خواتین کے حقوق اور غیرت کے نام پر قتل

آئے روز اخبارات ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا میں پاکستان اور آزاد کشمیر میں غیرت کے نام پر کسی خاتون کے اندوہناک قتل کی خبر پڑھنے اور سننے کو ملتی ہے۔ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ایسے واقعات میں سے کسی ایک خاص واقعہ کو خاص اہمیت ملے اور پھر حکومت یا قانون نافذ کرنے والے ادارے یا عدلیہ ان پر نوٹس لیکر کاروائی کرے۔

عموماً ہم جیسے عام شہری بھی معاشرے میں پائے جانے والے اس ناسور اور عیب کو نظر انداز کر دیتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ کہانی کو مزیدار طریقے سے سناتے یا سنتے ہوئے خاتون کو موردالزام ٹھہرا کر اپنی غیرت کا مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں۔

پاکستان کے عدالتی نظام کی خرابیوں اور پیچیدگیوں کا عالم یہ ہے مشہور زمانہ وادی کوہستان میں شادی کی ایک تقریب میں چند خواتین کے رقص کو بنیاد بنا کر صحفہ ہستی سے مٹا دیا گیا اور نا صرف اس واقعہ کو سامنے لانے والے افضل کوہستانی کو تین بھائیوں سمیت یک بعد دیگرے موت کی وادی پہنچا دیا گیا۔آج بھی یہ واقعہ ہمارے کمزور عدالتی نظام اور قانون نافذ کرنے والوں کی اہلیت پر سوالیہ نشان ہے۔حیرت اسوقت اور بڑھ جاتی ہے جب اس واقعے کی تاریخ کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تقریباً 3 مختلف پارٹیوں کی حکومتیں قائم ہوئیں اور ابھی تک اس پورے واقعے میں تینوں حکومتیں بھی ناکام اور بے بس نظر آتی ہیں۔

اب آتا ہوں ایسے واقعات میں ہمارے معاشرے کی چند بنیادی غلطیوں اور غلط فہمیوں کی طرف۔یوں تو ہم پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست کے طور پر مانتے اور تصور کرتے ہیں لیکن جب خواتین کے حقوق کی بات ہو تو ہم اسلام اور اسلامی فلاحی تصور کے برعکس بطور معاشرہ نظر آتے ہیں۔قول و فعل کا یہ تضاد ہی خواتین کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کا بنیادی نظریہ ہے۔

اسلام سیکھاتا ہے کہ والدین کی طرف سے خواتین کو جائیداد میں حق حاصل ہے لیکن ہمارے معاشرے میں شاذو نادر ہی کسی خاتون کو اپنے والدین کی جائیداد میں حصہ ملتا ہے اور بعض اوقات تو حصہ ملنے کے باوجود بھائیوں کی طرف سے قبضہ نہیں دیا جاتا جس پر بہنیں اپنا حصہ کورٹ میں جا کر بھائیوں کے حق میں دستبردار کر دیتی ہیں۔

ہمارے معاشرے میں اکثریت خواتین کو انکی خواہش پر نہ تو تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیا جاتا ہے اور نا ہی اکثریت کو انکی خواہش پر نوکری کی خوش دلی سے اجازت دی جاتی ہے اگر تعلیم اور نوکری کی اجازت مل بھی جائے تو کئی طرح کی پابندیوں کے علاؤہ انکی ذات پر کیچڑ اچھالنا معاشرے کا وہ عیب ہے جس میں سب ہی حصہ ڈالتے ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں اسوقت غیر شادی شدہ ایسی خواتین کی تعداد دن بدن بڑھتی چلی جارہی جن کی شادی غربت اور جہیز کے ناسور کی وجہ سے ممکن نہیں ہو پاتی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زیادہ جہیز کی ڈیمانڈ کرنا کونسی غیرت کے تحت ہوتا ہے اور معاشرے میں اس گھناونے جرم کے خلاف آج تک حکومتی سطح پر کوئی اقدامات کیوں نہیں اٹھائے گئے۔

پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر کے طول وعرض میں خواتین پینے کے صاف پانی کے حصول کے لیے خصوصا پہاڑی علاقوں کے دیہات اور گاؤں میں گھروں سے دور تازہ چشموں اور ندی نالوں سے اپنے سروں پر کئی لیٹر پانی کے برتن اٹھا کر سخت مشقت سے گھر کے تمام افراد کے لئے پانی کی ضروریات کو پورا کرتی ہیں۔

میرا سوال یہ ہے کہ اسوقت گھروں میں موجود افراد جن میں اکثریت مرد حضرات کی ہوتی ہے انکی غیرت کہاں چھپ جاتی ہے اور وہ کیسے گوارہ کر لیتے ہیں کہ انکی خواتین جن میں انکی مائیں،بہنیں،بیٹیاں،بیویاں اور بھابیاں گھروں سے باہر اور دور جا کر یہ مشقت بھرا کام کر کہ انکی پانی کی ضرورت کو پورا کرتی ہیں۔گھر میں آرام سے بیٹھ کر موبائل فون،ٹی وی یا گپ شپ کرتے ہوئے ٹائم گزارتے ہوئے ان مرد حضرات کو یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ انکی خواتین گھروں سے باہر جا رہی ہیں اور بے پردگی ہونے کا خطرہ موجود ہے۔میرے خیال میں چونکہ یہ محنت طلب اور مشکل کام ہوتا ہے تو اکثریت مرد حضرات کی غیرت اسوقت سو جاتی ہے اور پھر انہی خواتین کے لائے ہوئے ٹھنڈے پانی کو پی کر یا نہا کر جاگ اٹھتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے میں خواتین کو انکا جائز اور اسلام کے عین اصولوں کے مطابق دیے گئے حقوق کی آگاہی کے حوالے سے ہمارے علمائے کرام عوام میں علم و شعور بیدار کریں۔علمائے کرام کی ذمے داری ہے کہ وہ خواتین کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کے خلاف بھرپور طریقے سے مہم چلا کر معاشرے میں مثبت سوچ کو فروغ دیں۔

حکومت وقت کو بھی چاہیے کہ قومی پالیسی کے تحت خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے خصوصی ادارے کا قیام عمل میں لائے اور اس ادارے میں آزادانہ طور پر خواتین کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے ملکی سطح پر مکمل اختیارات موجود ہوں ۔پورے ملک میں اس ادارے کا خواتین کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے مکمل اعتماد اور موثر طریقے سے معاملات کو ہینڈل کرنے کا میکنزم موجود ہو جس کہ بعد ادارے کی تحقیقات یا روپورٹ پر عدالت اطمینان سے میرٹ پر فیصلہ کر سکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے