باقی بتانِ آذری

شاعری کی جہات کبھی بہت پیچیدہ ہوتی ہیں۔ ہاں مگر اقبالؔ کا پیغام واضح ہے
سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آذری

کیا کپتان نے گورنر پنجاب کو اپنی ذمہ داریوں تک محدود رہنے کا حکم دیا ہے؟ گورنر صاحب کا کہنا یہ ہے کہ ان کی کوشش سے یورپی مارکیٹ میں پابندیاں کم ہونے سے ملک کو پندرہ سو ملین ڈالر کا فائدہ پہنچا۔ وزیر اعظم نے مذہبی سیاحت کی ذمہ داری انہیں سونپی ہے، جس کی تکمیل پر پانچ ارب ڈالر سالانہ ملیں گے ۔ صاف پانی کے منصوبے سے صوبے کے شب و روز بدل جائیں گے ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ 80 فیصد بیماریاں آلودہ پانی سے پیدا ہوتی ہیں ۔ خلقِ خدا سے بے نیاز حکمران برسوں اغماض برتا کیے۔

ایسے کارنامے انجام دینے اور ایسے امکانات کے آدمی سے اس کا لیڈر بے نیاز کیسے ہو سکتا ہے ؟
چوہدری سرور کا کہنا یہ بھی ہے کہ اگر ان کی بنائی فہرست کے مطابق ٹکٹ جاری کیے جاتے تو پی ٹی آئی پنجاب میں دو تہائی سیٹیں لے اڑتی ۔ مگر یہ کیا کہ اسلام آباد گئے تو نعیم الحق اور شاہ محمود سے مل کر لوٹ آئے ۔ کپتان سے ملاقات نہ ہو سکی ۔ شکوہ یہ ہے کہ ان کے استعفے کی افواہیں اڑائی جاتی رہیں ۔ فرمایا: میدان سے میں بھاگنے والا نہیں ۔ برطانیہ میں اپنی سیاست قربان کر کے آیا ہوں۔

کبھی کبھی ایک ہی سیاسی پارٹی کے متحارب گروہ بھیڑیوں کی طرح باہم خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں۔
چوہدریوں کے گھر سے ایک گفتگو کی جھلکیاں دانستہ یا دانستہ طور پہ جاری ہوئی تھیں۔ ان کے بازوئے شمشیر زن طارق بشیر چیمہ کو جہانگیر ترین سے کہتے سنا گیا کہ گورنر کو روکیے، وہ مداخلت کرتے ہیں ۔ کیسی مداخلت؟ وہ ایک بڑی برادری کے سرکردہ ہیں۔ بہت سے لوگ امید کی نگاہ سے ان کی طرف دیکھتے ہیں ۔ ہر سیاستدان اپنے حلقۂ اثر میں اضافے کا آرزو مند رہتا ہے ۔ پارٹیوں میں دھڑے بنتے ہیں ۔ عدمِ تحفظ میں مبتلا لیڈر کبھی ایک دوسرے کے ہاتھ تھامتے اور کبھی ایک دوسرے کے مقابل صف آرا ہوتے ہیں۔

ترین‘ شاہ محمود کشمکش پرانی ہے ۔ لوگ چونکے ، جب گورنر ہائوس کی پریس کانفرنس میں شاہ محمود نے اعتراض داغا کہ جہانگیر ترین کیوں کابینہ میں شریک ہوتے ہیں ۔ مریم اورنگ زیب کو اس پہ واویلا کرنے کا موقع ملتا ہے ۔ اس پر تعجب کا اظہار کیا گیا کہ وزیرِ خارجہ نے برسرِ بازار گندے پوتڑے کیوں دھوئے ۔ اعتراض تھا تو خلوت میں اٹھایا ہوتا ۔ خود اپنے لیڈر سے کہا ہوتا۔

پھر آبِ پاک کا سکینڈل ابھرا ۔ پنجاب اسمبلی نے ایک ادارہ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا اور بیشتر ذمہ داری چوہدری سرور کو سونپی جو پہلے ہی سے اس کارِ خیر میں سرگرم ہیں ۔ وزیرِ اعظم کی ناک کے نیچے لطیفہ یہ ہوا کہ سپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے مسودۂ قانون قاعدے کے مطابق گورنر ہائوس بھیجنے کی بجائے ہفتوں اپنے پاس رکھ چھوڑا ۔ خان صاحب اس پر خاموش کیوں رہے ۔ بالکل اس طرح ، جیسے پی ٹی وی کے نیک نام ڈائریکٹر ارشد خاں اور وزیرِ اطلاعات کی کشمکش کے ہنگام۔ سرکار کو جس سے رسوائی اور بے یقینی میں اضافے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا ۔ آخر کار دونوں چلتے بنے ۔ ارشد خان کو خود التجا کر کے وزیرِ اعظم لائے تھے اور جن کی خطا معلوم نہیں ۔ وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری ، جن پہ کپتان کو اس قدر ناز تھا۔
ان صحبتوں میں آخر جانیں ہی جاتیاں ہیں
نے عشق کو ہے صرفہ نے حسن کو محابا

کارِ سیاست میں ذاتی لڑائیوں کا انجام بھی آخر کار خرابی و خواری ہی ہوا کرتا ہے ۔ ہارنے والے تو ہار جاتے ہیں ۔ جیتنے والے بھی آخر کو ظفر مند نہیں ہوتے ۔ ذاتی ہی نہیں ، اجتماعی زندگی کا حسن بھی یہی ہے کہ ہر کوئی اپنے دائرۂ کار میں رہے۔
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا

ایک الزام چوہدری سرور پر یہ ہے کہ صاف پانی والے منصوبے کے لیے اپنے نام سے ایک ادارہ انہوں نے بنا رکھا ہے ۔ کہنے والے یہ کہتے ہیں کہ ایک اعلیٰ سرکاری منصب دار کو اس بے قاعدگی سے گریز کرنا چاہیے۔

پنجاب کے چمن میں بہت شگوفے شاید اس لیے بھی پھوٹ رہے ہیں کہ جہانگیر ترین اب کچھ زیادہ ہی سرگرمِ عمل ہیں ۔ پنجاب کے وزرا اور افسروں سے ملتے اور رہنمائی فرماتے ہیں ۔ پارٹی پہ دھن لٹایا ہے۔ صوبائی اور مرکزی حکومت کی تشکیل کے ہنگام جوڑ توڑ میں سب سے اہم کردار انہی کا تھا۔ ان کے بعد اگر کسی کا ہے تو ان کے ہوائی جہاز کا۔ عدالتِ عظمیٰ نے بے شک نا اہل قرار دے دیا ۔ اپنے ذاتی ملازموں کے نام پہ کاروبار کرتے رہے۔ بیرونِ ملک رکھے اثاثے چھپانے کا بھی لیکن جسے پیا چاہے، وہی سہاگن۔

کمال یہ ہے کہ سب مخالف اور متصادم لیڈروں کو اچانک عثمان بزدار پہ پیار آنے لگا ہے ۔ پارلیمانی پارٹی کے پچھلے اجلاس میں ایک ایم پی اے اچانک اٹھا اور وزیرِ اعلیٰ پہ اعتماد کا اظہار کیا۔ تماشائیوں نے تالیاں بجائیں ۔ اگلے دن خبر یہ چھپی کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کے نمائندوں نے وزیرِ اعلیٰ پہ اظہارِ اعتماد کر دیا ۔ پروپیگنڈے کے کاروبار میں یہی ہوتا ہے لیکن جہانگیر ترین اور چوہدریوں کے دل میں محبت کا چشمہ کیوں پھوٹا ؟
یہ کیا تماشہ ہے؟

سیاسی حرکیات کا ادراک رکھنے والا کوئی بھی شخص جانتا ہے کہ عثمان بزدار کو آخر چلے جانا ہے ۔ چھوٹی موٹی خطا الگ مگر کوئی جرم ان سے سرزد نہیں ہوا ۔ بات بس اتنی ہے کہ دس بارہ کروڑ کے صوبے کو چلانے کی اہلیت وہ نہیں رکھتے۔ تجربہ ہے ، سیاسی خاندانوں کا فہم اور نہ افسر شاہی کے گھوڑے پہ سوار ہونے کی تاب و توانائی۔ رہ و رسمِ سیاست سے وہ آشنا ہی نہیں ۔ اپنی ذات کے اعماق میں گم ۔ وہ یہ جوہر جگا بھی نہیں سکتے ۔ کارگہ حیات میں ہر آدمی کا ایک کام ہوتا ہے ۔ ہر فن کے لوگ ہوتے ہیں ۔ جس کا کام اسی کو ساجھے۔

پھر یہ سب لوگ وزیرِ اعلیٰ ہائوس پہ صدقے واری کیوں ہیں ؟ شاید مستقبل کے امکانات ۔ کہا جاتا کہ چوہدری صاحبان مونس الٰہی کو وفاقی کابینہ میں کھپانے پر مصر رہے ۔ سننے میں آیا ہے کہ اب گورنر ہائوس پہ چوہدری پرویز الٰہی کی نظر ہے ۔ کس لیے؟ اس منصب میں کیا رکھا ہے ؟ حریفانِ بد گمان یہ کہتے ہیں کہ نیب سے دھڑکا لگا ہے اور گورنر کو استثنیٰ حاصل ہوتا ہے ۔ دوسری طرف قیاس آرائیاں یہ ہیں کہ جہانگیر ترین مہلت حاصل کرنے اور اپنی مرضی کا وزیرِ اعلیٰ متعین کرانے کی تاک میں ہیں۔

یہ ایک اور تماشہ ہو گا ۔ گاڑی ڈرائیور چلاتا ہے ۔ پچھلی نشست پہ بیٹھا ہوا آدمی نہیں ، خواہ وہ کیسا ہی خوگر اور طاق ہو ۔

پاکستانی بالخصوص پنجاب کی سیاست ایک سستا سا ڈرامہ بن گئی ہے۔ اجتماعی زندگی کے ابدی قوانین کو جب ملحوظ نہ رکھا جائے۔ طے کرنے والے جب ترجیحات طے نہ کر سکیں تو یہی ہوتا ہے ۔ غالبؔ نے جب یہ کہا تھا کہ اک کھیل ہے اورنگِ سلیماں میرے نزدیک تو کیا اس کی مراد فنا پذیر زندگی کے کھیل میں انہماک سے تھی، آخر جو تمام ہوتا اور حیرت و حسرت کی کہانیاں چھوڑ جاتا ہے۔

کون جانے۔ شاعری کی جہات کبھی بہت پیچیدہ ہوتی ہیں ۔ ہاں مگر اقبالؔ کا پیغام واضح ہے
سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آذری

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے