آخری موقع؟

وفاقی کابینہ میں تبدیلی بھی دلچسپ انداز میں ہوئی۔ 15اپریل کو پانچ کے قریب صحافیوں کی راولپنڈی میں ایک اہم ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کے بعد ٹی وی چینلز کی سرخیاں اچانک کابینہ میں تبدیلیوں کی خبروں سے چنگھاڑنے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد اس وقت کے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وزیراعظم کے ترجمان ندیم افضل چن نے یکے بعد دیگر ے ان خبروں کی تردید کر دی۔ ظاہر ہے یہ تردید وزیراعظم عمران خان کی منظوری سے ہی جاری کی گئی۔ اقتدار کے ایوانوں میں کھسر پھسر مگر جاری رہی۔اسلام آباد میں تبدیلیوں کے موقع پر راتیں پراسرار واقعات اور نقل و حرکت کی امین ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ جڑواں شہروں میں ادھر ادھر سفر کرتے ہیں یا کبھی کبھار فون کالز پر ہی اکتفا کر لیا جاتا ہے۔ بظاہر معمول کی نقل و حرکت اپنے اندر رازوں اور حیرانیوں کے طوفان لیے ہوتی ہے۔ اس بار بھی کچھ مختلف نہیں تھا۔اس رات جیو ٹی وی پر حکومتی تردیدوں کے باوجود حامد میر اپنے پروگرام کیپٹل ٹاک میں کابینہ میں متوقع تبدیلیوں کے بارے میں بضد تھے۔ ان کی باتوں اور تحریروں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اگلے دو روز اسلام آباد میں سب معمول پر تھا۔ ایسا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور کچھ ہو گا بھی نہیں۔ 18اپریل کی صبح بھی معمول کی صبح تھی۔ وزیراعظم عمران خان سے کچھ سرکاری افسروں کی ملاقات ہوئی۔ جہانگیر خان ترین ان سے ملنے آئے، وزیر خزانہ اسد عمر بھی وہاں موجود تھے۔ تھوڑی دیر میں شیخ رشید بھی آگئے۔ معمول کے اجلاس تھے۔ وزیراعظم عمران خان کے علاوہ اجلاسوں میں شریک شاید ہی کوئی ہو جو جانتا ہو کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔

معمول کے اجلاس ختم ہوئے، مہمان واپس گئے تو دن تقریباً ایک بجے وزیراعظم عمران خان نے اپنے ساتھ موجود اسد عمر سے بات کی اور انہیں بتایا کہ وہ انہیں پیٹرولیم کی وزارت دینا چاہتے ہیں۔ اسد عمر دلبرداشتہ ہوئے اور کہا کہ وہ کسی دوسری جگہ کام ہی نہیں کریں گے۔ ظاہر ہے یہ سب وزیراعظم اور جہانگیرخان ترین کے لیے ایک غیر متوقع عمل تھا۔ اسد عمر وزیراعظم سے ملاقات کرکے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت پارلیمنٹ ہائوس پہنچے۔ یہاں انہوں نے توانائی کمیٹی اجلاس کی صدارت کرنا تھی۔ اجلاس کے دوران وہ اپنے ٹوٹے دل کی داستان صحافیوں کو سنا بیٹھے اور وزیراعظم سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے ان کو وزارتِ پیٹرولیم کی پیشکش اور اپنے انکار کے بارے میں بھی آگاہ کر دیا۔

یہاں جیو نیوز سے منسلک ہمارے سینئر ساتھی اشرف ملخم نے فوری فون کرکے دفتر کو صورتحال سے آگاہ کیا اور پھر خبروں کا نہ تھمنے والا طوفان ٹی وی چینلز پر چلنے لگا۔ادھر وزیراعظم اسد عمر کے اس ردعمل اور اس سے پیدا ہونے والے منفی حکومتی تاثر بہتر بنانے کیلئے سوچ بچار کر رہے تھے جہانگیر ترین ان کے ساتھ تھے۔ انہوں نے کچھ ٹیلی فون بھی سنے۔ انہیں کابینہ کے اندر باقی تبدیلیوں کا مشورہ دیا گیا جسے انہوں نے فوری مان لیا اور اپنے عملے کو ہدایات جاری کر دیں۔ اعجاز شاہ کو وزارتِ پارلیمانی امور سے وزارتِ داخلہ، شہریار آفریدی کو وزارتِ داخلہ سے سیفران، فواد چوہدری کو وزارتِ اطلاعات سے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی، غلام سرور خان کو وزارتِ پیٹرولیم سے ایوی ایشن میں تبدیل کر دیا گیا۔

اسی طرح ڈاکٹر ظفر اللہ مرزا، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور ندیم بابر کو وزیراعظم کے مشیران تعینات کیا گیا۔ دراصل یہ نام پہلے ہی فائنل تھے مگر اسد عمر کے غیر متوقع ردعمل نے سارا ماحول بدل دیا۔ مجھے رہ رہ کر 15اپریل کو ٹی وی چینلز پر کابینہ میں تبدیلیوں کی خبر یاد آتی رہی کیونکہ پیمرا نے اس ’’غلط‘‘ خبر پر نوٹس بھی لیا تھا اور پی ٹی آئی کے کارکنوں نے سوشل میڈیا پر صحافیوں کی خوب درگت بھی بنائی تھی۔ وقت اس سب کو سچ ثابت کر رہا تھا اور پی ٹی آئی کے بیچارے کارکن شرمندہ ہو رہے تھے۔حیران کن بات یہ ہے کہ 18اپریل کی سہ پہر تک حکومت کی طرف سے وزیر خزانہ کا نام سامنے نہیں آیا۔ وزیراعظم عمران خان سے اہم شخصیت کی ملاقات ہوئی تو عبدالحفیظ شیخ کا نام اس اہم قلمدان کے لیے سامنے آیا۔

میڈیا پر تاثر ہے کہ وزیراعظم نے اسد عمر کو ابتر معاشی صورتحال کو کنٹرول کرنے میں ناکامی پر وزارت سے ہٹایا۔ سچ بھی یہی ہے مگر وفاقی کابینہ میں اس بڑی اکھاڑ پچھاڑ کا ایک تاثر حکومت کی ناکامی بھی ہے۔

اگر غور کیا جائے تو وفاقی حکومت میں حالیہ تبدیلیوں میں صرف دو تبدیلیاں ہی سب سے اہم ہیں باقی تبدیلیوں کے اثرات ملک پر اتنے جلدی نہیں پڑیں گے جتنے جلدی وزارت خزانہ اور وزارت داخلہ کی تبدیلیوں سے مرتب ہوں گے۔ وزارت خزانہ میں عبدالحفیظ شیخ اور وزارت داخلہ میں بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ کی آمد بظاہر اچھا شگون نظر آ رہی ہے۔ حفیظ شیخ تجربہ کار ہیں اور معیشت کے اسرار و رموز کو خوب جانتے ہیں جبکہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ بھی سیکورٹی، انٹیلی جنس، امن عامہ اور سب سے بڑھ کر کالعدم جماعتوں کو خوب جانتے ہیں۔ ظاہر ہے مسائل کو حل کرنے کے لیے ان کا علم ہونا سب سے اہم ہوتا ہے جو ان دونوں کے پاس موجود ہے۔

ان دونوں اہم تعیناتیوں میں سے بھی اعجاز شاہ اس لیے زیادہ اہم ہیں کہ ان کی کارکردگی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں ہماری آخری رپورٹ سے جڑی ہوئی ہے۔ اس بارے میں ایک رپورٹ ہم 15اپریل کو جمع کرا چکے، اب اگلی مگر اہم ترین رپورٹ جولائی اگست میں جمع ہوگی۔ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ ہم ٹاسک فورس میں گرے سے بلیک لسٹ میں نہیں جائیں گے اور معاشی پابندیوں سے بچ جائیں گے۔ اس کا ایک اشارہ تو یہ ہے کہ ہمیں ورلڈ بینک نے قرض جاری کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ یعنی ورلڈ بینک کی جمع تفریق کے مطابق ہم بلیک لسٹ میں نہیں جا رہے، تاہم خطے میں کسی حادثے اور خدانخواستہ اس کے پاکستان پر الزامات ہمیں مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔ اب اس نازک معاملے کی نگرانی اعجاز شاہ کے ہاتھ میں چلی گئی ہے۔

عالمی سطح پر پاکستان پر پابندیوں کا کوئی بھی حتمی فیصلہ نومبر تک ہماری اس مجموعی کارکردگی سے منسلک ہوگا جو ہم نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے انجام دینا ہے۔ ظاہر ہے اس سارے عمل میں نئے وزیر داخلہ اور وزیر خزانہ کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایک تنے ہوئے رسے پر چلنے جیسی مشق سے گزرنا ہوگا۔یہ بات طے ہو چکی کہ نئے وزیر خزانہ اور وزیر داخلہ کی کارکردگی وزیراعظم عمران خان کی حکومت کی کارکردگی کا سب سے اہم جزو ہو گی۔ اگر وزیراعظم اور ان کے یہ دو وزیر کوئی کارکردگی نہ دکھا پائے تو نومبر کے بعد شاید صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے۔ ایسی صورتحال ایک اور بحران کا پیش خیمہ ہوگی۔

کابینہ میں حالیہ تبدیلیاں بہتر کارکردگی کے لیے حکومت کیلئے ایک آخری موقع ہیں۔ نومبر تک اگر صورتحال میں مثبت تبدیلی نظر نہ آئی تو آئندہ سال مڈٹرم انتخابات کا سال ہو گا۔ فی الحال تمام راستے اسی سمت جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے