دوہری شہریت کا حامل فیاض احمد اپنی پاکستانی شہریت کیوں ختم کروانا چاہتا ہے ؟

دوہری شہریت کے حامل افراد کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ جب چاہیں ایک ملک میں رہیں اور جب دل چاہے دوسرے ملک میں رہیں۔ دونوں ملکوں میں اسے بنیادی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ انسان ترقی پذیر ممالک سے ترقی یافتہ ممالک کی طرف ہجرت کرتے ہیں اور ہجرت کا یہ عمل صدیوں پرانے تسلسل کا حصہ ہے۔ پاکستانی لاکھوں نفوس پر مشتمل آبادی دیار غیر میں بس رہی ہے اور ان کی اولاد اور آگے ان کی نسل پاکستان سے بے حد پیار کرتے ہیں۔ یورپین ممالک میں بسنے والے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اردو زبان بھی بولنے سے قاصر ہے۔ ایسے میں بے شمار محب وطن پاکستانی ہیں جو اپنی اولاد کو پاکستان لاتے ہیں تاکہ وہ ہمارے معاشرے میں اٹھنا بیٹھنا سیکھ سکیں۔ اپنے رسم و رواج کو زندہ رکھ سکیں، کیونکہ جو قومیں اپنے کلچر کو بھول جاتی ہیں وہ کبھی بھی اپنا نام زندہ نہیں رکھ پاتیں اور یوں ان کا نام ہمیشہ کے لئے مٹ جاتا ہے۔

گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک پاکستانی سے میری ملاقات میلان قونصلیٹ آفس کے قریب ہوئی جو پاکستان قونصلیٹ میلان میں اس غرض سے آیا تھا کہ اس کی جان کو پنجاب پولیس سے چھڑوایا جائے، پنجاب پولیس سن دو ہزار گیارہ سے آج تک ہمارے گھر میں بلا کسی عدالتی حکم نامے کے آتی ہے اور توڑ پھوڑ کر کہ چلی جاتی ہے۔ اس نے اپنی روداد سناتے ہوئے کہا کہ:

30 اکتوبر 2011 بروز اتوار ہماری فیملی میں کچھ ناخوشگوار واقعہ پیش آیا جس پر میرے چھوٹے بھائی سجاد احمد کے ہاتھوں گھریلو ناچاقی پر ہماری ہی فیملی کے ایک بزرگ کا قتل ہو گیا اور یوں قتل کے بعد سجاد احمد فرار ہو کر سپین چلا گیا کیونکہ کہ وہ سپین میں عارضی طور پر رہ رہا تھا۔ قتل کے وقت میں اور میرا ایک دوسرا بھائی اشفاق احمد بیرون ملک تھے۔ پولیس نے ہماری والدہ کو تشدد کا نشانہ بنایا اور بعد ازاں طویل عدالتی کارروائی کے اس کیس سے ہمیں چھٹکارا ملا۔

عدالت نے ملزم تجاد احمد کے ریڈ وارنٹ جاری کر دئیے اور اب انٹرپول نے کارروائی کر کہ ملزم کو پاکستان لانا ہے جبکہ جتنی بار میں پاکستان گیا ہوں پولیس نے مخبر کے کہنے پر مجھے تھانے بند کروایا ہے۔ میں نے عدالت سے رجوع کر کہ اپنے خلاف جھوٹا مقدمہ بھی خارج کروایا اور ساتھ ساتھ عدالت نے پولیس کو متنبہہ بھی کیا ہے کہ اب فیاض احمد اور اشفاق احمد سمیت گھر کے کسی دوسرے فرد کو تنگ نہ کیا جائے۔ پولیس نے عدالت کے احکامات کی دھجیاں اڑاتے ہوئے آج تک ہمیں تنگ کر رہی ہے۔ اور سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ وہ ہماری بوڑھی ماں کو تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے کہ ماں پر تشدد کرنے سے اس کا مغوی ملزم بیٹا واپس آ جائے گا۔

پولیس کے اس روئیے سے ہم بہت دل برداشتہ ہو چکے ہیں۔ میں پاکستان نہیں جا سکتا باوجود اس کہ کے مجھ پر کوئی کیس نہیں لیکن پولیس اپنی طاقت کے زور پر مجھے تشدد کا نشانہ بناتی ہے۔ میں بیگناہ ہو کر بھی اپنے گھر جاتریہ خورد، تحصیل کھاریاں ، ضلع گجرات جانے سے ڈرتا ہوں کہ پنجاب پولیس جو مقتول کے لواحقین سے بھاری رقم لینے کے عوض مجھے اور میرے بھائی اشفاق احمد سمیت والدہ اور گھر کے دوسرے افراد کو زدوکوب کرتی ہے۔

ہم نے ڈی پی او ضلع گجرات کو ایک تحریری درخواست بھی دی ہے کہ مورخہ 11 اپریل 2019 کو دو پولیس کی گاڑیاں، چار موٹر سائیکل ، اور ایک غیر سرکاری گاڑی پر پولیس کی بھاری نفری نے ہمارے گھر پر حملہ کیا اور توڑ پھوڑ کر کہ ہمارا بھاری نقصان بھی کیا۔ اور اسی دوران انھوں نے گھر کے اندر داخل ہو کر سترہ لاکھ روپے نقد اور دس تولے سونا بھی ساتھ لے لیا۔ ہمارے پاس اس رقم کے تمام ثبوت موجود ہیں اور یہ 10 اپریل 2019 کو مقامی منی ایکسچینجر سے وصول کی تھی۔ پولیس یہ رقم اور سونا یہ کہہ کر ساتھ لے گئی کہ اتنی رقم اور سونا آپ کے پاس کیوں ہے ؟

10 اپریل 2019 کو وزیر اعلی پنجاب نے ہماری شکایت پر ڈی پی او گجرات کو ایک ہفتہ کے اندر اپنی رپورٹ کو مکمل کرکہ بھیجنے کا کہا ہے مگر ابھی تک کچھ نہیں کیا گیا۔ ہمارے ایک بھائی نے دیگر دو افراد کے ساتھ ملکر اگر قتل کیا ہے تو پولیس کو چاہیئے کہ وہ اصل ملزم کو پکڑے نہ کہ وہ ہم پر اپنے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرئے۔ گھر میں پولیس والے والدہ کے ساتھ بہت برا سلوک کرتے ہیں جو کسی صورت ہمیں قبول نہیں ہے۔

پچھلی بار جب میں پاکستان گیا تھا تو میں نے اسلام آباد اطالوی سفارت خانے بھی رجوع کیا تھا کہ میں آپ کے ملک کا شہری ہوں اور مجھ پر ایسے جھوٹے مقدمات بنائے گئے ہیں جن کا مجھ سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ تو انھوں نے کہا تھا کہ آپ اس ملک کے بھی شہری ہو لہذا ہم کچھ نہیں کر سکتے اور اگر آپ اس ملک کی شہریت کو منسوخ کرتے ہو تو پھر ہم اس معاملے کو اچھے انداز میں دیکھ سکتے ہیں۔

اور جب میں نے میلان قونصلیٹ جنرل رابطہ کیا تو وہ مجھے پاکستان کی راہ دیکھاتے ہیں کہ شہریت کی منسوخی پاکستان سے ہو گی اور یہ آسان عمل نہیں ہے۔ میں پاکستان کا شہری پہلے ہوں پھر اطالوی ہوں. مجھے کوئی خوشی نہیں کہ جہاں میں پیدا ہوا، بچپن گزارا، جوانی کے حسین دن گزارے، اس جگہ کو چھوڑ دوں۔ مگر عزت نفس اگر ایسی جگہ محفوظ نہیں تو ایسی جگہ جا کر کیا کرنا ہے؟

فیاض احمد نے بتایا کہ چند ماہ قبل جب میں پاکستان گیا تھا تو لاہور ائیرپورٹ سے باہر نہیں نکلا تھا بلکہ وہاں پہنچنے کے تین گھنٹے بعد دوسری فلائیٹ پر ائیرپورٹ ہی سے واپس آ گیا تھا۔ اس واقعہ کو سناتے ہوئے فیاض احمد متعدد بار آبدیدہ ہو گئے۔

فیاض احمد ایک ایسے ملک میں رہائش پذیر ہے جہاں اس کو ہر قسم کے حقوق حاصل ہیں اور اگر اسے کسی بھی ادارے سے کوئی گلہ شکوہ ہو تو وہ اپنی بات کہہ بھی سکتا ہے اور اگر اس کی حق تلفی ہوئی ہے تو یہاں کی حکومت اس کا ازالہ بھی کرے گی۔ مگر جہاں اس نے بچپن، لڑکپن اور جوانی گزاری وہاں اس کی کوئی سنوائی نہیں ہو رہی۔ ایسے میں اگر فیاض احمد اپنی پاکستانی یہ شہریت کو منسوخ کرواتا ہے تو یہ کسی طور اچھا عمل نہیں ہوگا اور اس کی پوری زمہ داری پاکستانی اداروں پر عائد ہوگی جن کی عدم توجہ کے باعث اس نے دلبرداشتہ ہو کر ایسا قدم اٹھایا.

میری حکام بالا سے گزارش ہے کہ ایسے واقعات کا سختی سے نوٹس لیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اوورسیز پاکستانیوں کے گھر باہر کی زمہ داری بھی پاکستانی حکومتی اداروں پر بنتی ہے کہ وہ ان کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنائیں ورنہ ایک ایک کر کہ پتہ نہیں کتنے فیاض احمد اس ملک سے اپنا رشتہ ہمیشہ کے لئے توڑ دیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے