کسان پریشان معیشت کو نقصان

چند روز قبل چکوال سے ڈان اخبار کے چکوال سے نمایندہ نبیل انور ڈھکو کی بے موسمی بارشوں ڑالہ باری سے تلہ گنگ کے بعض مقامات پر گندم کی تیار فصل کو پہنچنے والے نقصان کی تفصیل درج تھی. بارانی علاقوں کے کسان کی آمدن کا دارو مدار موسم کے رحم و کرم پر ھوتا ھے. اپنی شب و روز کی محنت کے بعد وہ آسمان پر نظریں ٹکا لیتا ھے ایسے میں اس کی محنت اگر ضائع ھو جانے کا اندیشہ بھی ھو تو اس کی پریشانی کا تصور کیا جا سکتا ھے.

حالیہ بے موسمی بارشوں نے تلہ گنگ میانوالی بھکر لیہ تک کے اضلاع میں فصلوں کو نقصان پہنچایا. میرے شاگرد رشید چوھدری یوں تو انتخابات سے جڑے معاملات کی ایک غیر سرکاری تنظیم سے وابستہ ہیں. لیکن اپنے دیہاتی اور زراعتی پس منظر کی بنا پر اس اھم موضوع کو یوں زیر بحث لاتے ہیں رشید چوہدری لکھتے ہیں کہ رواں سال میں کٹائی کے لیے تیار گندم کی فصل کو آندھی، بارش اور ژالہ باری نے شدید نقصان پہنچایا ہے۔ دیہی پنجاب کی فوڈسیکورٹی کنک کے دانوں کی مریون منت ہے۔ اس کے علاوہ پاسکو کے سٹریٹجک ریزروز اور فوڈ ڈیپارٹمنٹ کے شہروں کو اناج کی فراہمی یقینی بنانے والے بھڑولے بھی پنجاب کے وہی اضلاع بھرتے ہیں جو حالیہ آفت سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ بہاولپور، ملتان، فیصل آباد اور ساہیوال کے ڈویژنوں میں فصل کو نقصان پہنچا ہے اور یہی علاقے اپنی ضرورت سے زیادہ یعنی سرپلس گندم پیدا کرتے ہیں۔

بزدار صاحب کی دعائوں کی درخواست کا احترام اپنی جگہ مگر اس وقت ضرورت ہے اس آفت کو آفت ڈیکلیئر کرنے کا، نقصان کا تخمینہ لگانے اور خاکم بدہن مزید بارشوں کی صورت میں مزید نقصان سے بچنے کی تدابیر کربے کا۔ این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم کو فعال کیجیے۔ پکی کھیتی لٹنے کے معاشی و جذباتی صدمے سے دوچار کسان کو حوصلہ دیجیے۔ بھلے زراعت کو آپ کمائو شعبہ نہ جانتے ہوں مگر اب بھی ملک کی ورک فورس کی اکثریت اسی پیشے سے جڑی ہوئی ہے۔ اگرچہ پچھلے دس برسوں سے گندم کی مسلسل وافر پیداوار سے ہمارے پاس گندم کے ذخائر موجود ہونے چاہییں۔ اگر وافر گندم برآمد کر دی گئی ہے تو اس برس ملک کہیں گندم کی قلت کا شکار ہی نہ ہو جائے۔ پچھلے کئی برسوں سے گندم کی امدادی قیمت 1300روپے فی من چلی آرہی ہے۔ کسان کو اس سے بھی کم قیمت پر جنس بیچنا پڑتی ہے۔ ڈالر کی اڑان اور مداخلات کی قیمتوں میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر یہ قیمت ہی بڑھا دی جائے تو بچی کھچی گندم سے کسان کے نقصان کا کچھ مداوا ہو سکتا ہے۔

رشید چوھدری کی اس تحریر کو پڑھنے کے بعد مجھے ھمارے ارباب اختیار پارلیمنٹ اور ریاست کے چوتھے ستون میڈیا کے غیر تسلی بخش کردار پر بھی افسوس ھوا.

ھمارا شعبہ زراعت اور مفلوک الحال کسان کب زیر بحث آئے گا کہنے کو پاکستان اور اس کی معیشت زراعت سے جڑی ھے تو پھر کیا ھم ان مسائل کو نظر انداز کرکے مجرمانہ غفلت کے مرتکب نہیں ھورھے.

کل منصور کلاسرا نے سماجی رابطے کی سائٹ پر لیہ میں گندم کی فصل کو پہنچنے والے نقصان کو اجاگر کیا. معروف صحافی روف کلاسرا اکٹر اپنی تحریروں اور پروگرام مقابل میں زراعت سے جڑے ایشوز اجاگر کرتے رھتے ہیں. لیکن کیا یہ صرف چند لوگوں کا ھی فرض ھے مجھے مایوسی تلہ گنگ میانوالی بھکر لیہ اور دیگر پسماندہ علاقوں کے اراکین اسمبلی کے رویہ سے بھی ھوئی جو اس صورتحال اور غریب کسان کے نقصان کے ازالہ اور حکومتی داد رسی کے لئے قومی اسمبلی میں آواز بلند نہ کرسکے. تلہ گنگ کے عوام نے چوھدری پرویز الٰہی کو رکن اسمبلی منتخب کیا جنہوں نے اسپیکر بن جانے کے بعد یہ نشست خالی کردی جس پر ان کے بھتیجے اور چوھدری شجاعت حسین کے بیٹے چوھدری سالک حسین منتخب ھوئے جنہوں نے اس ایشو پر تو کیا کسی ایشو پر قومی اسمبلی میں لب کشائی نہیں کی. کیا چوہدری پرویز الٰہی بحیثیت اسپیکر پنجاب اسمبلی زراعت اور کسانوں کی حالت زار سے جڑے اس ایشو پر پنجاب اسمبلی میں بحث کروا کر پنجاب حکومت کی توجہ نہیں مبذول کروا سکتے. وفاقی وزیر زراعت کو اس پر پالیسی بیان نہیں دینا چاھئے.

میں اس تحریر کے توسط سے وزیر اعظم عمران خان کے ترجمان ندیم افضل چن سے اپیل کروں گا کہ وہ کسانوں کے مسائل سے اپنے زمیندارنہ پس منظر کی بنا پر بخوبی آگاہ ہیں کہ وہ حکومت کی توجہ اس اھم ایشو کی جانب مبذول کرائیں اور غریب کسان کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کروایا جائے کیونکہ جس ملک کا کسان خوشحال نہ ھو وہ ملک بھی کبھی خوشحال نہیں ھوسکتا.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے