چودھری سرور کے ’’آلو چنے‘‘ اور سری لنکا کی دہشت گردی

چسکہ فروشی کے لئے آج اس کالم کا پیٹ بھرنے کے لئے بہت مواد میسر ہے۔ افواہ ہے کہ چودھری نثار علی خان طویل عرصے کی گوشہ نشینی کے بعد پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھانے کو اب تیار ہیں۔ انہوں نے حلف اٹھالیا تو کئی دوست اصرار کرنا شروع ہو جائیں گے کہ پنجاب میں عثمان بزدار کی تبدیلی کے لئے ’’گیم‘‘ بھی تیار ہوگئی ہے۔ اگرچہ یہ طے نہیں ہوپارہا کہ چودھری صاحب متوقع ’’گیم‘‘ عمران خان کو آسانیاں فراہم کرنے کے لئے لگائیں گے یا مقصد اس کا پاکستان مسلم لیگ (نون) کو ’’بندے کا پتر‘‘ بناکر اطمینان کی امید دلانا ہوگا۔چودھری صاحب سے دوستی کا دعویٰ تو نہیں کرسکتا۔ شناسائی مگر ان سے 1985ء سے چلی آرہی ہے۔ ذاتی طورپر انہوں نے ہمیشہ مجھ سے باہمی احترام کا رشتہ برقرار رکھا۔ تنہائی میں جب بھی کوئی ملاقات ہوئی تو ’’خبر‘‘ چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ اسی باعث ان کے بارے میں اس کالم میں کوئی تنقیدی جملہ سرزد ہوجائے تو ناراض ہوجاتے ہیں۔ تھوڑی خفگی کے اظہار کے بعد وضاحت اور معاملہ ختم۔

ان سے ’’منسوب‘‘ ہوئی گیم کی بابت سرگوشیوں میں گزشتہ کئی ہفتوں سے کہانیاں سن رہا ہوں۔ ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکالتا رہا۔ کیوں؟ اس سوال کے جواب کے لئے کچھ روز انتظار کرلیجئے۔ میرے پھکڑپن کو پنجاب کے گورنر چودھری سرور صاحب اپنے بیانات اور رویے سے مسلسل مواد فراہم کرتے رہتے ہیں۔ اسد عمر کی فراغت کے بعد بیرون ملک سے سیدھے اسلام آباد تشریف لائے۔ اُن کی یوںآمد نے عندیہ دیا کہ شاید کپتان انہیں "Get Buzdar”کا ٹاسک سوپنے والے ہیں۔شاید وہ ٹاسک انہیں نہیں ملا۔ اسی باعث ایک ٹی وی کے لئے منصور علی خان سے گفتگو کرتے ہوئے ’’آلو چنے‘‘ بیچنے کی بات کرتے رہے۔

چودھری سرور صاحب سے ’’لبرٹی‘‘ لیتے ہوئے مجھے ذاتی شناسائی والی مصیبت لاحق نہیں ہوتی۔ میرے لکھے کو شاید وہ پڑھنے کی زحمت نہیں اٹھاتے۔ کوئی ذکر کردے تو غالباََ نظرانداز کردیتے ہوں گے۔ ان کے اس رویے کو غرور کہا جاسکتا ہے۔ میں لیکن اسے ’’کھلے دل‘‘ کی نشانی سمجھتے ہوئے دل کو تسلی دے لیتا ہوں۔’’آلو چنے‘‘ بیچنے کا ذکر کیوں ہوا۔ اس سوال پر غور قلم کو روانی بخشتے ہوئے یاوہ گوئی کی جانب مائل کرسکتا ہے۔ دل میرا مگر بہت اداس اور پریشان ہے۔ ایسٹر کے دن سری لنکا میں مسیحی عبادت گاہوں پر جو قیامت نازل ہوئی اس نے دل ہلادیا ہے۔ پیشہ وارانہ ضرورتوں کی وجہ سے 1988ء سے 2005ء تک کئی بار اس ملک گیا ہوں۔ زیادہ تر قیام سارک کانفرنسوں کے دنوں میں ہواجافنا شہر کا ذکر کئی دہائیوں تک دنیا بھر کے میڈیا کی ہیڈ لائن بناتارہا۔یہ تامل علیحدگی پسندوں کی اکثریت پر مشتمل شہر تھا۔

اس شہر کو بھرپور فوجی آپریشن کے بعد ’’کلیئر‘‘ کروایا گیا تو سری لنکا کی حکومت نے اپنی ایئرفورس کے طیارے میں صحافیوں کے جس وفد کو اس شہر بھیجا اس میں واحد پاکستانی صحافی کی حیثیت میں موجود تھا۔اس شہر میں دوروز قیام کے بعد سمجھ آئی کہ خانہ جنگی ہنستے بستے شہروں پر کیا قیامت ڈھاتی ہے۔جافنا دیکھا نہ ہوتا تو حالیہ تاریخ میں شام کے شہر حلب میں جو ہوا اس کی وجوہات جاننے میں بہت دِقت ہوتی۔غیر ملکی سیاحوں کے لئے سری لنکا ایک بہت ہی مہمان نواز اور نسبتاََ ارزاں ملک ہے۔ لوگ ملنسار اور ٹھنڈے مزاج کے ساتھ مسکراتے ہوئے ملتے ہیں۔ مجھ جیسے صحافیوں کو 1950ء سے جاری اس کشیدگی کی وجوہات جاننے میں بہت دشواری محسوس ہوتی ہے جو سنہالی اور تامل زبانیں بولنے والوں کے مابین موجود ہے۔

یہ کشیدگی 1980ء سے خونخوار صورت اختیار کرنا شروع ہوگئی۔ خودکش بمباری کا بطور ایک جنگی حربہ استعمال تامل دہشت گردوں نے متعارف کروایا تھا۔ تاریخی شواہد ثابت کرتے ہیں کہ بھارت تامل دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتا رہاہے۔راجیوگاندھی نے اپنے ملک پر اس ضمن میں لگے داغ دھونے کے لئے بھارتی فوج سری لنکا میں ’’شورش‘‘ پر قابو پانے بھیج دی تھی۔ اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ تامل باغیوں نے البتہ راجیو کی ’’بے وفائی‘‘ کا بدلہ اسے خودکش حملے کے ذریعے ہلاک کرواتے ہوئے لیا۔ پاکستان کو سری لنکا کی اکثریت اور حکمران اشرافیہ اپنا دوست شمار کرتے ہیں۔ہمارے کئی کاروباری لوگوں نے وہاں صنعتیں بھی لگارکھی ہیں۔ وہ ہمیشہ دوستانہ ماحول کا اعتراف کرتے رہے۔بھارت اس دوستی سے ہمیشہ ناخوش رہا۔

ایسٹر کے روز برپا ہوئی وحشت کا تعلق بھارتی میڈیا کسی نہ کسی صورت پاکستان کے مذہبی انتہا پسند گروہوں سے جوڑنے کو مراچلاجارہا ہے۔اندھے تعصب میں ایسی ’’خبریں‘‘ پھیلائی جاری ہیں جو قطعاََ Fakeہیں۔قطعی غیر جانبداررویہ ا ختیارکرتے ہوئے بھی مجھے بھارتی میڈیا کے اس رویے پر بطور ایک پیشہ ور صحافی بہت اذیت محسوس ہوتی ہے۔

یہ بات درست ہے کہ اسلام کے نام کو استعمال کرتی ایک تنظیم نے اتوار کے دن ہوئے واقعات کی ذمہ داری اپنے سر لی ہے۔چند لوگ گرفتار بھی ہوئے ہیں۔ان لوگوں کے رشتے مجھے اعتماد ہے اگر آشکار ہوئے تو عالمی سطح پر سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلی اس انتہا پسند سوچ سے دریافت ہوں گے جو ’’داعش‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ اس سوچ کی برملا مذمت مسلمانوں کی اکثریت انتہائی خلوص سے کرنا اپنا اخلاقی فرض سمجھتی ے۔

ایسٹر کے روز برپا ہوئی وحشت کی وجوہات جاننے کے لئے ہمیں مگر سری لنکا کی مقامی حقیقتوں پر بھی نگاہ رکھنا ہوگی۔ یہ وقت مناسب نہیں کہ ان کا تفصیل سے ذکر کیا جائے۔ صرف تناظر کی وضاحت کے لئے یاد دلانا ہوگا کہ تامل بغاوت کا قلع قمع کرنے کے بعد سری لنکا کی حکومت نے Majoritarianismکی سیاسی مفادات کے تحت پشت پناہی کی۔ سری لنکا کی ’’شناخت‘‘صرف بدھ مت ہی کو بنانے پر اصرار ہوا۔

مسلمان جو سری لنکا کا صرف 9.7فی صد ہیں اس ’’شناخت‘‘ پر اصرار کا حالیہ نشانہ بنے۔ سری لنکا کے مشرقی شہروں اور قصبات میں سنہالی انتہاپسندوں نے مذہبی بنیادوں پر انہیں The Otherقرار دیا۔ بدھ مسلم فسادات نے سینکڑوں مسلمانوں کو نقل مکانی پر مجبور کردیا۔ان کے کاروبار تبا ہ ہوگئے۔

تاریخ کا المیہ یہ بھی ہے کہ مسلمان عربوں کی بحری تجارت پر اجارہ داری کی وجہ سے 8ویں صدی میں سری لنکا میں آباد ہونا شروع ہوئے تھے۔ آٹھ سو سال کے طویل عرصے کے بعد پرتگال نے کولمبو جیسے شہری علاقوں پر قبضہ کیا۔

مسلمانوں کو Moorپکارتے ہوئے قتل وغارت گری کا نشانہ بنایا گیا۔ اس وقت کے سنہالی بادشاہ نے سری لنکا کے مشرق میں موجود شہروں میںمسلمانوں کو پناہ دی۔ دیہاتوں میں انہیں آبادکاری کے لئے زمینیں دیں۔ ماہی گیری کے دھندے پر ان کا اجارہ رہا۔ اس تاریخی حقیقت کو سنہالی انتہاپسندوں نے حال ہی میں ابھرے مذہبی تعصب کی بناء پر بھلادیا۔ مسلمانوں میں اس کی وجہ سے جو Rageابھرا اس نے چند نوجوانوں کو داعش کی راہ اختیار کرنے کو مجبور کردیا ہوگا۔ میرے بیان کردہ امکان کو لیکن ایسٹر کے روز ہوئی خونریزی کا ’’جواز‘‘ خدارا تصور نہ کیا جائے۔ میری فریاد فقط یہ ہے کہ معاملے کو زیادہ گہرائی میں دیکھا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے