سری لنکا بمقابلہ نیوزی لینڈ

سری لنکا میں پہلا حملہ ساحلی شہر نیگومبو میں گزشتہ اتوار صبح آٹھ بج کر پینتالیس منٹ پر ہوا، موقع تھا ایسٹر کا اور جگہ تھی سینٹ سبسٹئین چرچ۔ ٹھیک اسی وقت دارالحکومت کولمبو میں بھی تین خودکش حملے ہوئے، پہلا حملہ پرتعیش شنگریلا ہوٹل میں ہوا جب لوگ ہوٹل کے کیفے میں ناشتہ کر رہے تھے، دوسرا حملہ سینٹ انتھونی مزار میں ہوا، تیسرا حملہ کنگزبری میں ہوا اور چوتھا حملہ صرف پانچ منٹ کے فرق سے آٹھ بج کر پچاس منٹ پر سنیمن گرینڈ ہوٹل کولمبو میں ہوا، اس کے بعد پانچواں حملہ کولمبو کے ٹروپیکل ان ہوٹل میں ہوا اور چھٹا حملہ کولمبو کے نواحی علاقے میں سوا دو بجے پولیس چھاپے کے دوران ہوا۔

ایک حملہ ساحلی شہر بتیکلوا کے زیون چرچ میں صبح نو بج کر پانچ منٹ پر بھی ہوا۔ کل ملا کر ان آٹھ حملوں میں 253افراد مارے گئے جن میں 45بچے اور 39غیر ملکی شامل ہیں۔ ان حملوں نے پورے سری لنکا کو ہلا کر رکھ دیا، دھماکوں سے ہر طرف کہرام مچ گیا، پورے ملک میں کرفیو اور ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی، سری لنکن حکومت نے سوشل میڈیا پر عارضی پابندی عائد کر دی، حکومت کو ان حملوں کی کچھ نہ کچھ پیشگی اطلاع تھی مگر تامل ٹائیگرز کے ساتھ خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد سے سری لنکا میں چونکہ امن قائم ہو چکا تھا اس لیے کسی نے انٹیلی جنس رپورٹس کو درخور اعتنا نہیں سمجھا، نتیجے میں پولیس کے سربراہ اور سیکرٹری دفاع کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔

سری لنکا میں موجود مسلمانوں کے گروہوں نے ان حملوں کی شدید مذمت کی جبکہ دولت اسلامیہ نے ان کی ذمہ داری قبول کرلی۔ حملوں کے بعد سری لنکن حکومت نے 39ممالک کو دی گئی ویزا فری سہولت معطل کر دی اور ایک اندازے کے مطابق اب تک سیاحت کی مد میں سر ی لنکا کو ان حملوں کے بعد سے ڈیرھ ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ شنگریلا ہوٹل میں حملہ کرنے والے شخص کا نام انہاف ابراہیم تھا، اس کی عمر 33سال تھی اور یہ تانبے کی فیکٹری کا مالک تھا، حملوں کے بعد جب پولیس نے اس کے گھر پر دھاوا بولا تو وہاں اس کے چھوٹے بھائی الہام ابراہیم نے موقع پر خود کو بم سے اڑا لیا، نتیجے میں اس کی اپنی بیوی اور تین بچے وہیں ہلاک ہوگئے۔ تینتیس سالہ انہاف ابراہیم کے بارے میں اس کے پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ وہ معتدل خیالات کا حامل ایک امیر نوجوان تھا اور اکثر اپنی فیکٹری کے ملازمین کی زکوٰۃ خیرات سے مدد کیا کرتا تھا، اس کی شادی بھی ایک امیر خاندان کی لڑکی سے ہوئی تھی جن کا اپنا زیور کا کاروبار تھا۔

دوسری طرف اکتیس سالہ الہام ابراہیم کے بارے میں یہ اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ وہ کھلم کھلا انتہا پسندانہ خیالات کا اظہار کرتا تھا اور اس کا تعلق سری لنکا کی قومی توحید جماعت (NJT) سے تھا۔ پولیس نے ان بھائیوں کے والد محمد ابراہیم، جو ایک امیر کاروباری شخص ہے، کو گرفتار کر رکھا ہے۔ سری لنکن صدر نے ایک مقامی انتہا پسند لیڈر ظہران ہاشم، جس کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ ان تمام دھماکوں میں براہ راست ملوث تھا، کے شنگریلا ہوٹل میں ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے۔

ان دھماکوں کے بعد دولت اسلامیہ نے یوٹیوب پر ایک وڈیو اپ لوڈ کی جس میں سات مبینہ خودکش بمباروں کے ساتھ ظہران ہاشم بھی دولت اسلامیہ کے ساتھ وابستگی کا اعلان کر رہا ہے، مگر سوائے ہاشم کے کسی اور بمبار کا چہرہ وڈیو میں نہیں دکھایا گیا۔ حملہ کرنے والا الہام ہو یا انہاف، ایک بات طے ہے کہ یہ لوگ امیر اور پڑھے لکھے تھے، متمول طبقے سے ان کا تعلق تھا، صبح تیار ہو کر فیکٹری جاتے تھے، اپنے دفتری امور نمٹاتے تھے، ہمسایوں سے ان کے اچھے تعلقات تھے، سماجی روابط تھے، عام لوگوں کی طرح نارمل انداز میں زندگی گزارتے تھے، بیوی بچوں سے پیار کرتے تھے، تو پھر ان میں اس قدر نفرت کیسے پیدا ہوگئی کہ ایک روز انہوں نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ سری لنکا میں آٹھ دھماکے کرکے اڑھائی سو بےگناہ لوگ مار دئیے جن میں سے زیادہ تر وہ تھے جو گرجا گھروں میں ایسٹر کی عبادت کے لیے جمع ہوئے تھے!

اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ضروری ہے کہ اپنے ذہن سے ان تمام مفروضوں کو صاف کرلیا جائے جو ہم نے دہشت گردی کے ضمن میں پال رکھے ہیں، مثلا ًدہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، دہشت گردی غربت سے جنم لیتی ہے، دہشت گردی جہالت کی پیداوار ہے، دہشت گرد پاگل ہوتے ہیں! دہشت گردوں کا نہ صرف مذہب ہوتا ہے بلکہ ان کا اعتقاد عام مذہبی شخص سے کہیں زیادہ پختہ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کرنے والا چاہے نیوزی لینڈ کا جنونی ہو یا سری لنکن تاجر، وہ اپنے عقیدے کی بنیاد پر لوگوں کو قتل کرنے کو درست سمجھتا ہے ورنہ کوئی بھی عام آدمی صبح اٹھ کر کسی ہوٹل میں دھماکہ کرکے سو بندوں کو مارنے کا منصوبہ نہیں بناتا۔

اسی طرح غربت یا جہالت کا اگر دہشت گردی سے تعلق ہوتا تو افریقی ممالک میں ہر وقت خودکش دھماکے ہو رہے ہوتے، دہشت گرد پاگل نہیں ہوتے بلکہ ایک مخصوص بیانیے کے تحت وہ دھماکے کرتے ہیں، یہ بیانیہ سیاسی بھی ہو سکتا ہے اور مذہبی بھی، اس بیانیے کے موثر ہونے کا انحصار سیاسی، سماجی حالات، پروپیگنڈا اور برین واش کرنے والے کی صلاحیت پر ہے، جیسے برطانیہ سے تین لڑکیاں دولت اسلامیہ کی حمایت میں لڑنے کے لیے شام گئی تھیں تو وہ کسی بیانیے سے متاثر ہو کر ہی گئی تھیں ورنہ برطانیہ میں تو انہیں کوئی محرومی نہیں تھی۔ ایک سوال یہاں ہمیں خود سے بھی پوچھنا ہے۔ سری لنکا ہمارا ہمسایہ ہے، تعلقات بھی اچھے ہیں، تاریخ کی بدترین دہشت گردی وہاں ہوئی مگر ہم نے اس کا ویسا دکھ نہیں منایا جیسا نیوزی لینڈ میں ہونے والی دہشت گردی کا منایا تھا، اس وقت ہمارے میڈیا نے ٹی وی ٹاک شوز بھی کیے تھے، کوریج بھی کہیں زیادہ تھی، اخبارات میں کالم بھی لکھے گئے تھے، مگر یہ سب کچھ سری لنکا کی مرتبہ ویسے نہیں ہوا حالانکہ مرنے والوں کی تعداد پانچ گنا زیادہ تھی، کیوں؟

اس لیے کہ مرنے والے مسلمان نہیں تھے، اگر خدا نخواستہ یہ حملے گرجا گھروں کے بجائے مساجد میں ہوئے ہوتے تو ہمارا ردعمل یکسر مختلف ہوتا، پھر یہی ہم ہوتے اور یہی ہمارا میڈیا، کہرام مچا ہوتا، مگر بات وہی کہ ہم مظلوم کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے بلکہ مظلوم کا مذہب دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ اس کے ساتھ کھڑا ہونا ہے یا نہیں، نیوزی لینڈ کی وزیراعظم دنیا کو یہی تو سبق سکھا رہی ہے۔ مسلمان نیوزی لینڈ میں مظلوم ہیں وہ ان کے ساتھ کھڑی ہے، مسیحی سری لنکا میں مظلوم ہیں، ہمیں ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے، طریقہ اس کا یہ ہے کہ پاکستان میں سری لنکن سفارت خانے کے باہر اظہارِ ہمدردی کے طور پر ہم پھولوں کا اتنا ڈھیر لگا دیں کہ سفارت خانہ اس میں چھپ جائے، یہ کم سے کم ہے جو ہم کر سکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے