’’لندن سے گلاسگو تک‘‘

1984میں کیے جانے و الے سفر انگلستان کے بعد یہ غالباً اس دیار کی پندرہویں یاترا ہوگی جس پر میں 17اپریل کو روانہ ہو رہا ہوں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ کہنے کو دو عزیز دوست میرے ہم سفر ہیں مگر ایک یعنی غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ والے عامر جعفری مجھ سے ایک دن قبل وہاں پہنچیں گے اور دوسرے عزیزی وصی شاہ 18 اپریل کو ایڈنبرا میں ہمیں جائن کریں گے کہ اُس عزیز کا ایکسپریس ٹی وی چینل ہی کی کسی اہم ریکارڈنگ کا مسئلہ راہ کی دیوار بنا ہوا ہے۔

انگلینڈ اور متحدہ عرب امارات کی ایک مشترکہ خوبی یہ ہے کہ آپ دونوں ملکوں کا اندرونی سفر کسی ہوائی اڈے کا منہ دیکھے بغیر کرسکتے ہیں کہ ہر جگہ کا سفر بذریعہ کار آسانی سے ہوجاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس بار کے سفر کا نقشہ کچھ کچھ چُھپن چُھپائی کے کھیل سے ملتا جلتا سا ہے کہ ہمیں مانچسٹر سے ایڈنبرا جاکر اگلے دن واپس آنا ہے اور پھر کچھ گھنٹوں کے بعد دوبارہ گلاسگو کا رُخ کرنا ہے جو ایڈنبرا سے صرف ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے۔

معلوم ہوا کہ اس سانپ اور سیڑھی کے کھیل کی اصل وجہ وہاں کے منتظمین دوستوں کی مجبوریاں ہیں کہ یہ دورہ اپنی اصل میں دیہاتی علاقوں میں اچھے اور انتہائی کم خرچ اسکول قائم کرنے کے لیے ایک طرح کا فنڈریزر پراجیکٹ ہے سو اس سے متعلق انتظامی معاملا ت میں کچھ مقامی مجبوریاں ہوتی ہیں جن سے سمجھوتہ کرنا ہی پڑا ہے یعنی ان مشکلات کو اس کارخیر کے حصے کے طور پر دیکھیئے تو ہی بات آگے بڑھتی ہے۔

وطن عزیر میں جہاں ایک طرف جہالت، اڑھائی کروڑ اسکول نا دیدہ بچوں اور طرح طرح کے متوازی نظام ہائے تعلیم کا پیدا کردہ انتشار ہے تو دوسری طرف ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو اپنی اگلی نسلوں کو تعلیم سے بہرہ ور کرنے کے لیے اپنی استطاعت سے زیادہ تعاون کرتے ہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ دن میں زیادہ تعداد اُن محنت کش لوگوں کی ہے جو خود بوجوہ مناسب تعلیم حاصل نہیں کرسکتے لیکن اپنے محدود وسائل کے باوجود اس کے فروغ سے متعلق ہر آواز پر آگے بڑھ کر لبیک کہتے ہیں۔ میں الخدمت، اخوت، سائٹ ، غزالی اور ٹی سی ایس سمیت کئی ایسے اداروں کو جانتا ہوں جن کے بیشتر تعلیمی منصوبوں کے سپانسر یہی اہل دل تارکینِ وطن ہیں ۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت 40 لاکھ سے زیادہ پاکستانی یا تو دوسرے ملکوں میں مقیم ہیں کچھ وہاں کے شہری بن چکے ہیں اور کچھ معاش کے رشتے سے جُڑے ہوئے ہیں ۔ عُرفِ عام میں ان سب کو تارکینِ وطن یا بیرونِ وطن مقیم پاکستانی کہا جاتاہے لیکن ہر دو صورتوں میں اپنے وطن کی سلامتی اور اہلِ وطن کی ترقی سے ان کی دلچسپی گہری بھی ہے اور عملی بھی ۔ انگلستان کی حد تک دیکھا جائے تو یہ سلسلہ ایک ساحل سے دوسرے ساحل یعنی لندن سے اسکاٹ لینڈ تک پھیلا ہوا ہے۔

زیادہ آبادی والے علاقوں مثلاً لندن، برمنگھم، مانچسٹر، بریڈ فورڈ اور گلاسگو کے علاوہ بھی جگہ جگہ آپ کو ایسی آبادیاں ملیں گی جہاں پاکستانی نژاد لوگ خاصی کثرت سے پائے جاتے ہیں اس ضمن میں فوری طور پر جو علاقے ذہن میں آ رہے ہیں اُن میں لیڈز، نیو کاسل، برٹلے، ایڈنبرا اور آئرلینڈ کے دونوں حصوں کے نام لیے جا سکتے ہیں گزشتہ 35برس پر محیط ان 15 اسفار کے دوران مجھے ان سب علاقوں میں ایک سے زیادہ بار جانے کا موقع ملا ہے اور میں نے ان تمام مراکز میں پاکستانیت کے دیگر مظاہر کے ساتھ ساتھ شعر و ادب سے متعلق تنظیموں کو انتہائی پُرجوش اور سرگرم دیکھا ہے۔ 24 اپریل کی رات ڈاکٹر جاوید شیخ صاحب نے حسب معمول کھانے پر دوستوں کو جمع کرنے کے لیے وقت لے رکھا ہے اور یہ سوچ کر بار بار میرے دل پر ہاتھ سا پڑتا ہے کہ اس بار ساقی فاروقی اُس محفل میں نہیں ہوں گے۔

حال ہی میں سبکدوش ہونے والے پاکستانی ہائی کمشنر سیّد ابن عباس فارن سروس کے اُن چند لوگوں میں سے تھے جن کی عدم موجودگی میں بھی لوگ اُن کا نام عزت اور محبت سے لیتے تھے۔ نئے ہائی کمشنر برادرم نفیس زکریا کا تعلق بھی اس منتخب جماعت سے ہے سو امید ہے کہ وہ بھی اس خوب صورت اور صحت مند روائت کو مزید آگے بڑھائیں گے ۔ ا س بار نہ تو سفر میں میری بہنوں جیسی عزیز دوست پروین شاکر میری ہم سفر ہو گی جس کے ساتھ پہلی بار برطانیہ کا سفر کیا گیا تھا اور نہ ہی میرا کالج کے دنوں کا پیارا دوست افتخار احمد بٹ وہاں ہمارے استقبال کو موجود ہو گا کہ دونوں ہی اب ہماری آپ کی اس فانی دنیا سے پردہ کرچکے ہیں اُن کے علاوہ بھی کئی مانوس چہرے دکھائی نہیں دیں گے مگر جگہ جگہ اُن کی یادیں ضرور دامن کش ہوں گی کہ بقول اقبالؔ۔

مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں

یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں

عامر جعفری بھائی نے وہاں کی مصروفیات کا جو نقشہ ہمیں پروگرام کی شکل میں دیا ہے اُس کے مطابق پہلے پانچ دن یعنی 18سے 22 اپریل تک بالترتیب ایڈنبرا، مانچسٹر، گلاسگو، لیوٹن اور لندن میں تقریبات ہیں اس کے بعد 26 سے30 اپریل تک سکینڈے نیو یا میں روزانہ ایک نشست ہے جب کہ واپسی کے سفر میں پیرس میں بھی ایک شام اسی مشن کی تکمیل میں گزرے گی اس مسلسل اور بے تحاشا بھاگ دوڑ کے حق میں صرف ایک ہی دلیل ہے کہ ہماری ان چند دنوں کی بے آرامی سے سیکڑوں بچوں کا مستقبل روشن ہوجائے گا اور اس اعتبار سے یہ تکلیف ایسی ہے جسے اُٹھانے کی راحت ہر طرح کے آرام سے بہتر اور زیادہ قیمتی ہے اور اس کا ایک اضافی فائدہ یہ بھی ہے کہ اسی بہانے بہت سے پرانے دوستوں سے ملاقات بھی ہوجائے گی کہ بقول ذوّقؔ

اے ذوّقؔ کسی ہمدمِ دیرینہ کا مِلنا

بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے

ایک دوست نے مشورہ دیا ہے کہ اگر بکنگھم پیلس کی طرف سے گزر ہو تو ملکہ برطانیہ کو وزیراطلاعات برادرم فواد چوہدری کا یہ پیغام بھی پہنچا دیجیے گا کہ وہ کوہِ نور ہیرے کی واپسی اور حق ملکیت کے بارے میں اُن کے بیان کو مذاق نہ سمجھیں کہ اُن کی اکثر مذاق سمجھی جانے و الی باتیں اندر سے بہت سنجیدگی کی حامل ہوتی ہیں، سو عین ممکن ہے کہ انھیں سچ مچ یہ ہیرا واپس کرنا پڑجائے اور اُن کا تاج شاہی اُس استعمار کی آخری نشانی سے بھی محروم ہوجائے جس کا ذکر اب صرف تاریخ کی کتابوں تک محدود ہوگیا ہے اور اُن کے دور کے قصے اور فرنگی اقتدار کا تذکرہ صرف اس طرح کے کلاسیکی اشعار میں ہی نظر آئے کہ۔

کب ہے دماغِ عشقِ بُتانِ فرنگ کا

مجھ کو تو اپنی ہستی ہی قیدِ فرنگ ہے

کوشش کروں گا کہ گزشتہ کی طرح اس سفر کا احوال بھی چند کالموں میں آپ تک پہنچتا رہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے