اکیلے نہ جانا!!

متوالا ورکر: (بے تکلفی اور منہ پھٹ انداز میں گاتے ہوئے) اکیلے نہ جانا،ہمیں چھوڑ کر تم، اس بار ڈیل کرنی ہے تو پہلے سے بتا دیں۔

لیڈر :(سنجیدہ اور دھیمے لہجے میں) ایسی کوئی بات نہیں، ڈیل ہو رہی ہوتی تو ہم پر سختیاں کم نہ ہو جاتیں، ابھی تک نئے نئے مقدمات بن رہے ہیں، علاج کیلئے ضمانت نہیں ہو رہی، باہر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔

متوالا:بیس سال پہلے بھی آپ نے ایسے ہی ڈیل کر لی تھی اور ہم اکیلے رہ گئے تھے اور آپ جدہ کے سرور محل میں جابسے تھے۔

لیڈر:وہ فیصلہ بھی درست تھا وگرنہ مشرف تو ہمیں صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیتا، نہ رہتا بانس نہ بجتی بانسری (مسکراتے ہوئے) نہ پارٹی باقی رہنا تھی نہ ہم۔ ہماری حکمت عملی درست نکلی۔

متوالا:کل سے مجھے جیالے اور انصافی دونوں طعنے دے رہے ہیں کہ تمہارے لیڈر فرار ہونے والے ہیں، این آر او ہو رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔

لیڈر:ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ مقدمات عدالتوں میں ہیں، اِس میں ڈیل یا ڈھیل والی کوئی بات سرے سے ہی نہیں ہے۔

متوالا:رانا تنویر کو چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور خواجہ آصف کو پارلیمانی لیڈر نامزد کرنا اِس بات کی صاف نشانی ہے کہ ہماری قیادت نظروں سے پیچھے ہٹنا چاہتی ہے اور اپنے ذاتی معاملات ٹھیک کرنا چاہتی ہے۔ یہ کوئی اچھی سیاست نہیں، اِس کا ہماری جماعت پر برا سیاسی اثر پڑے گا۔

لیڈر:رانا تنویر اور خواجہ آصف دونوں بااعتماد ساتھی ہیں، اُن کو عہدے دینے کا مقصد اختیارات کی تقسیم ہے۔ اب بھی پارٹی صدارت شہباز شریف کے پاس ہے، ہر بات پر میرا مشورہ بھی شامل ہوتا ہے۔

متوالا:کچھ تو ہے کہ جس کی پردہ داری ہے، نہ آپ بولتے ہیں نہ مریم بی بی کے ٹویٹر سے کچھ سامنے آتا ہے اور نہ ہی شہباز شریف کوئی واضح موقف لے رہے ہیں، پارٹی کنفیوژ ہے۔

لیڈر:ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو چھپایا جائے، یہ حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اِس وقت نہ الیکشن ہو رہے ہیں، نہ جلسے اور نہ ہی کوئی تحریک چلنے کا امکان ہے۔ تحریک انصاف خود اپنے بوجھ سے ناکام ہورہی ہے، ہماری پالیسی فی الحال ’’دیکھو اور انتظار کرو‘‘ کی ہے۔

متوالا:پارٹی مردہ ہو رہی ہے، نہ کوئی جلسہ، نہ جلوس اور نہ ہی کوئی تنظیمی اجلاس، اِس طرح تو لوگ ہماری جماعت سے مایوس ہو جائیں گے۔ آپ بیرون ملک چلے گئے تو پارٹی تتربتر ہو جائے گی۔ فارورڈ بلاکس بھی بن سکتے ہیں۔

لیڈر:دیکھو ہمارا ووٹ بینک پارٹی کے ساتھ وفادار ہے، یہ بزنس مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہے، تحریک انصاف بجٹ میں اُن پر ٹیکس لگائے گی اور یہ ہمیں پہلے سے زیادہ یاد کریں گے۔

متوالا:اگر تحریک انصاف نے بازاری طبقے کو ریلیف دے دیا تو یہ ہمیں چھوڑ کر تحریک انصاف کی بینڈ ویگن میں بیٹھ جائیں گے۔

لیڈر:آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہونے جارہا ہے، 600ارب روپے کے نئے ٹیکس لگنا ہیں اور یہ سارے کے سارے بزنس مڈل کلاس پر لگنا ہیں، اِس لئے ہمارے منظر سے ہٹنے کے باوجود ہمارا ووٹر ہمارے ساتھ ہی رہے گا۔ جدہ جلاوطنی کے دوران بھی ہمارے ووٹر نے ہمیں نہیں چھوڑا تھا اور اب بھی ہم اگر علاج کے لئے باہر گئے تو کوئی ہمیں نہیں چھوڑے گا۔

متوالا:آپ بادشاہ لوگ ہیں، گلیوں بازاروں میں لوگوں کے طعنے تو ہم سنتے ہیں۔ پچھلی دفعہ آپ جلاوطن ہوئے تو (ق)لیگ بن گئی تھی، ہماری آدھی قیادت ہمیں چھوڑ گئی تھی۔ لوگ پچھلی دفعہ بھی ناراض ہوئے تھے، دوبارہ یہی کام ہوا تو زیادہ ناراض ہوں گے۔

لیڈر:( جذباتی انداز میں) اصل میں کوئی اندازہ ہی نہیں کر سکتا کہ ہم پر کتنی سختیوں کے پہاڑ توڑے گئے ہیں۔ میری بیگم مجھ سے بسترِ مرگ سے بات کرنا چاہتی تھی، وہ نہیں کرنے دی گئی۔ میری بے قصور بیٹی مریم سالوں عدالتوں میں دھکے کھاتی رہی، اب شہباز شریف کے خاندان کی عورتوں تک کو مقدمات میں ڈال دیا گیا ہے، ایسا تو پاکستانی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ ہم نے اپنے حصے سے کہیں زیادہ لڑائی لڑ لی، قربانیاں دے دیں، اب باقی قوم بھی اپنا حصہ ڈالے۔ کدھر ہیں صحافی؟ کدھر ہیں وکلاء اور کدھر ہیں تاجر اور سیاستدان؟ کیا ساری لڑائی اکیلے شریف خاندان نے ہی لڑنی ہے۔

متوالا:(ٹھنڈے لہجے میں) آپ جو کہہ رہے ہیں درست کہہ رہے ہیں مگر لیڈر سب کے لئے مثال بنتے ہیں۔ بھٹو اور بے نظیر نے جان قربان کردی مگر ڈیل نہیں کی۔ جیالے ہمیں ڈیل کے طعنے دے رہے ہیں۔ (تلخی سے) اگر تحریک کو منزل تک نہیں لے جانا تھا تو یہ جمہوری موقف لیا کیوں تھا؟ اُس وقت ہی ڈیل کر لیتے۔

لیڈر:(متوالے کو تھپکی دیتے ہوئے) ایک اکیلے لیڈر یا ایک خاندان کی قربانیوں سے ملک میں مکمل جمہوریت نہیں آسکتی، پوری قوم کو قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ ہمارے ساتھ سراسر زیادتی ہوتی رہی اور پوری قوم سوتی رہی، کسی بھی منصف، وکیل، صحافی اور ہمارے دوست نے آواز تک بلند نہ کی۔ جدوجہد خلا میں نہیں ہوتی، اُس کے لئے اتحاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ عوامی امداد اور تعاون حاصل نہ ہو تو قربانی بھی رنگ نہیں لاتی۔

متوالا:ناراض نہ ہوں تو عرض کروں، نیلسن منڈیلا اور بھٹو کی طرح پہلے خود قربانی دینا پڑتی ہے، آخری حد تک یعنی سولی تک چڑھنے کے لئے تیاری کرنا پڑتی ہے پھر کہیں جاکر لوگ باہر نکلتے ہیں اور آپ کے ہم آواز بنتے ہیں۔ ہماری کمزوری یہی ہے کہ ہم جمہوری تحریک کو درمیان میں چھوڑ کر جان بچانے کے لئے ڈیل کرتے رہے ہیں۔

لیڈر:(قہقہہ لگاتے ہوئے) جان ہے تو جہان ہے جب جدوجہد کا وقت تھا تو ہم اُس وقت نہیں جھکے، اب جدوجہد کا نہیں مصلحت اور حکمت عملی بنانے کا وقت ہے، ہر کام اور ہر فیصلہ وقت پر کرنا ہی اصل سیاست ہے۔

متوالا:تو کیا یہ سمجھا جائے کہ اِس حکمت عملی کا مطلب کوئی ڈیل ہے ،انڈراسٹینڈنگ ہے یا صرف کوئی سیاسی دائو؟

لیڈر:جو مرضی سمجھو یہ اعتماد بحال کرنے، وقفہ لینے اور نئے سرے سے دوبارہ آنے کی کوشش ہے۔

متوالا:اچھا تو یہ سی بی ایم (Confidence Building Measures)ہیں۔

لیڈر:( قہقہہ)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے