اور حکومت کوہاٹ جانے کا راستہ سمجھا رہی ہے

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی پنجاب کے کسی ڈیرہ غازی خان میں ایک جہاندیدہ سیاسی استاد محلے کے شاگردوں کو تربیت کے لیے شہر سے باہر بڑی نہر پر لے گیا اور ان سے کہا کہ آج ہم عملی طور پر سیکھیں گے کہ عام آدمی میں سیاسی شعور کیسے پیدا کیا جاتا ہے۔

نہر کے دوسرے کنارے پر ایک اجنبی جا رہا تھا۔ استاد نے اجنبی کو اپنے کنارے سے باآواز بلند سلام کیا۔ اجنبی نے دوسرے کنارے سے گرمجوشی سے وعلیکم السلام کہا۔استاد نے اس سے پوچھا کہاں جا رہے ہو دوست، کہاں سے آ رہے ہو ، قوم کیا ہے ، گاؤں کونسا ہے ؟ اجنبی سب سوالوں کے جواب خوش دلی سے دیتا چلا گیا۔استاد نے پوچھا تیرنا آتا ہے ؟ اجنبی نے کہا تیرنا نہیں آتا۔

یہ سنتے ہی استاد نے پینترا بدلا اور اجنبی کو ننگی ننگی گالیاں دینا شروع کردیں۔اجنبی کو بھی غصہ آ گیا اور وہ بھی ترکی بہ ترکی فحش اشارے کرتے ہوئے زور زور سے جواب دینے لگا۔اجنبی کے منہ سے جھاگ نکلنے لگے۔ اس نے ڈھیلے اٹھا کے مارنے شروع کر دیے مگر نہر کا پاٹ اتنا چوڑا تھا کہ ڈھیلے دوسرے کنارے تک نہیں پہنچ پائے۔یہ گلیاری میچ لگ بھگ دس بارہ منٹ تک جاری رہا۔پھر اجنبی اچانک خاموش ہو گیا اور اپنا سر کھجانے لگا۔استاد کی گالیاں جاری رہیں مگر اجنبی نے سنی ان سنی اختیار کر لی اور اپنی راہ پر چلتا چلتا نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔

شاگردوںنے پوچھا استاد جی یہ آپ نے کیا حرکت کی ، اس کا مطلب کیا ہے ؟ استاد نے کہا کہ تم نے شائد پوری طرح دھیان نہیں دیا ۔میں نے حال احوال کے بعد اجنبی سے پوچھا کہ تیرنا آتا ہے ؟ جب اطمینان ہو گیاکہ اسے تیراکی نہیں آتی تو پھر میں نے اسے گالیاں دینا شروع کیں۔اس نے بھی جواباً جبلت کے ہاتھوں مجبور ہو کر مجھے ترکی بہ ترکی نوازا اور غصے کے ہاتھوں بے بس ہوکر مجھے ڈھیلے بھی مارنے کی کوشش کی۔پھر اچانک اسے احساس ہوا کہ نہر کے چوڑے پاٹ کی وجہ سے وہ تو میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا لہٰذا اپنی توانائی خوامخواہ کیوں ضایع کر رہا ہے۔ چنانچہ وہ اپنا مزید رکنے کے بجائے میری گالیاں نظرانداز کرتے ہوئے لعنت بھیجتا ہوا دوبارہ اپنے راستے پر چل پڑا۔گویا اسے شعور آ گیا کہ اس کی اصل ترجیح کیا ہے۔اب وہ یہ تجربہ اور اس تجربے کے نتیجے میں حاصل تجربے کو کبھی نہیں بھولے گا۔

اگلے دن سیاسی استاد نے پھر شاگردوں کو جمع کیا اور بس اڈے پر لے گیا۔ایک بس رکی اور استاد نے اس میں سے اترنے والے ایک مسافر کو پکڑ لیا اور پوچھا دوست کہاں سے آ رہے ہو ؟مسافر نے کہا کوہاٹ سے۔ استاد نے کہا میں کبھی کوہاٹ نہیں گیا مگر وہاں میرا ایک بڑا اچھا دوست رہتا ہے۔سوچتا ہوں کسی دن مل ہی آؤں۔ اگر میں ڈیرہ غازی خان سے کوہاٹ موٹر سائیکل پر جانا چاہوں تو کس راستے سے ؟ مسافر نے بہت ہمدردی کے ساتھ استاد جی کو پورا راستہ سمجھایا کہ یہاں سے آپ سیدھی انڈس ہائی وے پکڑیں، پہلے تونسہ آئے گا، پھر ڈیرہ اسماعیل خان اور اس سے آگے اسی انڈس ہائی وے پر کوہاٹ آئے گا اور کوہاٹ سے یہی سڑک پشاور چلی جائے گی۔

استاد نے پوچھا فرض کرو میں پشاور سے کوہاٹ جانا چاہوں تو راستے میں کون کون سے شہر آئیں گے ؟ اجنبی نے کہا پشاور سے آپ رنگ روڈ کراس کر کے کوہاٹ اڈے پر آئیں گے اور وہاں سے جو سڑک درہ آدم خیل جا رہی ہے اس پر چلتے ہوئے درہ کراس کر کے ایک سرنگ میں سے گذر کر ڈیڑھ گھنٹے میں پشاور سے کوہاٹ پہنچ جائیں گے۔

استاد نے کہا دوست بہت مہربانی ، میں نے آپ کا اتنا وقت لیا۔بس یہ بتا دیں کہ کوہاٹ سے کیا افغانستان بھی جایا جا سکتا ہے ؟ مسافر نے کہا بالکل۔آپ کو ہاٹ شہر سے کرم ایجنسی جانے والی سڑک لے لیں اور اس پر چلتے رہیں۔ پہلے صدا آئے گا ، پھر علی زئی اور پھر پارا چناڑ اور وہاں سے ایک راستہ افغان بارڈر تک جاتا ہے۔استاد نے کہا یارا میں نے آپ کا بہت ٹائم لے لیا آپ لمبے سفر سے تھکے ہوئے ہوں گے۔بس یہ بتا دیں کہ اگر کوہاٹ سے ایران جانا ہو تو کون سا راستہ ؟ مسافر نے استاد کو کچھ دیر بغور اوپر سے نیچے تک دیکھا اور بغیر جواب دیے ایک رکشہ کو ہاتھ دیا اور اس میں بیٹھ کر چلا گیا۔

شاگردوں نے پوچھا استاد جی یہ کیا؟ استاد نے کہا کہ تم نے دیکھا نہیں کہ چوتھے سوال پر مسافر سمجھ گیا کہ کس پاگل سے پالا پڑا ہے اس نے کہیں نہیں جانا ، یہ فضول میں میرا وقت ضایع کر رہا ہے۔ اور اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد وہ آرام سے اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگیا۔اب یہ تجربہ کئی جگہ اس کے کام آئے گا۔

ہائے ہائے ! اب ایسے سیاسی استاد کہاں جو اپنے شاگردوںاور عام لوگوں کی اس طرح تربیت کریں۔ آپ ذرا غور فرمائیں کہ پچھلے نو ماہ سے حکومت وہ راہگیر بنی ہوئی ہے جو نہر کے دوسرے کنارے پر کھڑی ہے۔ جہاندیدہ ، تجربہ کار اپوزیشن نے یہ اطمینان کرنے کے بعد کہ اسے تیرنا نہیں آتا حکومت کو گالیوں ، پھبتیوں اور لطائف کی سان پر رکھا ہوا ہے اور حکومت میں اوپر سے نیچے تک ہر کوئی اپنی راہ بھول کر نہر کے دوسرے کنارے پر کھڑا ترکی بہ ترکی میں اپنا وقت ضایع کر رہا ہے اور نہر میں ڈھیلے بھی پھینک رہا ہے اور قیمتی وقت گذرنے اور بے وقوف بننے کا احساس ہی نہیں ہو پا رہا۔

حکومتی نفسیات سے اچھی طرح واقف اپوزیشن اسمبلی میں آتی ہے اور کبھی ڈیرہ غازی خان سے کوہاٹ جانے کا راستہ پوچھتی ہے تو کبھی پشاور سے کوہاٹ آنے کا راستہ سمجھنا چاہتی ہے اور سرکاری بنچوں پر بیٹھے کسی بزرجمہر کو احساس نہیں کہ اس ضایع ہونے والے وقت میں قانون سازی کیسے ہو اور اپنے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کی تدبیر کیا ہو۔وہ دلجمعی سے اپوزیشن کو کوہاٹ آنے اور جانے والے مختلف راستے سمجھانے میں لگی ہوئی ہے۔

لگتا ہے جو نکتہ نہر کے دوسرے کنارے پر کھڑے دیہاتی اور بس سے اترنے والے مسافر کو دس پندرہ منٹ میں سمجھ میں آ گیا صرف اسے ہی سمجھنے میں اس حکومت کو کم از کم پانچ برس لگیں گے۔اور پانچ برس چھوڑ پانچ ماہ کے بعد ہی حالات کیا ہوتے ہیں، کون جانے ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے