ذمہ دار صحافت کہاں ہے؟

آج آزادی صحافت کا عالمی دن ہے ۔ پاکستان اور بھارت دونوں میں صحافیوں کو کام کرنے کے لیے زیادہ آئیڈیل ماحول اور مواقع دستیاب نہیں ہیں۔ میرے خیال میں صحافت ہمیشہ سے ہی مشکل حالات میں اپنا کام کرتی رہی ہے۔ پاکستانی صحافت کے مسائل پر تو ہم بات کرتے رہتے ہیں۔ آج ذرا انڈین صحافت سے متعلق تازہ محسوسات لکھ دیتے ہیں۔

جب سے انڈیا میں نریندر مودی کی حکومت آئی ہے، بھارتی میڈیا کا بڑا حصہ اپنی نشریات (مواد) میں شدید یک طرفہ ہو چکا ہے۔ کرنٹ افئیرز کے بارے میں معلومات دینے والے چینلز سرکاری ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ٹی آر پی کے لیے کسی بھی پستی میں اُتر جانے کے لیے وہ تیار رہتے ہیں۔ کشمیریوں کی 2010 کی اپ رائزنگ ہو یا 2016 کی احتجاجی تحریک یا پھر 2017-18 کے حالات ، انڈین الیکٹرانگ میڈیا نے انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور دیانت سے عاری رپورٹںگ کی ہے۔

فروری میں پلوامہ واقعہ ، پھر بالاکوٹ اسٹرائیک ، اس کے بعد انڈین طیارہ گرنے کے واقعے کے بعد انڈین الیکٹرانک میڈیا کی کریڈیبلٹی بری طرح چیلنج ہوئی۔ سطحیت ، سنسنی خیزی ، نفرت انگیزی اور غلط بیانی اپنے عروج پر نظر آئی۔اس وقت انڈیا میں الیکشن ہو رہے ہیں ۔ مودی سرکارکی وہاں کے میڈیا میں غیر معمولی پروجیکشن جاری ہے۔ میڈیا کے علاوہ بالی ووڈ فلم انڈسٹری کا ایک بڑا حصہ بھی مودی کی سپنر ٹیم بنا ہوا ہے۔اداکار اکشے کمار کا مودی سے غیر سیاسی انٹرویو اپنے سوالات اور ٹائمنگ کے اعتبار سے ناقد صحافیوں کے ہاں زیر بحث ہے.

بھارتی ٹی وی چینلز تو تھے ہی ،وہاں کے بہت سے صحافی بھی ٹویٹر پر بی جے پی کے ترجمان بن کر اظہار خیال کر رہے ہیں ۔ ابھی پچھلے ہفتے ٹائمز آف انڈیا کے ایک شعبے کی ایڈیٹر بھارتیا جین نے اچانک معروف استاد ، اسکالر اور نوبل انعام یافتہ مصنف امرتیا سین پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ بھارتیا جین نے اپنی یکے بعد دیگرے کئی ٹویٹس میں امرتیا سین پر الزام لگایا کہ Bihar’s Nalanda University کی وائس چانسلر شپ کے زمانے میں ملازمتیں دینے میں انہوں نے دوست نوازی سے کام لیا اور وہ مالی بدعنوانیوں میں بھی ملوث رہے۔ بھارتیا جین نے یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی کہ امرتیا سین کو کانگریس حکومت کی مدد سے یہ عہدہ اور بھاری مراعات ملی تھیں ۔

جب بھارتیا جین سے پوچھا گیا کہ ان معلومات کا سورس کیا ہے تو انہوں نے صرف یہ لکھا کہ Govt sources ، یہ سب الزامات 28اپریل کو لگائے گئے تھے۔ بھارتیا جین کو اس کے بعد کافی ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔ یہ تاثر بھی ابھرا کہ امرتیا سین کا میڈیا ٹرائل اس لیے کیا گیا کہ وہ بی جے پی کی حمایت نہیں کرتے۔ بالآخر 2 مئی کی صبح سوا 7 بجے بھارتیا جین نے ایک ٹویٹ کی جس میں اپنے الزامات کو مکمل طور پر غلط کہا اور امرتیا سین سے معافی مانگی ۔ بھارتیا کی ٹویٹ کے الفاظ یہ تھے :

سوال یہ ہے کہ صحافی کی اس درجہ غیر ذمہ داری کا ازالہ ٹویٹر پر محض معافی مانگ لینے سے ہو جائے گا ؟ امرتیا سین صاحب علم انسان ہیں ، ان کا ظرف تو وسیع ہوگا ، ممکن ہے وہ معاف بھی کر دیں لیکن کیا اہل صحافت یہ سوچیں گے کہ ان کا کام مکمل ذمہ داری کے ساتھ معلومات آگے چلانا ہے ۔ کسی سیاسی بندوق کے لیے کندھا بن جانا تو صحافی کی پروفیشنل کمیپٹنسی پر بڑا سوال ہے۔

(یہاں امرتیا سین پر لگائے گئے الزامات کا تجزیہ کیا گیا ہے ، دلچسپی رکھنے والے احباب دیکھ سکتے ہیں)

بھارتی صحافی حلقوں کا مثبت پہلو بھی میرے پیش نظر ہے ۔ وہاں کے بہت سے ایسے صحافیوں کو میں جانتا ہوں جنہوں نے ایڈیٹوریل کی آزادی کی برقرار رکھنے کے لیے مین اسٹریم اور ٹی آر پی کی دوڑ میں مبتلا میڈیا کے متوازی ڈیجٹیل فورمز قائم کیے ہیں ۔ چند فورمز ایسے ہیں جو کسی بھی قسم کا اشتہار نہیں لیتے، انہوں نے اپنی ویب سائٹس پر قارئین سے اپیلیں کر رکھی ہیں کہ آزادصحافت کے فروغ کے لیے ہمیں مالی طور پر سپورٹ کریں ۔ دی وائر ، نیوز لانڈری سمیت کئی ایسے فورمز ہیں جنہوں نے صحیح معنوں میں پروپیگنڈہ میڈیا کی اجارہ داری کو چیلنج کیا ہے۔ کچھ صحافیوں نے یوٹیوب پر چینلز بھی بنا رکھے ہیں جن کے ناظرین کی تعداد لاکھوں میں ہے۔

پاکستان کا مین اسٹریم میڈیا اور اخبارات بھی کئی طرح کے مسائل کا شکار ہے ۔ ابلاغی ادارے حکومتی اشتہارات میں کمی کی شکایت کر رہے ہیں ۔ صحافی اپنی ملازمتوں کے معاملے میں خود کو محفوظ تصور نہیں کر رہے۔ میڈیا کا ایک بڑا حصہ ریاستی سنسر شپ اور سیلف سنسر شپ کی شکایت کر رہا ہے۔ ان حالات میں صحافت کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے لوگوں کو متبادل اور نئے ذرائع کی جانب توجہ دینا ہو گی۔ درست انفارمیشن کے لیے ڈیجیٹل فورمز اور سوشل میڈیا میں کافی امکانات ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے