ایک سہ پہر اردو ادب کے نام

موسیقی کو اگر روح کی غذا کہا گیا ہے تو شاعری دل کو فرحت بخشتی ہے۔ شاعری میں جب سُر اور تال کی آمیزش کی جائے تو وہ موسیقی بنتی ہے۔ جوموسیقی آپ کے انگ انگ کو حرکت دیتی ہے، اور یہی اس کا کمال ہے کہ آدمی چاہے کسی بھی حالت میں ہو، موسیقی اس کے اندر ایک جادوئی سی طاقت لے آتی ہے۔۔۔

موسیقی کو جب روح کی غذا کہا جائے تو کچھ مکتبہ فکر کے “پنڈت” اس کی مخالفت پر اتر آتے ہیں، اور چونکہ یہ شاعری انبیا کے دور سے چلی آ رہی ہے تو اس کی سراسر مخالفت کرنا بھی کسی طور اچھا عمل نہیں ہو گا۔

شاعروں کے لئے شاعری رب کریم کا ایک خاص تحفہ ہوتا ہے۔ جس طرح ایک چڑیا جگہ جگہ سے کارآمد بہترین تنکے اکٹھے کر کہ اپنا گھونسلہ بناتی ہے اسی طرح شعرا حروف تہجی سے ایک ایک لفظ چن کر شعربناتے ہیں جو کبھی حمد، کبھی نظم ، اور کبھی غزل کی شکل میں سامنے ہم تک پہنچتی ہے۔ میرے مشاہدے میں آیا ہے کہ شعرا کی تشنگی ان کے کلام پر ملنے والی داد سے دور ہوتی ہے۔ سامعین جتنا کھل کر داد دیں گے، شاعر بھی اپنے کلام کو بہتر سے بہترین انداز میں پیش کرنا شروع کر دیتا ہے۔

اٹلی کا شہر سوندریو ایک خوبصورت جھیل “لاگو دی لیکو” کے کنارے واقع ہے۔ اور حلقہ ادب و ثقافت اٹلی کی جانب سے سالانہ اردو ادبی پروگرام بسلسلہ“یوم پاکستان” کی خوشی میں منعقد کیا گیا۔ جس کی صدارت حلقہ ادب و ثقافت اٹلی کے صدر نصیر احمد ملک نے کی۔ اس پروگرام کی مہمانان خصوصی ڈاکٹر منظور احمد چودھری، قونصلر جنرل آف پاکستان میلان اور ڈاکٹر رضوان صلابت، اتاشی ویلفیر میلان قونصلیٹ تھے۔جبکہ مقامی حکومتی و پولیس کے نمائیندے بھی اس پروگرام میں موجود تھے.

پروگرام مقامی وقت کے مطابق پونے تین بجے شروع ہوا۔ جس میں مختلف شعرا نے اپنا کلام پیش کیا۔ اس پروگرام کی خاص بات یہ تھی کہ اس پروگرام میں یورپ کے دوسرے ممالک سے بھی ادبی شوق رکھنے والوں کی ایک کثیر تعداد موجود تھی۔ ڈنمارک سے آئی ہوئی پاکستانی صحافی و شاعرہ صدف مرزا نے اپنا کلام سنا کر جہاں خوب داد سمیٹی وہاں ہی ایک اور پاکستانی صحافی و شاعرہ صائمہ زیدی نے بھی جدت بھری شاعری سے سامعین کے کانوں میں رس گھول دیا۔

پروگرام کے اختتام پر صدر حلقہ ادب و ثقافت و شاعر ملک احمد نصیر نے اپنا کلام پیش کر کہ خوب داد وصول کی۔ اس موقع پر انہوں نے اپنی تازہ شاعری سے بھی سامعین کو محظوظ کیا۔

پروگرام کے اختتام پر واپسی ہوئی تو میرے اصرار پر انہوں نے اپنی شاعری ایک بار پھر ہمیں گاڑی میں سنائی:

 

رات باقی رہے یا ڈھل جائے
میری قسمت مگر بدل جائے
آگ کیسی ہے تیرے سینے میں
ہونٹ چُھولے تجھے تو جل جائے
کوئی شمع پہ جان دے ڈالے
کوئی اپنے اگن میں جائے
جس رفاقت کو عمر بھر تر سے
اب مصیبت ہے کاش ٹل جائے
اک پتھر نما جو پیکر ہے
میرے پوروں سے کیوں پگھل جائے
کوئی حسرت نہیں نصیر اب تو
بس یہی ہے کہ دل سنبھل جائے

اس طرح کے ادبی پروگرام دیار غیر میں رہتے ہوئے وطن کے باسیوں کے ساتھ مل بیٹھنے کا ایک موقع فراہم کرتے ہیں جہاں دور دراز سے آئے ہوئے شعرا اپنا تخلیقی کلام پیش کرتے ہیں اور ان سے داد وصول کرتے ہیں۔ ایک طرح سے ایسے پروگراموں کے انعقاد پر اپنی کمیونٹی کو ایک چھت تلے اکٹھے کرنے پر ایسا لگ رہا ہوتا ہے جیسے کوئی عید کا سا سماں ہو جہاں سب لوگ خوشی خوشی ملتے ہوں، اور ہر چہرہ مسکراتا ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے