور ان کے والد نے خودسوزی کی دھمکی بھی دی تھی۔

تاہم بعدازاں ان لڑکیوں کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست داخل کی گئی جس میں کہا گیا کہ انھوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے۔

منگل کو جب اس معاملے کی سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار کے وکلا کی جانب سے عدالت میں پمز ہسپتال کی میڈیکل رپورٹ بھی پیش کی گئی جس کے مطابق دونوں بہنیں جن کے نام نادیہ اور عافیہ رکھے گئے ہیں بالغ ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اس معاملے میں تحقیقاتی کمیشن بنانے کا حکم دیا۔ اس کمیٹی میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری، جسٹس ریٹائرڈ تقی عثمانی، آئی اے رحمان، خاور ممتاز اور ڈاکٹر مہدی حسن شامل ہوں گے جو معاملے کی آزادانہ انکوائری کریں گے۔

نامہ نگار سحر بلوچ کے مطابق سماعت کے دوران کئی بار چیف جسٹس اطہر من اللہ فریقین کی جانب سے پیش ہونے والے وکلا کا دھیان سندھ کے ضلع میں ہونے والی جبری گمشدگیوں کی طرف دلاتے ہوئے نظر آئے۔

کمرہ عدالت میں رینہ اور روینہ کی والدہ، پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر کرشنا کماری، پاکستان تحریک انصاف کے ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے ڈاکٹر درشن لال موجود تھے۔ لیکن دونوں بہنوں کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس سیکرٹری داخلہ کی غیر موجودگی پر برہم ہوئے اور وفاقی حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے نمائندے سے کہا کہ ’کیا وفاقی حکومت کے لیے یہ معاملہ اہم نہیں ہے؟ ہمیں صرف یہ کہنا نہیں ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ ہیں بلکہ ان کو ایسا محسوس بھی کرانا ہے۔‘

وفاقی حکومت کی جانب سے موجود نمائندے سے سوال کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ’وزیرِ اعظم کی طرف سے رپورٹ دینے کا حکم دیا گیا تھا جو ہائی کورٹ میں بھی جمع کرانی تھی اس کا کیا ہوا؟‘

نمائندے کی طرف سے جواب نہیں ملا تو چیف جسٹس نے کہا کہ ’وفاقی اور صوبائی حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے جو مایوس کن ہے۔‘

انھوں نے اس بارے میں نیوزی لینڈ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں اس بارے میں سوچنا چاہیے کہ باہر ممالک میں ہمارا کیا تاثر جائے گا۔‘

سماعت کے دوران لڑکیوں کی جانب سے موجود وکلا کی کوشش تھی کہ سماعت کو جلد از جلد نمٹا دیا جائے لیکن چیف جسٹس نے ان کو کئی جگہ پر ٹوکتے ہوئے کہا کہ ’میں اس کیس میں جلد بازی نہیں کرسکتا، یہ ایک نہایت اہم اور حساس معاملہ ہے۔‘

انھوں نے وکلا اور عدالت میں موجود سیاسی نمائندوں سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ معاملہ صرف ایک ضلعے سے ہی کیوں رپورٹ ہوتا ہے؟‘

انھوں نے کہا کہ ’اقلیتیں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں برسوں سے رہ رہی ہیں اور خوش ہیں، وہاں سے اس قسم کی خبریں نہیں آتیں۔‘

لڑکیوں کی جانب سے وکیل عمیر بلوچ نے کہا کہ ان کو خاوند کے پاس بھیج دینا چاہیے، جبکہ لڑکیوں کے والد ہری لعل کی طرف سے موجود وکیل دلیپ نے کہا کہ لڑکیوں کا دماغی ٹیسٹ کروانا چاہیے کیونکہ ان کو سٹاک ہوم سنڈروم بھی ہوسکتا ہے، جسں میں آپ کے اندر خود پر قابض شخص کے لیے ہمدردی پیدا ہوجاتی ہے۔ عمیر بلوچ نے کہا کہ لڑکیوں کا میڈیکل ٹیسٹ کروایا گیا ہے اور رپورٹ موجود ہے۔

لیکن چیف جسٹس نے دونوں کی باتوں کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ’اصل مسئلہ یہ ہے کہ کہیں زبردستی اسلام قبول تو نہیں کروایا گیا اور کیا لڑکیاں کم عمر ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ اس معاملے میں ان کو ایک رپورٹ جمع کی گئی ہے جس کے بارے میں وہ اس وقت بات نہیں کریں گے اور فیصلہ دینے میں بھی جلد بازی نہیں کریں گے۔

ساتھ ہی انھوں نے وزارت داخلہ کو کمیشن کے ارکان کو اکٹھا کرنے کا حکم دیا۔ اور اگلی سماعت 11 اپریل تک ملتوی کردی۔

عدالت کے باہر ڈھرکی کی خانقاہِ عالیہ قادریہ بھرچونڈی شریف کے منتظم پیر عبدالحق عرف میاں مٹھو بھی موجود تھے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ جب بھی لڑکیوں کا جبری مذہب تبدیل کرنے کا معاملہ سامنے آتا ہے تو ایک ہی ضلع کا اور ان کا نام کیوں لیا جاتا ہے۔

اس پر میاں مٹھو نے مسکراتے ہوئے کہا ’کیونکہ ہم بِکنے والے نہیں ہیں۔ ہمیں کہا گیا، ٹی وی پر، کہ نو ارب لے لو اور لڑکی دے دو۔ ہم نے کہا کہ نو کھرب دے دو لیکن ہمارا ایمان بِکنے والا نہیں ہے۔ اس واقعے کے بعد ہم نے چار اور لڑکیوں کو بھی مسلمان کیا ہے۔‘

عدالت نے مقدمے کی سماعت 11 اپریل تک ملتوی کردی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے