لو گو ! دُعا کرو

مدّت بیتی میں نے جناب خالد حسن مرحوم کی سال نَو کی مُبارکباد کے جواب میں ایک شعر کہا تھا۔ انھوں نے غالبؔ کا یہ شعر بھیجا تھا:

دیکھئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض

ایک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

میں نے جواب میں عرض کیا تھا۔

لوگو دُعا کرو کہ گزر جائے خیر سے

آثار کہہ رہے ہیں بُرا یہ بھی دور ہے

پچھلے چند دنوں سے صحافی، اینکر پرسنز اور عوام کھل کر نئی حکومت، عمران خان اور ان کی ٹیم کی کارکردگی پر سخت تنقید کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ان کی تمام اُمیدیں، تمام توقعات خاک میں مِل گئی ہیں۔

سب سے پہلے وہ بار بار عمران خان کے انٹرویوز کے وہ کلپ دکھاتے ہیں، جن میں اُنہوں نے دعوے کئے تھے، سیاست میں آنے کو جہالت کہا تھا اور گولی مارنے کی بات کی تھی، ایم کیو ایم کے ساتھ کام کرنے کو ملک سے غدّاری کے مترادف قرار دیا تھا۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے خودکشی کرنے کا کہا تھا اور ایمنسٹی اسکیم کو ملک سے غدّاری اور بدعنوانوں کی مدد کرنا کہا تھا۔ بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی، نظام مملکت تو بالکل ختم ہو چکا ہے۔ معیشت تباہ ہو گئی ہے، ڈالر نے کمر توڑ دی ہے، مہنگائی بےقابو ہو گئی ہے، غریبوں کو مزید بےروزگار بنایا جا رہا ہے۔ ہزاروں دکانیں، مکانات مسمار کر دیئے گئے ہیں۔ پچھلے آٹھ ماہ کی حکومت میں عوام کو یہی کچھ نظر آیا ہے۔

آپ نے بڑے بڑے وعدے جو کئے تھے، ان کا حشر دیکھ لیا۔ مدینہ کی ریاست کی بات کی جا رہی ہے۔ دیکھئے مدینہ کی ریاست اور اس کے نظام حکومت و عدل کے لئے سب سے پہلے آپ کو ہمارے پیارے نبی محمدﷺ کی حیات مُبارکہ، حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی حیات مبارکہ، حضرت عمر ؓ بن خطاب کی مکمل حیات مبارکہ اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی حیات مبارکہ کی پوری تفصیل سے واقف ہونا ضروری ہے۔ اگر جلد کچھ سمجھنے کی ضرورت ہے تو مولانا شبلی نعمانی ؒ کی الفاروق اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی سوانح حیات پڑھنا، سمجھنا اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔ وہاں ایک شخص کو تکلیف، کوئی بھوکا، پیاسا عنقا، کوئی زکوٰۃ لینے والا موجود نہیں کی شرائط ہیں۔ یہاں لاکھوں لوگ فاقہ کشی، بے روزگاری، خواتین اور بچیوں کی دن دہاڑےعصمت دری عام ہے، شہروں میں دن دہاڑے لوٹ مار، قتل و غارتگری ہو رہی ہے اور ہم مدینہ کی ریاست کی باتوں کا خواب دیکھ رہے ہیں، پہلے حضرت عمرؓ کے کردار کی پیروی کرو پھر مدینہ کی بات کرو۔ غریب عوام کی ضروریات وتکالیف کو دور کرنا، امن و امان قائم کرنا پہلی ترجیح ہونا چاہئے۔ آئیں ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کا موازنہ ماضی کی صورتحال سے کرتے ہیں، حکومت کی کارکردگی سے متعلق چند مثا لیں حاضرہیں۔

(1)پٹرول پہلے 65روپے فی لیٹر تھا، اب 99روپے فی لیٹر ہے۔ (2)گیس پہلے 100روپیہ فی کلو تھی، اب 170روپے ہے۔ (3) یوریا کھاد 2400 روپے فی بوری تھی اور اب 3500روپے ہے۔ (4) آٹا 600روپے فی بوری تھا، اب 1450روپے ہے۔ (5) ڈالر 100روپے کا تھا اب 143روپے کا ہے۔ (6) سونا 45000روپے فی تولہ تھا اب 72000روپے ہے۔ (7) اسٹاک ایکسچینج 54000پوائنٹس تھی اور اب 38000ہے۔ (8) مہنگائی 3.5فیصد تھی اب 9.5فیصد ہے۔ اسی طرح قرض آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے، بجلی اور گیس کی قیمت عوام کی پہنچ سے باہر ہے۔ ہماری گھر کی بجلی و گیس کے بل تین گنا ہو گئے ہیں۔ پیٹرولیم وگیس کے وزیر فرماتے ہیں مجھے تو علم ہی نہیں تھا کہ یہ وزارت مجھے ملے گی، مجھے تو اس کام سے قطعی واقفیت نہ تھی۔ یہی حال وزیر خزانہ، وزیر تجارت اور دوسروں کا ہے۔

حضرت شیخ سعدیؒ نے فرمایا تھا کہ میں کبھی خاموش رہ کر شرمندہ نہیں ہوا، میں نے جب بھی (بلاضرورت) منہ کھولا تو خِفت اُٹھانا پڑی۔ سب کو اس پر عمل کرنا چاہئے۔ موجودہ حکومت سے متعلق اکثر افراد کے پرانے بیانات بلکہ نئے بیانات بھی ان کیلئے باعث عزّت نہیں باعثِ خفت ہیں۔ وزیراعظم ہائوس کی ضرورت وافادیت اب ان پر عیاں ہو گئی ہے اگر اس کو تعلیمی ادارہ بنا دیتے تو پھر سعودی ولی عہد، ملائیشیا کے وزیراعظم اور دوسرے آنے والے معزز مہمانوں کو کیا بنی گالہ لے جاتے یا ہوٹلوں میں رکھتے۔

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اثر ہر چیز پر پڑتا ہے اور اب تو یہ خبریں بھی عام ہیں کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا جارہا ہے ظاہر ہے کہ ان کی قیمتوں میں اضافہ عوام کے مسائل میں اضافہ ہی کر یگا۔ موجودہ حکومت پر لازم ہے کہ عوام کےمسائل میں کمی اور غریبوں کو ریلیف دینےکے لئے موثر منصوبہ بندی کرے اور اس منصوبہ بندی میں ان لوگوں کو شامل کرے جن کو ان مسائل کا سامنا ہے۔ ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ غریبوں کے مسائل حل کرنے کی ذمہ داری ان افراد کے ذمے کی جاتی ہے جن کو عوام کے مسائل کا ادراک ہی نہیں اور نہ انہوں نے ان مسائل کا کبھی سامنا کیا ہے۔ اب ایک نئی روایت قائم کر دی گئی ہے کہ حکمراں سابق حکمرانوں کو تمام تر غلطیوں کا ذمہ دار قرار دیکر بری الذمہ ہو جاتے ہیں ۔

موجودہ حکومت نے بھی یہ ہی روش اختیار کی ہے حالانکہ انہیں اندازہ نہیں کہ عوام کو زیادہ عرصے تک یہ کہہ کر مطمئن نہیں کیا جاسکتا کہ مہنگائی کا سبب سابقہ حکمراں ہیں اسلئے کہ انہوں نے ووٹ اپنے مسائل حل کرنے کیلئے موجودہ حکمرانوں کو منتخب کیا تھا۔ یہ واضح کردوں کہ میری اس تنقید کا مقصد صرف یہ عرض کرنا ہے کہ وہ ملک جس کو دفاعی طور پر اتنا مضبوط کر دیا گیا ہے کہ کوئی دشمن اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا وہ ملک کسی ایسے معاشی بحران کا شکار نہ ہو جائے جس پر قابو پانا ناممکن ہو۔ حالات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم اور انکےرفقا سے درخواست ہے کہ کارکردگی بہتر کیجئے، ورنہ آپ کےبھی تاریخ میں صرف نام رہ جائیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے