عمرانو فوبیا

عالمی معیشت، ڈَیٹ سروسنگ، آرٹ آف گورننس میں چینی لیڈرشپ کامیاب نہ ہو سکی۔ عمران خان کے چین جانے سے پہلے نہ انہوں نے کسی پاکستانی ہر فن مولا المعروف جَیک آف اِیوری ٹریڈ کا شو دیکھا‘ نہ وہ علم کے موتی جو اگستِ گزشتہ سے پاکستان میں جھڑ رہے ہیں۔ وہ چینیوں کی سمجھ میں آتے تو ہمارے وزیرِ اعظم کو Key Note خطاب کی بجائے فورم میں وہاں کھڑا کرتے جہاں جَیک گروپ کے ممدوحِ اعظم گُرو نواز شریف کو جگہ ملی یا چیلے ایل این جی وزیرِ اعظم کو۔

ذرا اور دیکھیے جَیک آف آل ٹریڈز نے 3 حرفی بیانیے پر وزیرِ اعظم کو بیجنگ رخصت کیا۔ پہلا، یہ کہ حکومت سی پیک منصوبہ بند کرنا چاہتی ہے۔ دوسرا، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ، پاکستان کو قرضہ نہیں دے گا۔ تیسرا، ورلڈ بینک والے تو ہمیں منہ تک نہیں لگائیں گے۔ جِیک برگیڈ کے ساتھ 2 عدد دل جلے پاپڑ اور فالودے والے اکائونٹس کے اصل مالک بھی شامل رہے۔ وہ ساری خواہشیں جو پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرنے کے لیے پاکستان دشمنوں کے دلوں میں مچلتی ہیں، اُن سب کا اظہارJACK AND JILL نے مل جل کر کیا۔ اس کے باوجود پاکستانی قیادت کو چین میں ایشیا کے اہم ترین لیڈر ملک کی قیادت کے طور پہ اہمیت دی گئی۔

آئی ایم ایف کی سربراہ بے چاری کرسٹین لیگارڈ نے گزرتے، گزرتے ایسا ”پَلّہ‘‘ مارا کہ عمران خان سے مل کر پاکستان کو قلاش ڈیکلیئر کروا دینے کی خواہشوں کا ”دِیوا‘‘ بُجھا دیا۔ باقی بچا ورلڈ بینک‘ تو اس کی سربراہ کرسٹالینا جارجیوا نے بھی نہ جانے کیوں پاکستانی وزیرِ اعظم سے ملاقات کر لی۔ امید رکھنی چاہیے‘ اپوزیشن جلد ہی ان عالمی سازشوں سے مقابلے کے لیے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے خلاف غیرت برگیڈ کی قیادت میں ملین مارچ کرے گی۔ اس ملین مارچ کے روحِ رواں دواں وہی عالمِ دوراں ہوں گے، جنہیں20 کروڑ میں سے ڈیڑھ لاکھ ووٹ ملے‘ مگر ان کا ملین مارچ کامیاب ہو گا۔ یہ ملین مارچ کچھ اور کرے نہ کرے مارچ برائے مارچ ضرور کرے گا۔

ان دنوں ہمارا دوست سری لنکا پھر وحشتوں کی زد میں ہے‘ جس کی بنیاد ہمیشہ کی طرح بھارت میں ہی رکھی گئی۔ خطے پر گہری نظر رکھنے والے کہتے تھے کہ بھارت اپنے پروردہ دہشت گرد تامل ایلام والے پربھارکرن کے قتل کا بدلہ لے گا۔ اب سری لنکن فوج اور ایجنسیوں نے ابتدائی تحقیقات کر لی ہیں‘ جن سے ثابت ہوا‘ سری لنکا میں حالیہ دہشت گردی کی لہر اٹھانے والے بھارت کے تربیت یافتہ ہیں۔ بھارت نے اپنی طرف سے تُرپ کا پتا مارا۔ اس دفعہ ایلام کی بجائے مسلمان نام والوں کو آگے کیا جائے‘ جس کا پہلا شکار سری لنکا کا امن تھا۔ دوسرا شکار سری لنکا کی مسلمان اقلیت، جس پر بدھ شدت پسند حملے کرتے آئے ہیں‘ مگر سری لنکا کے چابک دست اداروں نے بھارت کو دنیا کے سامنے ننگا کر دیا۔ ساتھ ہی سری لنکا بحیثیتِ قوم دہشت گردی کی نئی امپورٹِڈ لہر کے خلاف متحد ہو گیا ہے۔

بھارت، ایران و افغانستان کے راستے پاکستان پر ایسے ہی حملے ایکسپورٹ کرتا ہے۔ وزیرِ اعظم عمران نے اس موذی مرض کے شافی علاج کا پہلا سفر شروع کر دیا۔ افغانستان کے بارے میں یہ پالیسی دے دی کہ آئندہ ہم اس کی کسی جنگ میں کسی طرح ملوث نہیں ہوں گے۔ یہ دو طرفہ اعلان ہے، ایک طرف عالمی طاقتوں کے لیے۔ دوسری جانب افغانستان کے عوام کے لیے۔ ساتھ، ایران کے حوالے سے بھی دو اہم اقدامات ہوئے۔ دورہ کرنے سے پہلے کہہ دیا گیا کہ گوادر کے راستے میں سکیورٹی اداروں پر حملہ ایران کے اندر سے آ نے والوں نے کیا۔ حملے کے باوجود عمران خان نے ایران کا دورہ کر دیا‘ جہاں وزیرِ اعظم نے مذہبی، سیاسی اور حکومتی ذمہ داروں کو پاک ایران سرحد پر پاک افغان بارڈر کی طرح حفاظتی تار لگانے پر راضی کر ڈالا۔ یہ دونوں کام طویل عرصے سے کسی دوسری حکومت نے شروع کرنے کی ہمت تک نہ کی۔ غیر ملکی تجزیہ کار، بڑے انڈین اور مغربی اخبار عالمی اُفق پر تبدیل شُدہ پاکستان کے نئے لیڈر کے ویژن کو سراہ رہے ہیں۔ اندرونِ ملک Jack and jill بر گیڈ نے عمران خان کا دورہ ایران اور چین دونوں ناکام قرار دے دیے۔

بلکہ ان دوروں کے دوران وہ محترم اور محترمہ کی اس بحث کو اچھالتے رہے جس کا مبارک نتیجہ 48 گھنٹے پہلے سامنے آیا۔ ایک ہفتے تک وزیرِ اعظم کے بیان کو خواتین کے خلاف حملہ قرار دیا گیا۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں وہ مبارک گھڑی آ گئی جب انہی لفظوں میں وہی بیان جَیک اینڈ جِل برگیڈ کے مظلوم لیڈر نے بھی دے چھوڑا۔ ساتھ کہا: میری اُردو کمزور ہے۔ شُکر ہے ان تین خواتین کی جدوجہد ٹھکانے لگی جنہوں نے بھری پریس کانفرنس میں مخصوص رپورٹر کو اشارے کیے پھر کہا، اسی سے سوال پوچھیں۔

اس تنا ظر میں ڈاکٹر شیریں مزاری نے سوشل میڈیا پہ دلچسپ پوسٹ لگائی۔ بڑی معنی خیز اور Lethal بھی۔ اسی برگیڈ کی ایک لیڈی اینکر کی تصویر لگا کر شیریں نے یہ جُملہ لکھا ”عورتوں کی ناموس کے حوالے سے My dear friend … آپ اس وقت کہاں تھیں جب اسمبلی فلور پر مجھے ٹریکٹر ٹرالی والی بے ہودہ پھبتی کا سامنا کرنا پڑا‘‘۔ یہ تو تھی عمرانو فوبیا کی کچھ کتھا جس کی وجوہات میں مجھے جانے کی ضرورت نہیں۔ اس لیے کہ حامد میر صاحب نے منی لانڈرنگ کے مریضوں کی این آر او مہم پر گہری باتیں کر دیں ہیں، اندر کی باتیں۔ امراضِ پاپڑیت میں مُبتلا مریضوں کے واٹس ایپ پیغام سمیت۔ درونِ خانہ منت سماجت والی خُفیہ واردات بھی وہ منظر عام پر لے آئے ہیں۔

اب آئیے ذرا! جی ایچ کیو کی طرف‘ جس پر چاند ماری کی سپیشلسٹ خاتون نے صدارتی نظام پر ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ منعقد کروا دی جس میں جی ایچ کیو نے یونیورسٹی لیکچررز کو صدارتی طرزِ حکومت اور اٹھارہویں ترمیم پر بریفنگ کے لیے بُلوانا تھا۔ فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے موصوفہ سے بریفنگ کی تا ریخ بھی پوچھ لی‘ اور کہا کہ آپ عادتاً دروغ گوئی اور ابہام پیدا کرنے کی عادی ہیں۔ یوں میٹنگ پر کسی تبصرے کی گنجائش نہیں بچی۔ کیونکہ آئی ایس پی آر کے ڈی جی میجر جنرل آصف غفور نے خاتون کو میٹنگ کا کھلا دعوت نامہ اپنی ٹویٹ کے ذریعے جاری کر دیا جو پڑھنے کے قابل ہے۔

چین سے آزادانہ تجارت کا معاہدہ، 16ایم او یوز، سی پیک فیز 2 پر کام کا نقطۂ آغاز ہوا۔ جب یہ وکالت نامہ آپ کے ہاتھ میں ہو گا آئی ایم ایف جائزہ مشن پاکستانی پروگرام کی نوک پلک کا جائزہ لے گا۔ ایسے میں تنقید اور تبصرے بیوروکریسی اور حکمرانوں کی اصلاح کے کام آتے ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان میں اعلیٰ درجے کے تجزیہ اور تبصرہ کرنے والے قیمتی دماغ ہیں۔ مگر کیا، کِیا جائے جب کوئی قلم کی بجائے شکم سے تجزیہ کرے۔ ہر ایشو پہ تماشہ گری کو ترجیح دے۔ کسی ملکی ادارے اور پالیسی میں خیر تلاش کرنے سے معذور ہو۔ جس کا افسوسناک مظاہرہ آمدِ رمضان پہ بھی ہو رہا ہے۔ جَیک اینڈ جِل برگیڈ ذخیرہ اندوزوں کو اُکسا رہا ہے ناجائز منافع خوروں کو ریٹ بڑھانے کی ترغیب دے رہا ہے۔

کھانے پینے کی ناقص چیزوں کی سپلائی کی پیش گوئی کر رہا ہے۔ کیا کرنے کا یہ کام نہیں کہ پرائس کنٹرول کے اداروں کو جگایا جائے۔ صارفین اور شہریوں میں گندہ، مہنگا سودا بیچنے والوں کے بائیکاٹ اور ان کے خلاف اجتماعی شعور کی بیداری مہم چلائی جائے۔ ہر فن مولا ایسا کرنے سے معذور ہیں‘ لیکن عوام نہیں‘ جس کا ثبوت ایک نہیں دو ہیں۔ پہلا مری کے سیاحوں کا بد تہذیبی کے خلا ف ری ایکشن اور دوسرا کنزیومرز کی طرف سے مہنگے فروٹ، سبزی کا بائیکاٹ۔ عمرانو فوبیا 5 سال چلے گا۔
چلتے چلتے شکیب جلالی کی بھی سُن لیجیے۔
بُرا نہ مانئے لوگوں کی عیب جوئی کا
انہیں تو دِن کو بھی سایہ دکھائی دیتا ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے