حملہ آوروں کا شکریہ

نریندر مودی اور بی جے پی الیکشن میں ناکام رہے تو وہ اور بات ہو گی لیکن اُن کے نصیب میں جیت ہوئی تو اُس کا زیادہ تر سہرا اُن حملہ آوروں کے سر ہو گا جنہوں نے پلوامہ حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ ان سُرخیلوں کی ذرا ٹائمنگ تو ملاحظہ ہو۔ الیکشن کے لحاظ سے نریندر مودی کی ساکھ نیچے کی طرف جا رہی تھی اور کانگریس پارٹی کی پوزیشن بہتر لگنے لگی تھی۔ عین اُس وقت پلوامہ حملہ ہو گیا اور نریندر مودی کے ہاتھ ایک ایسا جواز اور ہتھیار آ گیا جس سے وہ خود کو مردِ آہن ثابت کرنے میں بہت حد تک کامیاب ہو گئے۔

حملہ تو چلو ہو گیا۔ اُس کی ذمہ داری قبول کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ لیکن ایسا ہوا اور مودی حکومت نے حملے کو ایک بہترین پروپیگنڈا ہتھیار کے طور پہ استعمال کیا۔ ہم پاکستان میں جو بھی کہیں کہ ہم نے ہندوستانی جارحیت کا خاطر خواہ جواب دیا، حملے اور اُس کے ردِ عمل میں مودی حکومت کے اقدامات نے اُن کی انتخابی پوزیشن کو بہتر کیا۔ جو گراف اُن کا نیچے جا رہا تھا وہ اُوپر کی طرف ہو گیا۔ حملہ کرنے والوں کے ذہنوں میں یہ خیال نہ آیا کہ اُن کے اِس اقدام سے کیا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں؟

جو کسر رہ گئی تھی وہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے پوری کر دی۔ ہمارے ہاتھ جب انڈین پائلٹ آیا تو اُسے واپس کرنے کی اتنی بھی کیا جلدی پڑی تھی؟ ہم اُس اقدام کو جو بھی رنگ دیں ہندوستان میں اُس کا اُلٹا مطلب لیا گیا کہ حالات ایسے تھے کہ پاکستان کو پائلٹ واپس کرنا پڑا۔ کچھ حوصلہ تو ہم کر لیتے اور کچھ دیر انڈین پائلٹ کو اپنے پاس رکھے رکھتے۔ کم از کم الیکشن تک تو ایسا کرتے تاکہ ایک اور ہتھیار نریندر مودی کے ہاتھ نہ آتا کہ دیکھو پاکستان کو پائلٹ واپس کرنا پڑا۔ جلدی میں پائلٹ کو واپس کرنے سے ہمیں کیا حاصل ہوا؟ وقتی طور پہ ہم نے اپنے آپ کو خوش کیا کہ دیکھو ہمارے اقدام کو عالمی رائے عامہ نے کتنا سراہا ہے۔ ایسے نتائج تو وقتی ہوتے ہیں۔ بات ہوئی اور بات ختم ہو گئی۔ وقتی تسکین سے زیادہ ہمیں کیا ملا؟

پائلٹ جلدی واپس نہ ہوتا تو ہندوستان نے کیا ہم پہ حملہ کر دینا تھا؟ حملہ کرنے کی تو ایسی باتیں کی جا رہی تھیں کہ شاید جنگ گلی ڈنڈے کا کھیل ہے۔ ہمارے وزیر خارجہ کا تو علاج کچھ ہے نہیں۔ تب کو چھوڑ کے اَب بھی کہہ بیٹھے ہیں کہ فلاں سے فلاں تاریخ کے درمیان میں ہندوستان پاکستان پہ حملہ کر سکتا ہے۔ اِن کی سوچ اور عقل پہ انسان دَنگ رہ جاتا ہے۔ ایک طرف تو ہم کہتے ہیں کہ ہماری اتنی طاقتور اور با صلاحیت فوج ہے۔ ایٹمی قوت سے بھی لیس ہیں۔ دوسری طرف ہمارے رویے سے یہ تاثر اُبھرتا ہے کہ جنگ چھڑنے کی صورت میں پتا نہیں ہمارے ساتھ کیا ہو سکتا ہے۔ ہم جنگ چھیڑیں یا ہندوستان، ایسی حماقت کرنے سے پہلے لاکھ بار سوچنے کی ضرورت ہو گی۔ کبھی وزیر خارجہ کہتے ہیں کہ حالات سدھارنے میں امریکہ نے بڑا کلیدی کردار ادا کیا۔ کبھی ہم سے خبریں منسوب ہوتی ہیں کہ اِس ضمن میں روس کا کردار بہت اہم تھا۔ جنگ اتنی آسان ہوتی تو اَب تک ہو چکی ہوتی۔ پھر نہ امریکہ نے کام آنا تھا نہ روس نے۔

بنیادی بات سوچنے کی یہ ہے کہ مودی حکومت کا ہونا پاکستان کیلئے اچھا ہے یا نہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ اُن کا عمومی رویہ کیا ہے وہ ڈھکی چھپی بات نہیں۔ لیکن اُس کو چھوڑئیے۔ پاکستان کے ساتھ اُس حکومت کا رویہ کیا ہے؟ اُن کا کھلم کھلا یہ انداز ہے کہ پاکستان کسی لچک یا نرمی کے لائق نہیں۔ پاکستان کے ساتھ سخت رویہ اپنانا ہی فائدہ مند بات ہے۔ لہٰذا اگر پاکستان شکایت کا موقع دیتا ہے تو ہندوستان کو اُس کا سخت جواب دینا چاہیے۔ ہمارے وزیر اعظم کا البتہ کوئی جواب نہیں۔ چند روز ہی ہوئے ہیں کہ اُن کا تہلکہ مچا دینے والا بیان سامنے آیا کہ نریندر مودی انتخابات میں کامیاب ہوئے اور اقتدار میں پھر سے آ گئے تو شاید کشمیر کے مسئلے کا حل ممکن ہو سکے۔ یہ ایسا لا یعنی خیال ہے کہ سُن کے انسان سر پکڑ لے۔ بی جے پی سوچ رہی ہے کہ کشمیر کا سپیشل سٹیٹس‘ جو کہ ہندوستانی آئین میں درج ہے‘ کیسے ختم کیا جا سکے اور یہاں ہمارے وزیر اعظم ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ نریندر مودی کا دوبارہ اقتدار میں آنا کشمیریوں کیلئے نیک شگون ثابت ہو سکتا ہے۔ عمران خان صاحب کو کون سمجھائے کہ نریندر مودی کا بس چلے تو کشمیریوں کی آواز کو بالکل کچل کے رکھ دے۔ کشمیریوں پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت ہو رہا ہے۔ اس پالیسی کے خالق کوئی اور نہیں نریندر مودی ہیں۔

یہ بات بالکل درست ہے کہ ہندوستان سے مفاہمت ہونی چاہیے۔ یہ ہمارے فائدے کی بات ہے لیکن خواہ مخواہ بچھے جانا‘ یہ کس حکیم نے ہمیں سکھایا ہے؟ فضول کے جہادیوں کو ہمیں روکنا چاہیے۔ وہ دن گئے جب ایسا عمل پالیسی کے طور پہ استعمال ہو سکتا تھا۔ یہ نکتہ ہمارے اداروں کو بھی سمجھنا چاہیے۔ نام نہاد جہاد کے دن گئے۔ لیکن یہ کیا بات ہوئی کہ ہمارے وزیر اعظم رچرڈ نکسن اور ہنری کسنجر بننے کی کوشش کر رہے ہیں؟ فی الحال ہندوستان کے ساتھ خاطر خواہ بات چیت کی بنیاد موجود نہیں۔ جب حالات بدلیں گے تو بنیاد بھی میسر ہو جائے گی‘ لیکن ایسے بیانات سے گریز کرنا چاہیے۔ عمران خان کے بیان کا ہندوستان میں بھی وسیع حلقوں کی طرف سے بُرا منایا گیا ہے۔ یہ تو بالکل نادانی ہے کہ ہندوستان میں انتخابات ہو رہے ہوں اور پاکستان کے وزیر اعظم جو بطور کرکٹر ہندوستان میں اچھا خاصا نام رکھتے ہیں‘ نریندر مودی کے حق میں بات کریں۔

چاہے وہ کشمیر کے حوالے سے بات کی گئی ہے‘ مطلب تو اُس کا یہی نکلتا ہے کہ نریندر مودی کا دوبارہ منتخب ہونا کشمیریوں کیلئے ساز گار ثابت ہو سکتا ہے۔ کانگریس والے پاکستان کے یار نہیں ہیں۔ وہ پاکستان کیلئے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتے۔ بہرحال اُن میں اور بی جے پی والوں میں یہ فرق ضرور ہے کہ وہ مسلمانوں اور پاکستان کے حوالے سے اِتنی اندھی مخالفت نہیں رکھتے۔ نریندر مودی کا بس چلے تو وہ تمام مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال دیں اور ہندوستانی آئین تبدیل کر کے اُسے یکسر ایک ہندو آئین بنا دیں۔

یہ درست ہے کہ ایک کانگریسی حکومت کے تحت ہی مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہو کے بنگلہ دیش بن گیا تھا‘ لیکن اُس المیے میں ہمارا اپنا ہاتھ بھی تھا۔ مسز اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان پہ حملہ ضرور کیا لیکن اُس سے پہلے کے عوامل ہمارے اپنے بنائے ہوئے تھے۔ خیر یہ اور بحث ہے۔ کانگریسی حکومتیں آئیں تو کسی نہ کسی حد تک ہندوستان سے مذاکرات ممکن رہے۔ جب سے نریندر مودی آئے ہیں تب سے بات چیت کے امکانات ہی ختم ہو گئے ہیں۔ عمران خان ہیں کہ مسئلہ کشمیر کے حل کی توقع لگائے بیٹھے ہیں۔

کوئی ایک تو شعبہ ہو کہ ہم کہہ سکیں کہ اِن انصاف والوں کی سوچ بہتر ہے۔ لیکن معیشت سے لے کر اِس کشمیر والی بات تک ہر جگہ یہ تاثر اُبھر رہا ہے کہ انہیں پرائمری تعلیم کی اشد ضرورت ہے۔

ہندوستانی انتخابات جاری ہیں اور آسمانوں سے ہی معلوم ہو سکتا ہے کہ نتائج کیا ہوں گے۔ رائے عامہ کے سروے کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی کا پلڑا بھاری ہے۔ یہ سروے حتمی طور پہ مستند نہیں مانے جا سکتے۔ کتنی دفعہ ہوا کہ بالکل غلط ثابت ہوئے ہیں۔ لیکن اگر اِس بار یہ سروے درست ہوں اور بی جے پی ہی انتخابات میں کامیاب ٹھہرے تو اُسے پلوامہ کے حملہ آوروں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جنہوں نے بہت حد تک اس کامیابی کی بساط بچھائی۔ کچھ شکریہ عمران خان کا بھی بنتا ہے کہ عین دورانِ انتخابات اُنہوں نے اپنا پلڑا نریندر مودی کے حق میں ڈالا۔ ہمارے حالات سُدھریں یا نہ سُدھریں ہم میں کم از کم اتنی صلاحیت تو ہے کہ نریندر مودی کا کچھ بھلا کر دیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے