قارئین کی عدالت میں

ایک لکھاری کے لیے اس کے قارئین قابل احترام ہوتے ہیں۔ضروری نہیں ہوتا کہ قارئین اتفاق ہی کریں ، ان کا اختلاف بھی ایک نعمت ہوتا ہے کیونکہ ہم میں سے کوئی بھی عقل کل نہیں ۔ ہم سب صرف اپنی رائے دے سکتے ہیں اور رائے میں صحت اور غلطی ، ہر دو کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔

عمران خان پر لکھے گئے آج کے کالم پر قارئین کی کافی تعداد نے سوال اٹھائے ہیں ۔اول مجھے محسوس ہوا کہ دوست خلط مبحث سے کام لے رہے ہیں ۔ ایک دوست کے تبصرے کے جواب میں ، میں نے لکھا کالم دوبارہ پڑھیے آپ شاید درست تناظر میں سمجھ نہیں پائے تو انہوں نے جواب دیا باقی کالم اگر پہلی بار ہی سمجھ آ جاتے ہیں تو اسے دوبارہ کیوں پڑھا جائے ؟

ان کا جواب معقول تھا ۔ یقیناًیہ میری ہی غلطی تھی اور میں ہی بات نہیں سمجھا پایا تھا۔ اس لیے میں چند معروضات آپ سب کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔

ہمارے معاشرتی رویوں میں انتہا پسندی غالب ہے۔ کوئے یار اور سوئے دار کے بیچ ہمیں کوئی مقام پسند ہی نہیں۔ چنانچہ اکثر ایشوز پر ہمارے ہاں پولرائزیشن ہو جاتی ہے اور ہم دو انتہاؤں میں تقسیم ہو جاتے ہیں ۔ جو ہمیں اچھا لگتا ہے اس میں ہم کسی خامی کے امکان کو تسلیم کرنے کو کم ہی تیار ہوتے ہیں اور جو ہماری مخالف صف میں کھڑا ہو ہم اس میں کسی خوبی کو تسلیم نہیں کرتے ۔ یہی رویہ سیاست میں ہے ۔ کچھ وہ ہیں جن کے نزدیک عمران کوئی غلط کام نہیں کر سکتا اور کچھ کے نزدیک اس سے اچھائی کی توقع بے کار ہے۔

یہ دونوں رویے درست نہیں ۔ عمران خان سے مجھے بہت توقع تھی اور آج بھی میں انہیں زرداری اور نواز شریف سے بہتر سمجھتا ہوں ۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ان کی حکومت خوفناک غلطیاں کر رہی ہے ۔ اور یہاں انہیں دہرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ میں ان پر لکھتا رہتا ہوں اور کھل کر لکھتا رہتا ہوں ۔ دوست اب اعتراض یہ اٹھاتے ہیں کہ آپ ایک طرف تو عمران پر سخت تنقید کرتے ہیں دوسری جانب آپ کو اس سے اب بھی امید ہے۔ کیا یہ کھلا تضا نہیں؟

عر ض یہ ہے کہ یہ تضاد نہیں ۔ یہی درست رویہ ہے ۔ کیا آپ یہ توقع رکھتے ہیں کہ چونکہ میں ماضی میں عمران کے حق میں لکھ چکا تو اب اس پر تنقید نہ کروں؟ یعنی میں بظاہر ایک تضاد کے طعنے سے بچنے کے لیے فکری بد دیانتی کروں؟ عمران خان کی خوفناک غلطیوں کو غلطی نہ کہوں؟ وزراء کے مسخرے پن کے قصیدے لکھوں؟ اوپر سے نیچے تک اہل اقتدار کے احمقانہ رویے کی تحسین کروں تا کہ مجھے تضادات کا طعنہ نہ سننا پڑے؟ یہ میرے لیے ممکن نہیں۔چاہوں بھی تو ایسا نہیں کر سکتا۔

تو اب جب میں عمران خان کی غلطیوں پر سخت تنقید کر چکا ہوں تو کیا لازم ہے اب مجھے اس سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے؟ میں اگر ساری تنقید کے باوجود یہ سمجھتا ہوں کہ عمران ابھی ناکام نہیں ہوا وہ ہاتھ پاؤں مار رہا ہے ، اس کی ساری غلطیاں اپنی جگہ لیکن اسے ناکام حکومت کا خطاب دینا ابھی مناسب نہیں تو اس میں کیا غلط ہے؟ چونکہ میں اس کے چند کاموں پر تنقید کر چکا ہوں اس لیے اب اسے شیطان ثابت کروں؟ یا چونکہ میں اس سے اب بھی امید رکھتا ہوں تو اس کی غلطیوں پر تنقید نہ کیا کروں؟ یہ دھڑے بندی کی بیمار نفسیات ہے اور اللہ سے دعا ہے مجھے اس لعنت سے محفوظ رکھے۔

کالم اقوال زریں کا مجموعہ نہیں ہوتا ۔ اسے لکھاری کے فکری پس منظر سے جدا کر کے نہیں پڑھا جا سکتا ۔ یہاں کبھی عمران پر تنقید ہو تو نونہالان انقلاب طعنے دینے آ جاتے ہیں اور عمران کے بارے کلمہ خیر ہو تو عمران کے ناقدین چڑھائی کر دیتے ہیں ۔ کالم کو آئسولیشن میں پڑھا جائے گا تو ایسے ہی ہو گا لیکن اگر اسے ایک فکری پس منظر سے جوڑ کر پڑھا جائے گا تو اس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔

عمران کی حکومت فی الوقت ڈیلیور نہیں کر پا رہی ۔ ان کی زبانیں ہی ان کی رسوائی کا سامان پیدا کیے جا رہی ہیں۔ روز ایک نیا ارشاد ، روز ایک نیا تماشا ۔ اس رویے پر تنقید ہو گی۔ کمزور حکومت پر بھی تنقید ہو گی ۔ لیکن یہ امکان تو بہر حال موجود ہے کہ آنے والے مہ و سال میں شاید وہ سنبھل جائے۔ شریف خاندان کا اقتدار ہم نے بیس سال دیکھا تب جا کر ایک رائے قائم کی ، عمران کے بارے میں حتمی فیصلہ آٹھ ماہ میں کیسے کیا جا سکتا ہے؟

اپنی طرف سے میں نے آپ کی عدالت میں اپنا موقف تفصیل سے رکھ دیا ۔ اگر اب بھی ابلاغ میں کمی رہ گئی ہو تو یہ میری ہی کوتاہی ہو گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے